mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

ڈبل سواری پرپابندی،صحافتی لیڈربے نقاب۔۔

تحریر: عمیر علی انجم۔۔

آدمی جب راحت اندوری بن جاتا ہے نا….. تو قدرت اس سے کہلواتی ہے کہ “ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے، ہمارے منہ میں  تمہاری زبان تھوڑی ہے” ۔۔۔۔آپ نے کبھی دو منہ والا سانپ دیکھا ہے ؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو آپکواس کے لیے زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں ہے بس آپ کو صحافی ہونا چاہیے اوراس سے بھی آسان یہ کہ آپ کو بس ایک نظر اپنے “رہبروں” کی جانب ڈالنی ہوگی سو آپ کو دومنہ کے سانپ جابجا نظر آئیں گے۔ بات راحت اندوری سے نکلی اور دو منہ کے سانپ تک آپہنچی اسی طرح بات صحافیوں پر ڈبل سواری کی پابندی سے نکلی تھی جو کورٹ تک گئی اور پھر وہاں سے حکومت تک آگئی۔ حکومت کو ہدایت کی گئی تھی اس پابندی کے حوالے سے نظر ثانی کی جائے۔اس فیصلے کے بعد بہت سے لوگوں کے کان کھڑےہوگئے تھے۔ ان کو خدشہ پیدا ہوگیا تھا اگر حکومت نے صحافیوں کو استثیٰ دے دیا تو ان کی دکانیں بندہوجائیں گی۔

واقفان حال نے بتایا کہ نظریاتی بنیاد پر اختلافات کا ڈھونگ رچانے والے تمام مفاد پرست ایک پیج پر آگئے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی بھی طرح اس پابندی کو نہ ہٹایا جائے ورنہ یہ “کل کا لڑکا” تمام کریڈٹ لے جائے گا لیکن اب ان کو یہ کون بتائے کہ بات کریڈٹ کی تھی ہی نہیں بات صرف ان صحافیوں کی تھی جو اس پابندی کے باعث تنخواہیں نہ ملنے کے باوجود کرائے کی مد میں ہزاروں روپے خرچ کرچکے ہیں۔اگر یہ صحافیوں کے اتنے ہی خیر خواہ تھے تو ڈنرز پر لاکھوں روپے اڑانے والوں نے ان غریب صحافیوں کے لیے کسی ایسے کارڈ کا اجرا کیوں نہیں کیا جس سے ان کی کرائے کی مد میں مالی مدد کی جاسکتی ہو۔ یہ اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے تشہیرملنے کا امکان بہت کم تھا اور دوسرا ان کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

تو بات ہورہی تھی سیاسی دکانیں بچانے کی تو جس کا جتنا زور تھا اس نے اپنی تئیں تمام کوششیں کرلیں اور ایک طرح سے حکومت کے قدموں میں بیٹھ گئے کہ کسی بھی طرح اس معاملے کو لٹکادیا جائے ۔ کس نے کس کے ساتھ رابطہ کیا مجھے اس کا بخوبی علم ہے ۔اپنی گندی سیاست کے لیے ایک مرتبہ پھر انہوں نے صحافیوں کے مفادات کا سودا کیاہے

میں وقت کے ان میر جعفروں اور میر صادقوں کو بے نقاب کرتا رہوں گا اور ان کا گھناٶنا کردار صحافی برادری کے سامنے رکھتا رہوں گا۔ یہ جن کے کاندھوں پر سوار ہو کر اپنی دکانیں چلارہے ہیں انہی کو دو منہ کے سانپ کی طرح ڈسنے میں بھی مصروف ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر عدالت  میں جاچکا ہوں۔ مجھے اگر سپریم کورٹ تک بھی جانا پڑا تو میں جاٶں گا لیکن اپنی برادری کو ان دو منہ کے سانپوں کے حوالے نہیں ہونے دوں گا کیونکہ “میرے منہ میں ان کی زبان تھوڑی ہے۔۔(عمیرعلی انجم،کنوینر نیوز ایکشن کمیٹی پاکستان)۔۔

(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں