تحریر : ڈاکٹر جاسر آفتاب
جب زمینی حقائق کا ادراک نہ ہو اور سماجی روایات سے آشنائی بھی نہ رہے تو پھر مضحکہ خیز فیصلے قوموں کا مقدر بن جایا کرتے ہیں۔ یہ پاکستان ہے، اس نے یورپ نہیں بن جانا اور بدقسمتی کہ اسے یورپ بنانے کی آڑ میں ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں جس سے ملک مزید تباہی کی طرف جاتا ہے۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا مبینہ اشتہار ۔۔ تازہ دودھ کے خلاف مہم اور ڈبے والے دودھ کی پروموشن ۔۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا بھر پور استعمال۔ اس سارے معاملے نے کئی اہم سوال پیدا کر دیے!
سوال کہ کیا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن PMA اس کمپین کو own کرتی ہے یا ایک دو ڈاکٹر ایسوسی ایشن کا نام استعمال کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں اس کے پیچھے ہیں ؟ اگر ایسوسی ایشن اس اشتہار کی ذمہ داری تسلیم کرتی ہے تو کیا اس سلسلے میں ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کی approval حاصل کی گئی ؟ کیا اس حوالے سے کوئی فارمل میٹنگ ہوئی ؟کیا ایسی کسی میٹنگ کے منٹس موجود ہیں؟
ٹیلی ویژن کو اشتہار دینے کے لئے بہت بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ سے متعلقہ اشتہار بڑے چینلز کے Peak Hours میں چل رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اشتہارات کی ادائیگی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے کر رہی ہے یا یہ ایک دو ڈاکٹر اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں؟ اگر ایسوسی ایشن اس کی قیمت اپنے فنڈز سے ادا نہیں کر رہی تو پھر قوم کو بتایا جائے کہ اس مہم کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے؟
یہ ڈبے والی کمپنیاں اپنے ڈبے کے لئے دودھ کہاں سے لیتی ہیں؟ ان کے اپنے کتنے فارم ہیں؟ کیا اپنے فارموں سے یہ دودھ کی قومی ڈیمانڈ کو پورا کر سکتی ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم سوال کہ پاکستان میں جو بڑی مقدار میں خشک دودھ اور وے پاؤڈر مختلف طریقوں سے آتا ہے، اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے؟ کیا ڈبے والی کمپنیاں یہ بتا سکتی ہیں کہ وہ سالانہ کتنا دودھ ڈبے کی شکل میں سیل کرتی ہیں اور اس کے مقابلے میں وہ دودھ اکٹھا کتنا کرتی ہیں یا اپنے ذاتی فارموں سے کتنا حاصل کرتی ہیں؟
پاکستان جیسا ملک جہاں بسنے والے افراد کی بڑی تعداد غربت کی نچلی ترین سطح سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود دودھ کا استعمال نہ صرف ہماری روایت بلکہ ہمارے بچوں کی خوراک کا بنیادی حصہ بھی ہے۔دیہاڑی دار اور تنخواہ دار طبقہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کا دودھ پورا کرتے ہیں۔ اب اگر تازہ دودھ میں کوالٹی کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اسے بند کر دیا جائے یا اس کے خلاف منظم کمپین چلاتے ہوئے لوگوں کو اس سے متنفر کیا جائے تو پھر جو اضافی قیمت کا بوجھ عوام پر پڑے گا اس کا کون ذمہ دار ہو گا ؟
پیکنگ کی ضرورت تو ان علاقوں میں محسوس ہونی چاہئے جہاں تازہ دودھ آسانی سے دستیاب نہ ہو یا جہاں سپلائی چین کے مسائل کی وجہ سے دودھ صحیح حالت میں پہنچایا نہ جا سکتا ہو۔ اب اگر کسی کو تازہ دودھ آسانی سے دستیاب ہے تو وہ کس وجہ سے اس دودھ کی پیکنگ یا پروسیسنگ کی اضافی قیمت ادا کرے؟
پاکستان میں بہت تھوڑی مارکیٹ ڈبے کے دودھ کی ہے جبکہ اکثریت کھلا دودھ استعمال کرتی ہے اور اسی دودھ کو عام طور پر پسند بھی کیا جاتا ہے۔اگر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کھلے دودھ کو کھلم کھلا مضر صحت قرار دے رہی ہے تو پھر فوڈ اتھارٹیز اور لائیوسٹاک سے متعلقہ ادارے کدھر ہیں؟ ان اداروں کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے جواب طلب نہیں کرنا چاہئے؟
دودھ کی کوالٹی پر ضرور بات کرنی چاہئے مگر اس کی آڑ میں ایک پروڈکٹ کے مقابلے میں دوسرے پروڈکٹ کو پروموٹ کر کے مارکیٹ پر اثر انداز ہونا ٹھیک نہیں۔ کیا کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کو اس بات کا نوٹس نہیں لینا چاہئے؟
نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، لائیوسٹاک، فوڈ اور صحت کے صوبائی محکموں، *پنجاب فوڈ اتھارٹی، سندھ فوڈ اتھارٹی اور کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ ساتھ پیمرا کو تازہ دودھ کے خلاف میڈیا پر چلنے والی کمپین اور ڈبے والے دودھ کی چند ڈاکٹروں کے ہاتھوں پروموشن کا نوٹس لینا چاہئے۔ اس سارے معاملے پر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہئے۔یاد رکھیں یہ انتہائی حساس اور سنجیدہ ایشو ہے جس کے لئے اداروں کو جاگنا ہو گا کیونکہ یہ اشتہار محض تازہ اور اصل دودھ کے خلاف مہم نہیں بلکہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی پر حملہ ہے۔(: ڈاکٹر جاسر آفتاب )۔۔
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔