dth mein takhair mulk ka nuqsan

ڈی۔ ٹی۔ ایچ میں تاخیر، ملک کا نقصان۔۔۔۔؟

تحریر: ناصر جمال۔۔

آخر، ہم کب بالغ ہونگے۔ کب اپنی سمت درست کریں گے۔ وہ دن کب آئے گا۔ جب ہم ذات کی بجائے، ملکی مفادات کے سامنے خود کو سرنگوں کریں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر وہ کام، جس سے ریاست، ملک اور عوام کو فائدہ پہنچے، وہی متنازعہ کیوں بنا دیا جاتا ہے۔

دنیا، تیزی سے بدل رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) دنیا میں خوفناک تبدیلیاں برپا کررہی ہے۔ اے آئی کے بعد اے آئی ٹو اور اُس کے بھی ایڈوانس چیزیں متعارف ہونے کو ہیں۔

ہم دس سال سے یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ ڈی۔ ٹی۔ ایچ، حلال ہے یا حرام ہے۔پڑوس میں سات سے 11 ڈی ٹی ایچ چل رہے ہیں۔اور کم از کم دو دہائیوں سے چل رہے ہیں ۔کہتے ہیں ایک زمانے میں پی ٹی وی بھی انڈین ڈی ٹی ایچ پر تھا ۔انتہائی معذرت کے ساتھ،                             ایلون مسک کا سٹارشپ پروگرام، دنیا کو مکمل طور پر بدلنے جارہا ہے۔ تیز رفتار انٹرنیٹ دنیا کے ہر کونے میں دستیاب ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ اس کے جدید موبائل فونز کو چارج کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ متبادل توانائی اور جدید ترین معلومات تک رسائی، کے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی، دنیا کو وردِ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔

آج، آپ جس شہر میں چلے جائیں۔ کیبل کے بے ہنگم اور بدصورت تاروں نے شہروں، شاہرائوں اور گلیوں کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ ہزاروں حادثات ہوچکے ہیں۔ بجلی کمپنیوں اور شہری اداروں کے لئے یہ کسی عذاب سے کم ہیں ہیں۔ ساٹھ ملین ٹی۔ وی والوں کی 95 فیصد اکثریت کے پاس ڈیجیٹل فیڈ ہی نہیں ہے۔ عجیب نظام ہے۔ ڈسٹی بیوٹر کو براڈکاسٹ والوں کو پیسے دینا پڑ رہے ہیں۔  ایسے میں کوالٹی انٹرٹینمنٹ کو تو پھر بھول ہی جائیں۔ کیبل کا جو معیار آج ہے۔ اس سے میڈیا کی ریٹنگ اور ریکنگ تو ممکن ہی  نہیں ہے۔وگرنہ پاکستان میں میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کے سیٹھ ننگے ہو جائیں گے۔ جس ڈیٹا سے مارکیٹنگ کمپنیاں اندازے لگاتی ہیں۔ وہ بہت ہی محدود ہے۔ گیلپ سروے کی تعداد کی طرح،انتہائی غیر معتبر ڈیٹا ہے۔

اگر پورے ملک میں ڈی۔ ٹی۔ ایچ (ڈائریکٹ ٹو ہوم) کنکشنز دستیاب ہوئے تو تاریں نہیں بچھانی پڑیں گی۔ ہزاروں نوکریوں کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ بہترین کوالٹی کی فیڈ، ٹی۔ وی، سیٹس کو دستیاب ہوگی۔ لوگوں کو اپنی پسند کے مطابق سینکڑوں چینل دستیاب ہونگے۔ جہاں وہ اپنی پسند، ذوق اور ضرورت کی تسکین کرسکیں گے۔ فاصلاتی اور آن لائن نظام تعلیم کو نئی جہت ملک میں پہاڑ ہو یا صحرا میدان ہوں کہ دریا اور ساحلی علاقے، پوٹھوہار ہو کہ تھریا بلوچستان کے ریزگار، ہر آدمی تک اطلاعات، کلچر، تہذیب، تعلیم، معلومات، معیشت، پر نظر رکھنے کے پلیٹ فارم ہونگے۔آپ اندازہ کریں، رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان صوبہ خیبر پختون خواہ جی بی ،ایک عرصہ سے دہشت گردی اور ملک دشمنوں کے خلاف جنگ جاری ہے۔کبھی کسی نے سوچا وہاں پر کون سا ڈی ڈی ایچ چلتا ہے۔یقینی طور پر وہاں انڈین ڈی ٹی ایچ ہی چلتا ہے۔حالانکہ ان علاقوں میں کم از کم 25 سال پہلے پاکستانی ڈی ٹی ایچ لانچ ہو جانا چاہیے تھا۔تاکہ دشمن کے بیانیے کا مقا                    بلہ کیا جاتا اور اپنے لوگوں کو دشمن کی چالوں سے اور ساشوں سے  بروقت آگاہ رکھا جاتا۔بیانیہ کا مقابلہ بیانیہ کی دنیا میں ہوتا ہے۔اس کے لیے ٹیکنالوجی اور ریاست سے محبت رکھنے والے لوگ خود مقابلہ کرتے ہیں۔ریاست کا کام اپنے لوگوں کو بہترین ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے۔آپ مقامی ڈی ٹی ایچ لے کر تو آئیں ملک میں ایک سے ایک میڈیا ہائوس کھلے گا۔ لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں، عام آدمی تک رسائی کے اس بہترین ذریعے سےاستفادہ کرنے کے لئے ، اپنے اندازے سے زیادہ بجٹ یہاں لگائیں گی۔ میڈیم اور چھوٹی صنعتوں کو فروغ ملے گا۔ عام آدمی بھی روزگار، مصنوعات کے نت نئے آئیڈیاز حاصل کرے گا۔ اس ملک میں تعلیم، موسیقی، ادب، فنون لطیفہ، کھیلوں، کلچر، تہذیب، پہناوے، رہن سہن کے کمال زاویے کھلیں گے۔ کسان، جدید ٹیکنالوجی کو دیکھیں گے تو نئی ریسرچ اور نئی مصنوعات سے روشناس ہونگے۔

معاشرے کی تشکیل کے لئے ہر فرد تک ریاست کی رسائی ہوگی۔ تعلیم اور شعور راج کریں گے۔ ہمارے لوگوں میںدنیا بھر سے رابطے کی خواہش ہوگی۔ سیروسیاحت کو کمال فروغ حاصل ہوگا۔ لوگوں پر، مختلف علاقے، آب و ہوا، مصنوعات کھلیں گی۔ لوگوں کی معیشت بہتر ہوگی۔

ایسے ہزاروں امکانات ہیں۔ ہزاروں نئےراستے اور زاویے ہیں۔ ہر شعبے کی ہزاروں جہتیں ہیں۔آپ اپنے ذہن کو تو کھولیں

آخر کون؟

جو نہیں چاہتا کہ یہاں کے لوگوں کے ذہن کھلیں۔ ملک میں ایک نئی ڈیبیٹ ہو۔ لوگوں میں مقابلے کی جستجو تو پیدا ہو۔معیشت 340 ارب ڈالر سے 3400 ارب ڈالر کی جانب فاصلہ طے کرے گی۔

بہت افسوس ہوتا ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھوٹان سے بھی پیچھے جارہے ہیں۔

2015ء میں ڈی۔ ٹی۔ ایچ میمورنڈم آیا تھا۔ 2016 میں بولیاں دی گئیں۔ 11 کمپنیوں نے حصہ لیا۔ تین کمپنیاں ہائی ایسٹ بڈر قرارپائیں۔ انھوں نے پانچ سال پہلے سوا دوارب روپیہ پندرہ فیصد کے حساب سے پیمرا کو جمع کروا دیا۔ دو کمپنیاں عدالت میں گئیں۔ سپریم کورٹ نے ڈیڑھ سال کے بعد ڈی ٹی ایچ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پھر سیکیورٹی کلیئرنس کا مرحلہ آیا۔ شہزاد سکائی نے یہ کلیئرنس حاصل کرلی۔

2019 میں انھیں لائسنس ایوارڈ ہوا۔ یہاں 6 ماہ کی تاخیر سے قواعد، شرائط و ضوابط طے ہوئے۔ یہاں پر ’’پاک سیٹ‘‘ کو فرسٹ رائٹ آف ریفیوزل دیا گیا۔

2020ء میں کرونا نے پوری دنیا کو ہلا دیا۔ دنیا بند ہوگئی۔ بلکہ یوں کہیں بدل گئی۔ ایل۔ سی تک بند ہوگئیں۔ لوگوں کا دیوالیہ نکل گیا۔

کرونا کے ختم ہونے کے بعد، اور اُس کے دوران دنیا بھر کی حکومتیں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوئیں۔ مگر پاکستان میں الٹا ہی حساب رہا۔ لوگوں اور کمپنیوں کو جہاں موقعہ ملا، رگڑا لگا دیا گیا۔

2023 میں پاک سیٹ، سخت کوششوں کے بعد، ایک معاہدے پر آئی۔ ایک سال گزرنے کے بعد،پاک سیٹ نے رپورٹ بیک کیا۔ اور پھر معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا۔

جبکہ اسی دوران پیمرا نے تین میں سے دو سیکیورٹی کلیئر نہ ہونے والی کمپنیوں کے بعد، باقی آٹھ کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ مگر آٹھوں کمپنیوں نے واپس آنے سے انکار کردیا۔ جس کی وجوہات، بھاری ٹیکس و کسٹم ڈیوٹی اور پیمرا کے سخت قواعد و ضوابط تھے۔ پاک سیٹ نے اپنے پرانے معاہدے  کے فرسٹ رائٹ آف ریفیوزل تشریح میں پھنسی تو چیئرمین پیمرا اور اتھارٹی سامنے آئے۔ انھوں نے پاک سیٹ سے بات چیت کی تاکہ یہ ٹرانزیکشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ، ایک روشن خیال اور ترقی پسند شخصیت ہیں۔ وزارت اطلاعات میں اُن کی عمر گزری ہے۔ شعر و ادب کے دلدادہ ہیں۔ طنز و مزاح اُن کے اندر دوڑتا ہے۔ انھوں نے پاک سیٹ اور لائسنس ونر کمپنی کو اکٹھے بٹھایا۔

 قارئین !ڈی۔ ٹی۔ ایچ ایک حق ہے۔ جو حق دار کو ملنا چاہئے۔ آج ملک بھر اور با الخصوص شورش ذدہ علاقوں میں پانچ سے سات ملین غیر قانونی انڈین ڈی۔ ٹی۔ ایچ استعمال ہورہے ہیں۔ یہ پیسہ مودی سرکار کے پاس جارہا ہے۔ یقینی طورپر جب آپ دشمن کو پیسہ دیں گے تو وہ آپ کو کمزور کرنے کے لئے وہی فنڈز استعمال کرے گا۔

سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کونسی قوتیں ہیں جو قانونی ڈی۔ ٹی۔ ایچ کی بجائے، غیرقانونی اور دشمن ڈی۔ ٹی۔ ایچ کی پروموٹرز بنی ہوئی ہیں۔اس سے ریاست کو اپنا بیانیہ اپنے لوگوں تک پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ آج جب اپنے لوگ ڈھائی ارب 5 سالوں سے دیئے بیٹھے ہیں۔ انھیں کوئی سپورٹ نہیں کررہا۔ پھر کہتے ہیں ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ جب یہ حالات ہونگے۔ فیصلے کرنے میں دس سال لیں گے۔ ریڈٹیپ ازم ہوگا۔ پھر تباہی نہیں تو کیا ہوگا۔

آج پھر پیمرا بورڈ کی 183 ویں میٹنگ ہے۔ ڈی۔ ٹی۔ ایچ پھر سے دیگر آئیٹمز کے ساتھ ایجنڈے پر ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہوتا ہے یا پھر سے پاکستان اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے تو نہیں لگا دیا جائے گا۔ پاکستان کے اصل حکمرانوں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ یہ مسئلہ حل کروائیں۔ انفارمیشن کی بہت اہمیت ہے۔درست اطلاعات ہی پروپیگنڈےکا توڑ ھوتی ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کا توڑ یہیں سے تو ہونا ہے۔(ناصر جمال)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں