تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ہم لوگ جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں، پاسپورٹ پر تو اسے ’’پاکستانی‘‘ قوم کہہ سکتے ہیں لیکن ہماری نظر میں یہ ’’ڈاٹ قوم‘‘ ہے۔۔ یعنی اس قوم کے سامنے باقی ساری قوموں کو ’’فل اسٹاپ‘‘ لگ جاتا ہے۔ ذہانت، عیاری،چالاکی، دونمبری، سخاوت، یعنی کسی پیمانے میں بھی تولا جائے اس قوم کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔ چلیں پھر آج ڈاٹ قوم پر کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔۔ غریب علاقے ہوں یا مضافاتی بستیاں، یہاں تعلیم کے نام پر اس قوم کو جس طرح لوٹا جارہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔مضافاتی علاقوں کے انگریزی اسکولوں کی ان ننھی منی ٹیچرز کی قابلیت کا یہ حال ہوتا ہے کہ۔۔فیوچر کو ’’فٹورے‘‘ ْ۔۔میچیور کو ’’مٹورے‘‘۔۔۔ نیچر کو ’’نٹورے‘‘ کہتی ہیں۔۔اسی طرح سن ڈے کی اسپیلنگ ، ایس یو این ڈی ای لکھتی ہیں۔۔ایسی ہی ایک خاتون ٹیچر سے جب ہم نے فرمائش کی کہ ۔۔بیماری کی درخواست انگریزی میں سنائیں توانہوں نے کچھ یوں اسٹارٹ لیا۔۔ ڈیئر پرنسپل۔۔ آئی بیک ٹوسے ڈیٹ ۔۔آئی بیک ٹو سے ڈیٹ۔۔ آئی بیک ٹوسے ڈیٹ۔۔۔ شاید محترمہ کی سی ڈی پھنس گئی تھی۔۔ہم نے انہیں حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ۔۔ اور سنائیں۔۔۔ وہ ترنت بولیں۔۔ بس اللہ کا شکر ہے۔۔ آپ سنائیں۔۔؟؟ یہ ڈاٹ قوم ایک طرف تو مغربی کلچر اپنانا چاہتے ہیں اور دل میں یہی تمنا لے کر نکلتے ہیں کہ آگے ہر چوک چوراہے پر فیشن زدہ اور ماڈرن لباس میں ملبوس دوشیزائیں نظر آئیں جبکہ اپنے گھر موجود خواتین کو سات پردوں میں بند رکھنے کو مشرقی کلچر کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں۔۔اس ڈاٹ قوم کایہ حال ہے کہ قومی ترانہ فارسی میں، مذہبی تعلیم عربی میں، دنیاوی تعلیم انگریزی میں، گھر میں اردو، امریکی گرین کارڈ کے خواہش مند اور مکہ ، مدینہ میں تدفین کے ہمیشہ سے خواہش مند رہتے ہیں۔۔ جس کے پاس روزگار ہے نہ نوکری، روٹی ہے نہ زندگی کا کوئی سہارا، باقی جو رہ گیا تو کبھی گیس ،پانی غائب توکبھی بجلی نہ ہونے سے مکمل اندھیرا۔۔ جہاں پیزا پولیس سے پہلے پہنچ جاتا ہے، کار خریدنے کے لیے قرض سو فیصد لیکن تعلیم کے لیے بیس فی صد، چاول ایک سو ستر روپے کلو لیکن فون کی سم مفت۔۔ جوتے اے سی والی دکان میں اور کھانے کی سبزیاں فٹ پاتھ پر۔۔ لیمن جوس پینے کے لیے مصنوعی خوشبو کے ساتھ لیکن برتن دھونے کے لیے اصلی لیموں۔ MBA اور M,A پاس بے روز گار مگر ایک جاہل ایم پی اے یا ایم این اے۔۔ جہاں پانی کی ٹنکی سے لے کر قبروں تک میں اسلحہ مل جاتا ہے، لیکن چْھری والا آدمی نہیں مل رہا جو کھلے عام خواتین پرحملہ کرتا ہے۔۔ جہاں وزیراعظم بیروزگار ہوجائے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں۔۔ جو ڈاکٹر کی دوا سے دو دن تک آرام نہ آئے تو ڈاکٹر بدل دیتے ہیں لیکن برسوں سے اسی کرپٹ اور عوام دشمن مافیا سے امید لگائے بیٹھے ہیںجوقومی خزانے کو کرپشن کے ـ’’وڈے ٹیکے‘‘ لگانے میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔۔۔ جہاں عوام چوری کی بجلی سے کمپیوٹر آن کرکے پوچھتے ہیں کرپٹ حکمرانوں سے کب نجات ملے گی۔۔ جوبغیر کام کئے تنخواہ چاہتے ہیں۔۔بغیر ورزش کے صحت مند رہنا چاہتے ہیں۔۔بغیر محنت کیے ترقی کرنا چاہتے ہیں۔۔اپنے ملک کا حشر نشر ہو چکا ہے پورا ملک لوٹ کر عوام کا خزانہ بیرون ملک منتقل کردیا گیا ہے لیکن عوام کو اس بات میں زیادہ دل چسپی ہے کہ گیلانی چیئرمین سینیٹ بنے گا یا سنجرانی۔۔ جہاں رشوت کو چائے پانی کہتے ہیں۔۔مردار گدھوں اور کتوں کا گوشت کئی ہوٹلوں اور قصابوں سے پکڑاجاتاہے ۔۔سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں ۔۔ ماؤں نے نارمل طریقے سے بچے جننے چھوڑ دیئے ۔ شہد کے نام پر چینی، شکر اور گْڑ کا شیرہ ملتا ہے ۔۔جو پیٹرول بھی چوری کرتے ہیںساتھ ساتھ سگریٹ بھی پیتے ہیں پھر درجنوں کی تعداد میں مرتے بھی ہیں۔۔ یہ بھی اسی قوم میں ہوتا ہے کہ آپ کو رات تین بجے اچانک کوئی دوست موبائل پر فون کرتا ہے اورآپ کی غنودگی سے بھرپور آواز سن کر کہتا ہے۔۔ابے یار سو رہاتھا کیا؟ ۔۔۔ اب کیا رات کے تین بجے نائٹ کرکٹ میچ کھیلیں؟۔۔۔ بازار میں اچانک کوئی جاننے والا مل جائے تو وہ لازمی پوچھتا ہے۔۔ ابے یارتو یہاں کیا کررہا ہے؟۔۔۔ بھائی جمعہ پڑھنے گیا تھا وہاں بہت رش تھاتو سوچا ادھر ہی آجاؤں۔۔۔ اسپتال میں کوئی جاننے والا مل جائے تو لازمی سوال کرے گا خیریت تو ہے؟۔۔ اب اسپتال میں کیا ڈنر کرنے جاتا ہے کوئی؟۔۔۔۔سینما میں فلم دیکھنے جائیں تو وہاں بھی جاننے والے مل جاتے ہیں اور حیرت سے پوچھتے ضرور ہیں کہ یہاں کیا کرنے آئے ہو؟۔۔۔ بھائی جو تم کرنے آئے ہووہی ہم کرنے آئے ہیں، کیوں کہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے ، جو تم کروگے وہی ہم بھی کریں گے۔۔سبزی والے کی دکان پر کوئی دوست مل جائے توحیرت کااظہار یوں کرے گا،اچھا تو سبزی خریدی جارہی ہے؟۔۔ جی جناب یہ بندہ سبزی بیچ رہا ہے، اگر نسوار بیچ رہا ہوتا تو لازمی پھر وہی خرید رہا ہوتا۔۔ہمارے پیارے دوست ایسے لوگوں سے بہت تنگ ہیں ، کہتے ہیں کہ۔۔مسجد میں جاؤ نمازیں پڑھو۔۔مارکیٹ جاکرشاپنگ کرو۔۔اسکول و کالج جاکر تعلیم حاصل کرو۔۔ہرجگہ لوگ اس طرح حیرت سے سواگت کرتے ہیں جیسے ہم کوئی انوکھا کام کررہے ہیں۔۔ اسے تو اس بات پر بھی غصہ آتا ہے کہ جب وہ اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ تفریح کی غرض سے کہیں جاتا ہے تو وہاں بھی اسے جاننے والے مل جاتے ہیں،اور ہر بار کہتے ہیں۔۔ پہلے والی بھابھی زیادہ خوب صورت تھی۔۔ یہ بھی اسی ’’ڈاٹ قوم‘‘ کا طرہ امتیاز ہے کہ یہاں جتنا بڑا دونمبری اور کرمنل ہوگا، حاجی صاحب کہلائے گا۔۔جہاں گھر کے ماتھے پہ’’ہذا من فضل ربی‘‘ لکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ۔۔خبردار مجھ سے مت پوچھنا یہ گھر کیسے بنایا۔۔جہاں مجرم کا دفاع استغاثہ کا وکیل کرتا ہے۔۔۔ جہاں نمبر ایک ہونے کے لیے نمبر 2 ہونا ضروری ہے۔۔۔جو موروثیت کو جمہوریت گردانتی ہے۔۔۔جہاں حق رائے دہی قیمے والے نان اور بریانی کے ڈبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۔جہاں اربوں ہڑپ کر جانے والے ’’ایک دھیلے کی کرپشن‘‘ نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔۔جہاں راشی کے ماتھے پر محراب ہوتی ہے۔۔ایک داڑھی والے منصب دار سے کسی نے کہا شرم نہیں آتی داڑھی رکھ کر کرپشن کرتے ہو؟جواب ملا کہ داڑھی گلے تک جاکر ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے پیٹ شروع ہو جاتا ہے۔۔جہاں حرام نہ کھانے والے کو کمزور اور بیوقوف گردانا جاتا ہے۔۔جہاں بدمعاش کی عزت کی جاتی ہے اور شریف کو ٹکے کوڑی کا سمجھا جاتا ہے۔۔جہاں جھوٹ بولنے والا مشہور ہو کر صحافی کہلاتا ہے۔۔جہاں لوگ غیرت کے نام پر جانیں لے لیتے ہیںمگر دو دو ٹکے کیلئے اپنا ضمیر اپنی عزت بیچ دیتے ہیں۔۔۔اسی ڈاٹ قوم کے لوگوں کو اپنے گناہ صرف تب یاد آتے ہیں جب زمین لرزتی اور آسمان کپکپاتا ہے۔۔ اورچلتے چلتے آخری بات۔۔۔دکھ اس بات کا نہیں کہ ڈاٹ قوم کے لوگ خراب ریموٹ کو چپیڑیں مار کر ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں،افسوس اس بات پر ہے کہ وہ ریموٹ چپیڑیں کھاکر ٹھیک بھی ہوجاتا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔