تحریر: مظہر برلاس
چار دن پہلے ٹی وی اینکر مرید عباس کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ مرید عباس کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ مرید عباس کھر پپلاں ضلع میانوالی کا رہنے والا تھا، ویسے تو کھروں کی بستیاں زیادہ تر کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں ہیں مگر یہ پپلاں کا تھا جہاں کا سبطین خان آج کل نیب مقدمے کی وجہ سے کوٹ لکھپت جیل میں ہے۔ مرید عباس دس سال کا تھا جب پپلاں چھوڑ گیا تھا۔ وہ کراچی گیا، وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتا تھا پھر ایک دن وہ ایک ایسی فیملی کے ہاں کام پہ لگ گیا جنہیں خوفِ خدا تھا۔ یہی دن مرید عباس کی تبدیلی کا باعث بنا۔ اس خاندان نے مرید عباس کو کام کے ساتھ تعلیم دلوانا شروع کی۔ یہ ذہین تھا سو پڑھنے لگ گیا، اس خدا خوفی رکھنے والے خاندان نے مرید عباس کا پورا خیال رکھا۔ وہ پڑھ لکھ کر نیوز اینکر بن گیا۔ تین چار ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہا اور بالآخر جس مٹی کا تھا، اسی مٹی میں مل گیا۔ پانچ چھ برسوں سے اس نے عاطف زمان کے ساتھ ٹائروں کے بزنس میں سرمایہ لگا رکھا تھا۔ عاطف زمان کو سمجھنے کے لئے آپ ڈبل شاہ کی کہانی پڑھ لیں۔ مرید عباس کے کہنے پر میڈیا سے وابستہ کچھ اور لوگوں نے بھی اس بزنس میں پیسے لگائے۔ اسی دوران مرید عباس نے ایک نیوز اینکر سے شادی بھی کی۔ اس پوری کہانی میں جگہ جگہ دولت کا کھیل نظر آتا ہے۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ دولت کے حصول کی آرزو انسانوں کو اندھا کر دیتی ہے، وہ اس راستے پر قتل کرتے ہیں، قتل کرواتے ہیں اور بہت کچھ ناجائز کر جاتے ہیں۔ دولت کے کھیل میں جانے سے پہلے ضرور سوچ لینا چاہئے کہ دولت کا انجام رسوائی ہے۔ دولت کی حیثیت کی وضاحت کے لئے حضرت علیؓ نے ہتھیلی پہ تھوڑی سی خاک رکھ کے پھر اسے پھونک سے اڑا کر لوگوں سے کہا ’’بس دولت کی یہی حیثیت ہے‘‘۔ تاریخ بہت سبق سکھاتی ہے مگر لوگ سمجھتے نہیں۔ لوگوں نے کپڑوں، گھروں اور گاڑیوں کی عزت کرنا شروع کر دی ہے، لوگوں نے انسانوں کی عزت کو چیزوں کا محتاج بنا دیا ہے مگر لوگ سمجھتے کہاں ہیں،(بشکریہ جنگ)۔۔