تحریر: علی عمران جونیئر
گزشتہ دنوں میری ایک تحریر۔۔کیا ہم نیوز بول بننے جارہا ہے سے متعلق تھی، جس کا بہت زبردست فیڈبیک آیا۔۔یہ بڑا بول نہیں، الحمدللہ، میڈیا انڈسٹری کی سب سے مقبول ترین اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ویب سائیٹ عمران جونیئر ڈاٹ کام پڑھنے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہی ہورہا ہے، اب تو ا میڈیا مالکان بھی اس کے مستقل ریڈر بن چکے ہیں۔۔۔ ہر ہفتے ہماری کئی خبروں پر چینلز مالکان یا چینلز انتظامیہ فوری ایکشن لیتی ہیں اور جس مقصد کے لئے ہم نے ا ویب سائیٹ کو شروع کیاتھا، اللہ پاک کا کروڑہا شکر ہے کہ ہم اس میں ہر گزرتے دن کامیابی کی جانب ہی بڑھ رہے ہیں۔۔ ہم نیوزکے حوالے سے ہم نے جو کچھ تحریر کیا تھا ،اس کے آفٹرشاکس ہم نیوز میں کام کرنے والوں نے محسوس بھی کئےاورپپو کے مطابق سلطانہ آپا اور درید قریشی نے بھی ہمارے بلاگ کو نہ صرف پڑھا بلکہ ہم نے جو گزارشات پیش کی تھیں اس پر عمل درآمد بھی کیا۔۔ کئی دوستوں اور ہمدردوں نے مشورہ دیا کہ اسی طرح کسی ایک ایشو یا چینل کوفوکس کرکے اس پر لکھا کرو، کافی لوگوں کا بھلا ہوجائے گا۔۔ یہ تجویز ہم نے پلو سے باندھ تو لی ہے لیکن اس پر مستقل مزاجی سے عملدرآمد بہت مشکل ہے کیونکہ مستقل مزاجی کی ہمارے اندر اسی طرح کمی ہے جیسی غیرت کی بھارتی وزیراعظم مودی میں شدت سے کمی ہے،ہم ہمیشہ سے بلکہ پہلے دن سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہماری ویب سائیٹ میڈیا ورکرز کی اپنی ویب سائیٹ ہے، ان کے مسائل، ان کی حق تلفیوں ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے میں ہمیشہ ہم دوقدم آگے ہی رہیں گے۔۔اس لئے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کے کسی ادارے میں چاہے وہ الیکٹرانکس ہو یا پرنٹ،آپ کسی بھی قسم کی ناانصافی کا شکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسئلہ حل ہوجائے اور آپ کا نام بھی سامنے نہ آئے تو آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں، ہم آپ کا معاملہ سامنے لائیں گے اور اس کے پیچھے پڑجائیں گے۔۔یعنی جہاں تک ہوسکا ہم اپنے ورکردوست کا ساتھ دیں گے۔۔
باتیں بہت ہوگئیں، اب کرتے ہیں ایک ایسے ایشو کی جانب بات ، جس کا تعلق میڈیا بحران سے ہے اور میڈیا مالکان سے بھی۔ چند برسوں سے صحا فت کا معیار محض کاروباری ہوکر رہ گیا ہے اور کیوں نہ ہو جب بزنس پرسنز صحافت کی دکان چمکائیں گے تو ظاہر ہے کہ پھر خبر کو نہیں فروخت کو اہمیت دی جائے گی۔کیا سیاسی جماعتیں کیا بزنس مین، ہر کسی نے الیکٹرانک میڈیا میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور سچ کے نام اپنا اپنا جھوٹ بیچ رہے ہیں ۔ پاکستانی عوام مفاد پرست میڈیا کے نرغے میں ہیں ، سیاسی کارکن اور نامعلوم افراد کے بھونپو ہر میڈیا ہاؤس میں براجمان ہیں جو عوام کے حقیقی مسائل پر بات کرنے کے روادار نہیں ۔جب سے ہمارے ملک میں نئے ٹی وی چینلز کھلنے شروع ہوئے ہیں ٹی وی اینکرز کی بھر مار ہو گئی ہے ۔ اس میں کچھ پرنٹ میڈیا سے منسک حضرات تھے جو ٹی وی اینکر بنے اور کئی نئے داخل ہونے والے حضرات ہیں۔ کچھ کے پاس پہلے سے عالمی حالات، ملکی معاملات اور تاریخ سے واقفیت اور تجربہ ہے اور کچھ ِادھر ُادھر سے کچھ نہ کچھ دھونڈ ڈھانڈ کے کام چلاتے رہتے ہیں۔ ہر ٹی وی چینل کی اپنی پالیسی ہوتی ہے وہ اینکرز سے اپنی پالیسی کے مطابق کام کرواتے ہیں۔پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں لائیو کہا کہ۔۔میڈیا سب سے بڑا قبضہ مافیا بن چکا ہے.۔تمام ٹی وی چینلز قبضہ مافیا کا کام کرتے ہیں، ہر چینل کے پیچھےایک قبضہ مافیا ہے اور اس کی ایک پوری تاریخ ہے۔ اینکر کی جانب سے اصرار کیا کہ گیا کہ رانا ثناء اللہ اُن میڈیا چینلز کے نام بتائیں جن کے پیچھے قبضہ مافیا ہیں.رانا ثناء اللہ نے کہا کہ کچھ چیزیں جنرل ٹرم پر چلتی ہیں.اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ قانونی طریقے سے اس چیز کو ثابت کرے۔۔
جب سے میڈیا بحران شروع ہوا ہےیعنی چھ سے زائد کا عرصہ ہوگیااب تک سوائے تین چار اینکرز کے ڈاؤن سائزنگ کا شکار ورکرز طبقہ ہی رہا۔۔ اینکرز کسی بھی چینل میں کا طبقہ اشرافیہ ہوتے ہیں۔۔طلعت حسین، مطیع اللہ جان، مرتضیٰ سولنگی کے علاوہ شاید ہی آپ کو کوئی اور نام یاد آئے جس کی اس دوران چھٹی ہوئی ہو، یہ تینوں جارحانہ مزاض اور ون سائیڈڈ نہ ہوتے تو شاید یہ اب بھی نوکری پہ ہوتے۔۔لیکن باقی ہر چینل میں جہاں درجنوں کی تعداد میں عام ورکر کو نکالا گیا وہیں طبقہ اشرافیہ کو کسی نے نہیں چھیڑا۔۔ بلکہ حیرت انگیز طور پر میڈیا بحران میں بھی مالکان اور چینل انتظامیہ اپنی پسند کے اینکرز کے لئے مال خرچ کرنے کیلئے ہر دم تیارنظر آئے۔۔چاہے وہ شہزاد اقبال کی سما سے جیو آمد ہو۔۔نیونیوزسے علی حیدر کی سما ۔۔محمد مالک کی نائنٹی ٹو نیوز سے ہم نیوز۔۔غریدہ فارقی کی جی این این سے آج نیوز۔۔ ڈاکٹر شاہدمسعود کی نیوزون سے جی این این۔۔مدیحہ نقوی کی سما سے اے آر وائی وغیرہ۔۔ایسی درجنوں مثالیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ طبقہ اشرافیہ کے لئے کوئی میڈیا بحران نہیں، یہ لوگ جب بھی سوئچ کرتے ہیں تو پہلے سے بہتر پیکیج پر جاتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنی ٹیم کو بھی لے جاتے ہیں۔۔
پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں حالیہ بحران کے پیش نظر جہاں ڈاون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے نام پر میڈیائی کارکنان کی برطرفی جاری ہے وہیں طبقہ اشرافیہ کی ہائرنگ اور سوئچنگ کا سلسلہ تھما نہیں۔۔تازہ سوئچنگ ڈاکٹر شاہد مسعود کی ہورہی ہے وہ نیوزون سے جی این این ہجرت کرنے والے ہیں جس کی ساری تیاریاں مکمل ہیں۔۔انہیں نیوزون سے کافی بہتر پیکیج پر رکھاگیا ہے۔۔مشاہدے میں آیا ہے کہ بڑے معاوضے صرف چینل ریٹنگ کے لئے آفر کئے جاتے ہیں جب چینل کا مفاد پورا ہوجاتا ہے تو پھر میڈیا کے جاری مالی بحران کا بہانہ بنا کر مراعات اور تنخواہوں کی ادائیگی روک دی جاتی ہیں نتیجہ میں اینکر ہوں یا کارکنان ادارہ چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی حال بول نیوز کا ہوا۔جہاں پورے ملک کے نامور اینکرز کو اکٹھا کیاگیا، منہ مانگے دام دیئے گئے، لیکن پھر سازش کے تحت بول بند کرایاگیا، تمام اینکرز کی اپنے مورچوں مورچوں پر واپسی ہوئی۔۔ بول ری لانچ ہوا تو اس نے اینکرز کی جگہ فنکاروں اور سیاست دانوںکو اینکرز بنادیا،منہ مانگے پیسے دیئے اور پھر نیا ٹرینڈ چینلز پر چل پڑا۔۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ سیاستدان خود اینکرز اور تجزیہ کار بن کر ٹی وی چینلز کے باقاعدہ ملازمین بن گئے ہیں ۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر پارٹی ترجمان اور دوسرے چینل پر تنخواہ دار میزبان بنے ہوتے ہیں ۔فوادچودھری اس کی تازہ مثال ہیں جو پہلے نیونیوز پر باقاعدہ اینکربن کر پروگرام ہوسٹ کرتے تھے اب وہ جیونیوز پر سلیم صافی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ میڈیا مالکان کی نظر میں اگر بحران ہے وہ مالی مسائل اور معاشی بحران کا شکار ہیں تو یہ سارا بحران اور مالی مسائل اس وقت کہاں چلے جاتے ہیں جب کسی اینکر کو کسی اور چینل سے توڑا جاتا ہے، اس سے توڑجوڑ کی جاتی ہے، اسے پیکیج اور دیگر مراعات آفرکی جاتی ہے۔۔ایک اور دلچسپ بات یہ دیکھنے میں آئی ہے اور شاید آپ لوگوں نے اسے نوٹ کیا ہو یا نہ کیا ہو، وہ یہ کہ۔۔ کوئی اینکر اگر کسی چینل سے سوئچ کرتا ہے اور وہاں جاکر مسائل کا شکارہوجاتا ہے تو واپس پرانے چینل میں آجاتا ہے۔۔ جس کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن حامد میر کی مثال لے لیں،جو جی این این گئے اور چند ماہ میں ہی واپس جیوآگئے،حالانکہ جی این این کے سی ای او ان کے چھوٹے بھائی عامر میر ہیں۔۔حامد میر کا پیکیج بھی جیونیوزسے بہت زیادہ تھا لیکن ایک سینئر اور جہاندیدہ حامد میر کو جیونیوز میں ہی واپسی میں عافیت محسوس ہوئی۔۔اسی طرح ڈاکٹر شاہد کئی بار کئی چینلز گئے اور پچھلے کچھ عرصے سے ہمیشہ لوٹ کر نیوزون ہی آئے۔۔وہ اب پھر ہجرت کررہے ہیں۔۔اندرونی حالات کیا ہیں؟ ان کی نیوزون انتظامیہ سے علیحدگی کیوں ہورہی ہے یہ راز تو ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب اچھی طرح جانتے ہیں۔۔لیکن وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ نیوزون کے مالک طاہر اے خان نے ہمیشہ اپنے دروازے ڈاکٹر صاحب کے لئے کھلے رکھے، ہمیشہ انہیں عزت دی،احترام دیا ، طاہر اے خان کی عمر میڈیا میں گزری ہے، وہ اپنے ملازمین اور ساتھیوں کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے ہیں ،ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو فری ہینڈ دیتے ہیں اور کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتے، سب سے بڑھ کر وہ اچھے پے ماسٹر ہیں۔۔
کوئی بھی میڈیا مالک ہواسے ریٹنگ چاہیئے جب کہ اینکرز کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اچھے سے اچھا پیکیج ملے۔۔دونوں فریق کی جب کیمسٹری مل جاتی ہے تو ساتھ مل کر کام شروع کردیتے ہیں۔۔ لیکن چونکہ یہ سارا گیم مفادات کا ہوتا ہے، اس لئے جلد ہی اس رشتے میں دارڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں، جس کے بعد راستے الگ ہوجاتے ہیں۔۔ڈاکٹر شاہد مسعودجاتورہےہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کی پھر نیوزون واپسی ہوگی۔۔کیوں کہ ڈاکٹر صاحب آپ ایک ہیوی پیکیج پر جارہے ہیں اوریہاں بھی سارا گیم مفادات کا ہے۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔