تحریر: ناصر جمال
اسحاق ڈار، سمدھی ہیں۔ وہ ماضی میں، وزیراعظم کی پرچھائیں تھے۔ آپ انگلش میں انھیں ڈی۔ فیکٹو، وزیراعظم بھی کہہ سکتے تھے۔ وہ آج کے وزیراعظم سے زیادہ طاقتور تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو ، چاروں شانے چت کرکے آئے ہیں۔ آتے ہی انھوں نے ’’مفتا‘‘ اسماعیل کا’’ جھٹکا‘‘کرکے اپنا سفر کا آغاز وہیں سےکیا ہے۔ جہاں سے وہ اسے چھوڑکر گئے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ ڈاکٹر مصدق ملک کی ’’قربانی‘‘ کب طلب کرتےہیں۔
اطلاعات ہیں کہ اسحاق ڈار، آج سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بطور وزیر خزانہ شامل ہوں۔ اُس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اسحاق ڈار، اب، اسٹیبلشمنٹ سے لندن کے نمائندہ کے طور پر بات چیت کیا کریں گے۔ مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی، متوقع لندن یاترا، اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ (ن) لیگ کی کور ٹیم میں اگر اسلام آباد میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ تو سمجھ لیں۔ پارٹی پر آج بھی میاں نواز شریف کی ہی گرفت مضبوط ہے۔
آج (ن) لیگ والے، کُھلے بندوں تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز شریف بطور وزیراعظم، ایک ناکام منتظم ثابت ہوئے ہیں۔ بیورو کریسی اور اداروں میں، اپنی ٹیم لانے میں وہ مکمل ناکام رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہےکہ مرکز میں، آج بھی عمران خان کی ہی حکومت ہے۔ وہ ہنستے ہیں، کہتے ہیں ہم تو نجم سیٹھی کو بھی ناراض کربیٹھے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کیا ہوتاہے۔ چیئرمین ایم، ڈیز، سیکرٹریز، سی۔ ای۔ او، بورڈز، سب پرانے چل رہے ہیں۔
وہ ”مُفتا“ اسماعیل اور ڈاکٹر مصدق کو، شاھد خاقان عباسی کی نامزدگی قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وزارت توانائی اور خزانہ میں ناکامی نے انھیں، وہاں لاکھڑا کیا ہے۔ جہاں عمران خان ہیرو بن گیا ہے۔وہ غیرمقبول ہوگئے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ خُرم دستگیر کی تعیناتی بھی کسی تباہی سے کم نہیں ہے۔ انھیں پرانی، نرم وزارت ہی میں رکھتے تو بہتر تھا۔ وہ البتہ یہ مانتے ہیں کہ شاہد خاقان کے پاس اگرخود اختیار ہوتا تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ جبکہ شہباز شریف مخالف کیمپ کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ دن شہباز شریف کی کرسی سے محبت کے باعث دیکھنا پڑ رہے ہیں۔اگر میاں نواز شریف، مریم نواز اور شاھد خاقان کی فوری الیکشن میں جانے کی بات مان لی جاتی تو آج نتائج مختلف ہوتے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک جانب (ن) لیگ میں اندرونی اختلافات کم ہونے کی بجائے، بڑھتے جارہے ہیں۔ دورسری جانب، ان کے ساتھ، ’’خونخواراتحادی‘‘ ہیں۔ ان کی وزارتوں میں کسی کو بھی مداخلت کا حق حاصل نہیں۔ تیسری جانب عمران خان ہے۔ جو اُن کے درد سر بنا ہوا ہے۔ وہ اس کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہی نہیں لے پا رہے۔ ابھی تک ن لیگ، اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے حوالے سے مکمل کنفیوژڈ ہے۔ ان کے درمیان ایک بے اعتمادی کا عنصر حائل ہے۔ اس خلیج کو کوئی بھی نہیں پاٹ پارہا۔ اسکرپٹ رائٹروں کو سمجھ نہیں آرہی۔ حتمی فیصلہ آخر کس نے اور کب کرنا ہے۔ اگر میاں نواز شریف کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو یہ بات طے ہے کہ نیا آرمی چیف آئے گا۔ ایک اور توسیع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلی توسیع،مجبوری تھی۔ ڈیل ضروری تھی۔ اب معاملات اُس سے بہت، آگے نکل گئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ میاں شہباز شریف جو کہ بہت ہی تابعدار بھائی ہیں۔ وہ بھا،جی کے سامنے اونچا سانس بھی نہیں لیتے، کیا، اُن سے سے بغاوت کرجائیں گے۔ جو کہ ممکن نظر نہیں آتی۔ ایسے میں آصف زرداری کی لگائی گئی’’تاش‘‘ بہت اہم ہے۔ ”سیاسی شاطر“ مولانا فضل الرحمٰن پورے کھیل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کے۔ پی اور بلوچستان کے پرانے فارمولے سے دستبردار نہیں ہونگے۔ بحرحال کھیل انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
آصف زرداری کے امریکی صدر سے قریبی تعلقات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ بلاول کو وہاں مسلسل ’’اِن‘‘ کررہےہیں۔ آرمی چیف کی تعیناتی میں صورتحال گھمبیر ہوئی تو، وہ اپنے کارڈز کھیلیں گے۔ آصف زرداری کے پاس بھی ایک نہیں، دو امیدوار ہیں۔ دونوں امیدوار آگے پیچھے ہیں۔ دونوں سے پرانا تعلق ہے۔ آج وہ سندھ میں سنگل اکثریت ایسے ہی نہیں لئے بیٹھے۔ کوئی تو تھا،جس نے ایم۔ کیو۔ ایم، پی۔ ایس۔ پی اور جی۔ ڈی۔ اے کا جھٹکا کیا تھا۔یا زرداری نے کمال طریقے سےکروایا تھا۔ پہلی بار وہ شہری سندھ کی بلیک میلنگ سے آزاد ہو کر تنہا حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ویسے، جسے لوگ گیم سے آئوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ اتنا بھی آئوٹ نہیں ہے۔ وہ کسی کا بھی ”ڈارک ھارس“ ثابت ہو سکتا ہے۔
بہرحال پانچ امیدواروں میں سے، ایک امیدوار، جنرل وحید کاکٹر ٹائپ بھی ہے۔ میاں نواز شریف نے اگر انھیں ’’چُن‘‘ لیا تو تمام منظر نامہ ہی بدل جائے گا۔ پھر انتخابات، سیاست دانوں کی مرضی سے ہونگے۔ کسی سمت سے کوئی دبائو نہیں آئے گا۔ ’’بدزبانی اور مہم جوئی‘‘ کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہوگی۔ کوئی بلیو آئیڈ نہیں ہوگا۔ ’’آرکیٹکچر‘‘ پیچھے ہٹ جائیں گے۔ آنیوالا عزت سے آئے گا۔ اور عزت سے جائے گا۔ وہ کسی ’’انجینئرنگ‘‘ پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ آڈیو ویڈیوز والے تماشے بند کرنا پڑیں گے۔
قارئین۔۔صرف، آٹھ ہفتے بچے ہیں۔ ڈار صاحب، آئے ضرور ہیں۔ صورتحال2013تا2016والی نہیں ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ڈار یہ ضرورجانتے ہیں کہ ڈالر، کس، کس کے پاس ہیں۔ سب سے زیادہ ڈالرز، اپٹما، زیرو ریٹڈ انڈسٹری والوں کے پاس ہیں۔ برادر پالیمینٹرینز بھی اس ضمن میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اور اعلیٰ مقام والوں کے پاس تو ان گنت ہیں ھی۔ پنڈی بوائز کو بھی بہت کچھ پتا ہے۔ڈالر نیچے لانا، اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو ’’سپورٹ‘‘ کا ہے۔ پنڈی، اسلام آباد ایک پیج پر ہوں تو میرا جیسا فقیر بھی یہ کام کرسکتا ہے۔ اگر یہ سپورٹ نہیں ہے۔ تو پھر چاہیں آپ بل گیٹس کو لے آئیں یا سٹووجابز کو قبر سے اٹھا لائیں، کچھ بھی نہیں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ اسحاق ڈار ٹی، ٹونٹی کے آخری پانچ اوور کھیلنے میدان میں اترے ہیں۔ جہاں انھیں 17کے رن ریٹ کو حاصل کرنا ہے۔ سیاسی تماشا لگ چکا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں، سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا۔ قوم بھی ایک سال سے دیکھ ہی رہی ہے۔ جس کے پائوں جلتے ہیں۔ اپنے بچے کو ریچھ کی طرح اپنے پائوں کے نیچے دبا لیتا ہے۔
قارئین۔۔آپ نے”گرگ بارنِ دیدہ“ کی وہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ جب موسم کی شدید برف باری شروع ہوتی ہے۔ تو ،خوراک کی کمی ہوتی ہے۔ بھیڑیوں کے لیڈرز، غار میں ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جس بھیڑیئے کی آنکھ لگتی ہے۔ اسے دوسرے کھا جاتے ہیں۔ آخر میں جو بچتاہے۔ اسے ’’گرگ بارہ دیدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔جسے اردو میں ’’خررانٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
قارئین۔۔کچھ ایسی ہی صورتحال، اس وقت پاکستان کے طاقت کے مراکز میں ہے۔ جہاں جو پلک جھپکے گا۔ وہ مارا جائے گا۔ بقا اسی میں ہےکہ آنکھ کھلی رہے۔جب تک نئی تعیناتی کا’’کٹا‘‘ کُھلا ہوا ہے۔ آپ کسی اور کٹے کے بندھنے یا باندھے جانے کی توقع ہی نہ رکھیں۔ کسی کو ملک، عوام، حالات، معاشرے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس حمام میں سب ننگے کھڑے ہیں۔ کیا نواز، کیا عمران، کیا زرداری اور کیا دوست، سب ’’رولڈ گولڈ‘‘ ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی ”گجر بادشاہ“ نے کہا تھا کہ زندگی ایک کٹا ہے۔ ایک باندھو، دوسرا کُھل جاتا ہے۔(ناصر جمال)