تحریر: تنویر ملک۔۔
’آج ہمارے کاؤنٹر پر ڈالر فروخت کرنے والے زیادہ تھے جبکہ خریدنے والے انتہائی کم۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ آج ڈالر کی سپلائی ڈبل تھی جبکہ دوسری طرف اس کی طلب نہ ہونے کے برابر تھی۔یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے شہر کراچی میں واقع ایک ایکسچینج کمپنی کے مالک ظفر پراچہ کا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آج ڈالر کی خریداری کے بجائے فروخت کرنے والوں کا رش تھا جن میں ڈالر کے برآمد کنندہ زیادہ تھے جو ڈالر کو مارکیٹ میں لا رہے تھے۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ 9.58 روپے کی کمی ہوئی ہے جو ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کا ملک میں نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے ایک دن میں سب سے بڑی کمی کا ریکارڈ دو نومبر 1998 کو بنا تھا جب ایک دن میں ڈالر کی قیمت 5.1 روپے کم ہوئی تھی۔بدھ کے روز کاروبار کے دوران ایک موقع پر ڈالر کی قیمت 12 روپے سے بھی کم ہوئی تاہم انٹر بینک میں کاروبار کے اختتام پر یہ قیمت 9.59 روپے کی کمی کے بعد 228.80 پر بند ہوئی۔ گذشتہ روز ڈالر کی قیمت 238.38 روپے پر بند ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں ڈالر کی قیمت 239.94 کی بلند ترین سطح پر تھی۔تاہم گذشتہ ہفتے کے آخری کاروباری روز یعنی جمعہ سے ڈالر کی قیمت کم ہونا شروع ہوئی جو مسلسل چار کاروباری روز میں کم ہوتی رہی اور آج یعنی بدھ کے روز ڈالر میں ریکارڈ کمی ہوئی۔
پاکستان میں اپریل کے مہینے کے وسط سے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا جو جولائی کے مہینے میں بہت زیادہ ہو گیا جس کی وجہ ملک میں جون میں ہونے والی ریکارڈ درآمدات تھیں جس نے پاکستانی کرنسی پر دباؤ برقرار رکھا، اس کے ساتھ آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر نے بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے رجحان کو فروغ دیا۔فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ تو درآمدی ادائیگیوں کے دباؤ کا کم ہونا ہے۔انھوں نے کہا جون کے مقابلے میں جولائی میں دو ارب ڈالر کی کم درآمدات ہوئیں اور اُن کی ایل سی کی ادائیگی اگست کے مہینے میں شروع ہوتی ہے۔ کم درآمدات جس میں خاص کر تیل کی ادائیگیاں شامل ہیں، نے روپے کی قدر کو سہارا دیا ہے۔ واضح رہے کہ جولائی کے مہینے میں پاکستان کے تجارتی خسارے میں 40 فیصد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ملک بوستان کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے آنے والا مثبت بیان بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ بنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آرمی چیف کی جانب سے قرض کے حصول کی غرض سے امریکی حکام کو فون اور اس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والے بیان جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے سارے اقدامات مکمل ہو چکے ہیں، نے آئی ایم ایف کے قرضے کی اگلی قسط کے جاری ہونے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے اور اس عمل نے روپے کی قدر کو سہارا دیا۔بوستان نے کہا کہ جے پی مورگن کی جانب سے پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے کے بیان کے ساتھ پاکستان کی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مشترکہ بیان نے بھی اس سلسلے میں کردار ادا کیا جس میں روپے کی قدر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا تھا۔
پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ طارق سمیع اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑی عید کے بعد ترسیلات زر میں بھی واضح ہوا اور ایکسپورٹرز بھی ڈالر مارکیٹ میں لا رہے ہیں جب کہ کم درآمدات کی وجہ سے امپورٹرز کی جانب سے ڈالر کی طلب بھی کم ہوئی ہے جس نے روپے کی قدر کو سہارا دیا اور اس میں ریکوری کا عمل گذشتہ کئی دنوں سے دیکھا جا رہا تھا جو بدھ کے روز ملکی تاریخ میں ریکارڈ قائم کر گیا۔ملک بوستان کے مطابق روپے کی قدر میں اضافے کا جو رجحان نظر آ رہا ہے، اس کے مطابق تو ڈالر کی قیمت کو مزید گرنا چاہیے کیونکہ درآمدی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہے اور اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے جب پیسے مل جائیں گے تو اس کا بھی مزید مثبت اثر پڑے گا۔ملک بوستان کے اندازے کے مطابق اگر اس وقت معاشی اشاریو ں کو دیکھیں اور امپورٹ کی صورتحال کو دیکھیں تو ڈالر کی قیمت کو 200 روپے تک گرنا چاہیے۔سمیع اللہ طارق نے بھی ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ظاہر کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ڈالر کی قیمت کو 210 روپے تک گرنا چاہیے۔ انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اگر اسی طرح امپورٹ کم رہی تو ہو سکتا ہے کہ ڈالر کی قیمت بہت تیزی سے اس مہینے میں مزید کم ہو۔
ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کے عام آدمی پر معاشی اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سمیع اللہ طارق نے کہا کہ اگر ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی کو تیل اور دوسری خوردنی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں ملے گا، کیونکہ پاکستان میں تیل، خوردنی تیل، گندم اور دالیں تک درآمد ہوتی ہیں جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ماضی قریب میں کافی مہنگی ہوئیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں جولائی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک چلی گئی تھی جس کی وجہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ تھا۔تیل شعبے کے ماہر زاہد میر نے بی بی سی کو بتایا کہ تیل مصنوعات کی قیمت پندرہ دن کی اوسط پر نکالی جاتی ہے اور پندرہ دن کا جو ایکسچینج ریٹ ہوتا ہے اس کے مطابق اس کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔انھوں نے کہا بدھ کے روز جو کمی ہوئی اگر اس کا رجحان برقرار رہتا ہے تو اس کا فائدہ لازمی طور پر مقامی صارفین کو تیل کی قیمت میں کمی کی صورت میں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ڈالر کی قیمت میں ہونے والی دس روپے کی کمی کو ایک دن میں لیا جائے تو اس سے دس سے پندرہ روپے کمی کا فائدہ تیل کی ایک لیٹر قیمت کی صورت میں صارفین کو ملے گا تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ رجحان برقرار رہے اور جب اوسط نکالی جائے تو ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ سے تیل مصنوعات کی درآمدی لاگت ڈالروں میں کم ہو۔ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کے حکومت کے لیے سیاسی و معاشی فائدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سمیع اللہ طارق نے کہا اس کا سب سے بڑا فائدہ تو حکومت کو یہ ہو گا کہ حکومت کے بارے میں عوام کا عمومی تاثر بہتر ہو گا اور لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ اب حالات کنٹرول کی جانب جا رہے ہیں۔کیونکہ جب ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا تھا تو حکومت کے بارے میں منفی تاثر نے جنم لیا تھا کہ معاملات حکومت کے بس سے باہر ہو رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ سے تیل مصنوعات اور دوسری چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہو گئی تو لازمی طور پر اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہو گی جو عوام کے فائدے کے لیے ہو گی تو اس سے حکومت کو لازمی طور پر سیاسی فائدہ حاصل ہو گا۔
ملک بوستان نے کہا اس سے حکومت کے لیے معاشی فائدہ بھی ہو گا کیونکہ روپے کی قدر میں استحکام سے معاشی استحکام پیدا ہو گا اور معاشی اشاریوں میں بہتری آئے گی جو حکومت کے بارے میں عمومی طور پر ایک بہتر تصور کو جنم دے گی جو گذشتہ کئی ہفتوں میں معاشی اشاریوں کے بگڑنے کی وجہ سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔(بشکریہ بی بی سی اردو)