crime free city 2

ڈاکٹر عبدالقدیرخان صدر پاکستان بننا چاہتے تھے

تحریر : جاوید چوہدری

ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم سے میری آخری ملاقات جہاز میں ہوئی تھی‘ وہ کراچی سے اسلام آباد آ رہے تھے‘ ہماری سیٹ خوش قسمتی سے ساتھ ساتھ تھی یوں ان سے طویل گفتگو کا موقع مل گیا‘ وہ کم زور اور علیل دکھائی دیتے تھے۔

میں نے وجہ پوچھی تو وہ مسکرا کر بولے ’’ عمر بہرحال عمر ہوتی ہے‘ ہمارے سارے ساتھی ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے ہیں‘ پڑھنے لکھنے کو دل نہیں کرتا‘ صرف بندروں کو کھانا کھلا دیتا ہوں اور ٹیلی ویژن پر آپ لوگوں کی بک بک سنتا رہتا ہوں لہٰذا بیمار اور کم زور نہ ہوں تو کیا ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ نے صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا پر مہربانی کی۔

یہ بہت اعزاز کی بات ہے‘ پورا ملک آپ کا احترام کرتا ہے‘ آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’اچھا لگتا ہے بلکہ بہت اچھا لگتا ہے لیکن دنیا کی ہر کام یابی کی ایک قیمت ہوتی ہے‘ مجھے بھی قیمت ادا کرنی پڑی اور وہ قیمت اب زیادہ محسوس ہوتی ہے‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’مجھے سفر کا بہت شوق تھا‘ میں جرمنی اور ہالینڈ میں تھا تو پورے یورپ میں پھرتا رہتا تھا‘ چھوٹے سے چھوٹے یورپی دیہات سے لے کر بڑے سے بڑے شہر تک دیکھے‘ جرمنی کی کرسمس بہت شان دار ہوتی تھی بالخصوص برلن کی کرسمس میں کبھی نہیں بھلا پایا‘ دسمبر میں پورا برلن سفید ہو جاتا تھا اور میں دریا کے کنارے کنارے دور نکل جاتا تھا‘ ایمسٹر ڈیم کی ڈیم اسکوائر کی رونق بھی دل کی دیواروں پر چڑھی ہوئی ہے۔

فرنچ کلچر‘ اسپین کا کھلا پن اور قرطبہ کی گلیاں یہ سب آدھی رات کے خواب محسوس ہوتے ہیں‘ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ نے مجھ سے سفر کی یہ آزادی چھین لی‘ میں 1980 کے بعد ملک سے باہر نہ جا سکا‘ افریقہ اور یو اے ای کے چند سفر ہیں لیکن وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہوٹلوں میں سو کر واپس آگیا‘دنیا میں عام لوگوں کی طرح گھومنے پھرنے کی آزادی سے محرومی بہت تکلیف دیتی ہے‘ میرا دل چاہتا ہے میں کندھے پر تھیلا رکھ کر باہر نکل جاؤں لیکن جا نہیں سکتا‘ ملک کے اندر بھی محصور ہوں‘ سیکیورٹی کے بغیر کہیں نہیں جا سکتا‘ تعزیت کے لیے بھی جانا ہو تو ان کرنل صاحب کو بتانا پڑتا ہے‘ یہ اجازت دے دیتے ہیں توچلا جاتا ہوں ورنہ پرسادے دیتا ہوں‘‘ کرنل صاحب ہماری گفتگو کان لگا کر سن رہے تھے‘ وہ یہ سن کر ہنس پڑے‘ میں نے بھی قہقہہ لگا دیا۔

میں نے پوچھا ’’آپ کے بارے میں مشہور ہے آپ کو غصہ بہت آتا ہے اور آپ صدر پاکستان بھی بننا چاہتے تھے‘‘ وہ مسکرائے‘ غور سے میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’یہ دونوں باتیں درست ہیں‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ’’میاں نواز شریف مجھے صدر بنانا چاہتے تھے اور میں بھی راضی تھا‘ آپ اب مجھ سے پوچھیں گے‘ کیوں؟ بات پھر وہی ہے‘ سفر! میں صدربننے کے بعد بھارتی صدر عبدالکلام کی طرح ٹریول کر سکتا تھا اور یہ میرے لیے بہت بڑا تحفہ ہوتا لیکن پھر یہ ہو نہ سکا‘ نواز شریف مکر گئے بلکہ انھوں نے مجھے کے آر ایل سے بھی ریٹائرکرنے کا فیصلہ کر لیا‘‘ میں نے ٹوک کر پوچھا ’’اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے‘‘ وہ سنجیدگی سے بولے ’’میاں صاحب کانوں کے کچے ہیں۔

لوگوں نے ان کے کان بھر دیے تھے اور انھوں نے یقین کر لیا تھا‘ یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا‘ وہ سرتاج عزیز‘ رانا بھگوان داس اور عبدالستار ایدھی کو بھی صدارت کا تحفہ دے کر پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن بہرحال کیا فرق پڑتا ہے‘ باقی رہی غصے کی بات تو یہ مجھے واقعی آتا ہے اور شدید آتا ہے لیکن اس کی وجہ ہوتی ہے‘ میں منافقت‘ کام میں کوتاہی اور وعدہ خلافی برداشت نہیں کر پاتا‘ میں نے جب کام شروع کیا تو مجھے ہر طرف سے ان تینوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا‘ میں نے لوگوں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور یہ مجھے شارٹ ٹمپرڈ سمجھنے لگے۔

ان میں جنرل پرویز مشرف بھی شامل تھے‘ یہ کرنل کی حیثیت سے کچھ عرصہ میرے ساتھ کام کرتے رہے‘ میں نے ایک دن ان کی گوشمالی کی‘ یہ خاموش رہے لیکن دل میں رکھ لیا اور پھر مجھ سے اس کا بدلہ لیا مگر کیا فرق پڑتا ہے‘ میں آج بھی یہاں ہوں جب کہ وہ مارے مارے پھر رہے ہیں‘ اسے کہتے ہیں قانون قدرت‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کا دل سب سے زیادہ کس نے دکھایا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’جنرل مشرف اور نواز شریف نے‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’جنرل پرویز مشرف نے مجھے قربانی کا بکرا بنا دیا اور میرے کام اور میرے احسانات کا ایک لمحے کے لیے بھی پاس نہیں کیا۔

میرے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ انکار کر دیتے‘ آپ نے جنرل مشرف کے کہنے پر سارا الزام اپنے سر کیوں لے لیا؟‘‘ وہ دکھی لہجے میں بولے ’’مجھے چوہدری شجاعت حسین نے مجبور کیا تھا‘ میرے ان کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں‘ وہ میرے پاس آئے اور میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہا‘ ڈاکٹر صاحب ملک کو آپ کی ضرورت ہے‘ آپ نے اگر مہربانی نہ کی تو امریکا پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے دے گا۔

یہ جوہری پروگرام کو بھی غیر محفوظ ثابت کر دے گا لہٰذا آپ پاکستان کے لیے الزام قبول کر لیں اور میں چوہدری شجاعت حسین کو انکار نہ کر سکا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ اگر انکار کر دیتے تو کیا ہوتا؟‘‘ وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ’’پاکستان کے خلاف انٹرنیشنل انکوائری شروع ہو جاتی اور ہمارے جوہری پلانٹ کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دے دیا جاتا‘ ملک پر اقتصادی پابندیاںبھی لگا دی جاتیں لہٰذا میں نے اپنی گردن پیش کر دی‘ حکومت نے مجھ سے ٹیلی ویژن پر اعتراف کرایا اور مجھے اپنے گھر میں نظر بند کر دیایوں میں عالمی برادری کے ساتھ ساتھ قوم کا بھی مجرم بن گیا‘‘۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’آپ دن بھر کیا کرتے ہیں‘‘ وہ بولے ’’اخبارات پڑھتا ہوں‘ نئی کتابیں پڑھتا ہوں‘ سعدی شیرازی اور مولانا رومؒ کی مثنوی دوبارہ پڑھ رہا ہوں‘ ٹیلی ویژن دیکھتا ہوں‘ کالم لکھتا ہوں اور عزیزوں ‘رشتے داروں اور دوستوں کے انتقال پر تعزیتی پیغامات تحریر کرتا ہوں اور بس‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے اپنا روپیہ پیسہ سنبھال کر رکھا یا ضایع کر دیا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میری تنخواہ تیس ہزار روپے تھی‘ گھر میں فرنیچر تک میری بیگم جہیز میں لائی تھی۔

حکومت سے ایک گز زمین نہیں لی‘ جیسے تیسے پوری زندگی کی کمائی سے ایک گھر بنایا‘ وہ بھی میاں نواز شریف کے دور میں سی ڈی اے گرانے کے لیے آ گیا تھا‘ میں نے چوہدری شجاعت حسین کو فون کیا‘ ان کی مہربانی یہ وزیرداخلہ تھے‘ یہ ذاتی گاڑی میں بیٹھ کر میرے گھر آ گئے اور بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ یہ نہ آتے تو اس دن میرا واحد اثاثہ بھی گر چکا ہوتا‘‘ مجھے محسوس ہوا ڈاکٹر صاحب بہت دکھی ہیں‘ بہرحال ہم اسلام آباد میں لینڈ کر گئے اور وہ سیکیورٹی کی گاڑیوں کے ساتھ روانہ ہو گئے۔

میری ڈاکٹر صاحب سے کبھی کبھی ٹیلی فون پر بات ہو جاتی تھی‘ وہ سادگی کا مرقع تھے‘ فون ہمیشہ خود اٹھاتے تھے اور دیر تک بات کرتے تھے‘ آواز میں ہمیشہ توانائی ہوتی تھی‘ خاندان بھوپال سے آیا تھا‘ زندگی کے آخری دنوں میں بھوپال کا ذکر کثرت سے کرتے تھے‘ بھوپالی شہزادیوں کاتذکرہ بھی کرتے تھے اور تعلیمی اداروں کا بھی‘ 1952میں کھوکھرا پار کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ‘ جیب میں ایک پین اور سر پر ٹین کا بکسا تھا‘ یہ کل اثاثہ تھا‘ تعلیم بڑی مشکل سے پائی‘ 1967میں ہالینڈ سے میٹالرجی میںماسٹرز کیا اور 1972 میں بیلجیئم سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی‘ زبانیں سیکھنے کا شوق تھا‘ اردو‘ فارسی کے ساتھ ساتھ جرمن‘ ولندیزی‘ فرنچ اور انگریزی بھی جانتے تھے‘  ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائینامکس ریسرچ لیبارٹری میں کام شروع کر دیا۔

یادداشت فوٹو گرافک تھی لہٰذا تمام جوہری راز ازبر کر لیے‘ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور پاکستان میں جوہری پلانٹ پر کام شروع کر دیا‘ سیٹھ عابد کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے‘ یہ انھیں پرزے اور مٹیریل بتاتے تھے اور سیٹھ عابد جیسے تیسے منگوا کر ان کے حوالے کر دیتے تھے‘ جنرل اسلم بیگ نے اپنے دور میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا آڈٹ کرایا‘ پتا چلا دس برسوں میں صرف 300 ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور اتنی رقم میں سو میگا واٹ کا پاور پلانٹ نہیں آتا‘ یہ اس لحاظ سے دنیا کا سستا ترین ایٹمی پلانٹ تھا‘ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی ڈاکٹر عبدالقدیر نہ ہوتے تو پاکستان دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور نہ ہوتا لیکن 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے وقت انھیں جان بوجھ کر اگنور کیا گیا۔

یہ اس پراجیکٹ کے بانی تھے‘ یہ نہ ہوتے تو پاکستان کبھی جوہری منزل نہ پا سکتا لہٰذا یہ زیادہ عزت کے حق دار تھے‘ ہمیں ان پر جوہری راز بیچنے کا الزام نہیں لگانا چاہیے تھا اور یہ اگر مجبوری تھی تو پھر مجبوری ختم ہونے کے بعد ہمیں یہ داغ دھو دینا چاہیے تھا‘ ہمیں انھیں اس دھبے کے ساتھ دنیا سے رخصت نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ ہمارے محسن تھے‘ قائداعظم کی طرح محسن‘ قائداعظم نے ملک بنایا تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے ملک بچایا تھا لیکن ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

ہم نے انھیں چور بنا کر دنیا سے رخصت کر دیا‘ دنیا میں آج تک جو آیا اس نے چلے جانا ہے‘ ڈاکٹر عبدالقدیر بھی 10 اکتوبر 2021کو چلے گئے لیکن آپ بے حسی دیکھیے‘ محسن پاکستان کے جنازے میں صدر تھے‘ وزیراعظم تھے‘ اپوزیشن لیڈر تھے اور نہ ہی سروسز چیفس تھے‘ کیا قومیں اپنے ہیروز کو اس طرح رخصت کیا کرتی ہیں؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کی گیلی قبر پورے ملک سے یہ سوال کر رہی ہے ‘شاید اس اجتماعی بے حسی پر کوئی بول پڑے‘ کوئی ایک۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں