doran e harasat qed tanhai mein rakha gya

دوران حراست قید تنہائی میں رکھاگیا، اسد طور۔۔

معروف صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور نے کہا ہے کہ قید کے دوران مجھے ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا تاکہ اندر سے توڑا جا سکے ، مجھے قید تنہائی میں ڈالا گیا جہاں دور دور تک کوئی شخص نہیں تھا، پھر ایک سیل میں رکھا گیا اس چھوٹے سے سیل میں 19 لوگ تھے ۔سینئر صحافی اور یوٹویبر اسد طور نے نجی ٹی وی جیونیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں وقت بہت مشکل تھا، مجھے جسمانی ٹارچر نہیں کیا گیا لیکن دماغی ٹارچر بہت زیادہ تھا، چھوٹا سا سیل تھا، اس سیل میں 19 لوگ تھے ، واش کام نہیں کرتا تھا، اس میں پانی بھی نہیں آتا تھا ، بہت بدبو ہوتی تھی ، سیل بھی ایسا لگتا تھا کہ بیت الخلاہی ہے ، میں نے ایف آئی اے کے اہلکار کو کہا کہ کوئی پانی تو منگوا دو ، جب وہ میرے سر کے قریب پہنچے تو فوری دو قدم پیچھے ہٹ کر کہنے لگے کہ یہ ایگزاسٹ تو چلاو، مجھے جان بوجھ کر اس ماحول میں رکھا گیا۔ایک دن میں نے ایک اہلکار سے کہا کہ مجھے کوئی اور واش روم استعمال کروا دو ، وہ اپنے سینئر سے پوچھنے چلا گیا، میں سن سکتاتھا کہ اس افسر نے اہلکار کو کہا کہ یہ وہی واش روم استعمال کرے گا ، اس نے صاف انکار کر دیا۔ اسد طور نے کہا کہ مجھے اڈیالہ جیل میں ایک سیل میں لے جایا گیا ، قیدیوں کے بیرک کے پیچھے ایک جگہ تھی ، اس کے اردگرد بہت اونچی چار دویواری تھی، وہاں مجھے اندر لے جایا گیا ، وہاں دس مرلے کا پلاٹ تھا جہاں جنگلی گھاس اُگی ہوئی تھی ، اس کے آخر میں ایک چھوٹا سا سیل تھا، مجھے قید تنہائی کیلئے بھیجا گیا، وہ اہلکار مجھے سیل میں بند کر کے چلے گئے ، وہاں پر کوئی پولیس والا نہیں تھا، وہاں کوئی کمبل بھی نہیں تھا اور شدید سردی تھی، میں نے بوتل سے سلاخوں کو بجانا شروع کر دیا ، آوازیں دی لیکن کوئی نہیں آیا، بہت دیر کے بعد محسوس ہوا کہ باہر کوئی چہل قدمی کر رہاہے اسے میں نے صورتحال بتائی ، تو وہ گئے اور ایک شخص کو لے کرآئے اور فرسٹ ایڈ کٹ لائے ،لیکن کہنے لگے کہ ہمارے پاس آپ کے سیل کی چابی نہیں ہے ،ہم  کیسے چیک کریں ، وہ مجھے دور سے ایک گولی پھینک کر کہنے لگے کہ اسے کھالو ، میں نے کہا کہ میں ایسے ہی کوئی گولی نہیں کھا سکتا ، اگلی صبح مجھے جب چیک کیا گیا تو مجھے 102 پر بخار تھا، مجھے پڑھنے کیلئے کچھ نہیں دیا گیا، میں ٹوتھ پیسٹ پر لکھے الفاظ پڑھتا رہتا تھاتاکہ وقت گزار سکوں،، پہلی رات بہت ہی عجیب گزری ، باقی قیدوں کو جیل میں گھومنے کی اجازت تھی لیکن مجھے نہیں تھی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں