تحریر: امجد اسلام امجد۔۔
تعزیتی کالم لکھنا ہمیشہ ہی ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن تین تین دوستوں کی خوبصورت شخصیت اور قیمتی یادوں کو ایک ساتھ یاد کرنا اور اُن کی قبروں پر اُن کی محبت کے مطابق پھول چڑھانا تو کسی رُوح فرسا امتحان سے کم نہیں کہ ہر قدم پر ’’حق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہُوا‘‘ کا احساس ایک قدرے مختلف انداز پر قدم قدم دامن گیر رہتا ہے اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال درپیش ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں تین ایسے گُنی اور عمدہ لوگ ہمارے درمیان سے اُٹھ گئے ہیں جن کے شعبے تو مختلف تھے لیکن کامیابیاں ایک سے بڑھ کر ایک بے نظیر اورشاندار تھیں۔
سب سے پہلے دو نومبر کو ڈاکٹر اعجاز حسین قریشی صاحب کا اس جہانِ فانی سے پردہ کرنے کا وقت آیا۔ ڈاکٹر صاحب کے نام کے ساتھ بے شمار اعزازت وابستہ ہیں مگر ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ کا 1960ء میں اجرا اُن کا ایک ایسا دُور رَس، مستقبل گیر اور جرات مندانہ کارنامہ ہے جس نے اُردو صحافت، ادب اور رسائل کی روایت کو ایک ایسا موڑ دیا جو نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ آج تک کم از کم مواد کے اعتبار سے ایسی کوئی دوسری معیاری تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ڈاکٹر صاحب علی گڑھ سے ایف ایس سی کرنے کے بعد تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی وجہ سے لاہور آ گئے تھے اور اس کے بعد انھوں نے جرمنی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کا اختتام کیا تھا مگر یورپ کے اس قیام کا اصل تمغہ اُن کے دماغ میں اُبھرنے والا مشہورِ عالم جریدے ریڈرز ڈائجسٹ کے انداز کا ایک اُردو رسالے کا آئیڈیا تھا جس نے آگے چل کر نہ صرف صحافت اور ادب کے نئے معیارات قائم کیے بلکہ اپنی تعداد اشاعت اور قارئین کی دلچسپی کے حوالے سے بھی ایک انقلاب برپا کر دیا اور آج بھی وقت کے تغیر اور مقابلے کی شدت اور وسعت کے باوجود اپنے وقار کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
وہ جدید علوم اور اسلامی تعلیمات سے بہرہ وری کے ساتھ ساتھ عملی طور پر ایک معتدل مزاج مگر راسخ العقیدہ شخص تھے اُردو، مذہبی فکر اور تہذیب کے ضمن میں اپنے نظریات پر کاربند ہی نہیں بلکہ ان کی تبلیغ و ترویج میں بھی بہت پر جوش تھے کوئی بیس برس قبل قائم کیے جانے والے کاروانِ علم کی معرفت غریب اور کم وسیلہ بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اُن کے جاری کردہ وظائف سے اب تک ہزاروں بچے مستفید ہو چکے ہیں اگرچہ میرا براہ راست واسطہ اُن کے برادرِ خورد الطاف حسن قریشی اور برخوردار طیب اعجاز قریشی سے نسبتاً زیادہ رہا مگر گزشتہ پچاس برس میں اُن سے ہونے والی ملاقاتوں میں ایک بھی ایسی نہیں جس میں اُن کے حُسنِ کردار کے تاثر میں مزید اضافہ نہ ہُوا ہو۔
ادارہ اُردو ڈائجسٹ سے ابتدائی تربیت حاصل کرنے والوں میں آج کے تقریباً بیس سے زیادہ نامورصحافی شامل ہیں اور میرے نزدیک رسائل کی حد تک یہ بھی ایک ریکارڈ ہے وہ بہت زیادہ محفلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے اور بات بھی زیادہ لمبی نہیں کرتے تھے لیکن جہاں جہاں سچ کہنے اور اُس کی سزا جھیلنے کا موقع آتا تھا وہ نہ صرف کھل کر بات کرتے تھے بلکہ کسی قسم کے مالی نقصان اور جسمانی تکلیف کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے ربِ کریم اُن کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے۔
قاضی جاوید مرحوم کی بیماری کی خبریں فیس بُک وغیرہ پر نظر سے گزر رہی تھیں مگر اُن سے قطعاً اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی ’’مرض الموت‘‘ میں مبتلا ہیں جب سے وہ اکادمی ادبیات کے لاہور دفتر کی سربراہی سے الگ ہوئے تھے ان سے ملاقاتوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہو گئی تھی اور تو اور مجلسِ ترقی ادب میں تحسین فراقی سے ملاقاتوں کے ہنگام میں بھی کسی نامعلوم وجہ سے یہ کمی برقرار رہی حالانکہ دونوں کے دفاتر ایک ہی عمارت میں واقع تھے۔ قاضی جاوید ایک بہت صاحبِ مطالعہ، اپنے شعبے کے ماہر اور صاحبِ نظر انسان تھے گفتگو میں اپنی رائے بہت موثر اور مستحکم انداز میں دیتے تھے لیکن خاصی گرم بحث کے دوران بھی اُن کے چہرے کی مسکراہٹ اور لہجے کی شائستگی کبھی ماند نہیں پڑتی تھی اختلاف کے دوران میں مزاج کی استقامت کو قائم رکھنے والے لوگ آج کل کم کم ہی نظر آتے ہیں سو ایسے میں قاضی جاوید جیسے لائق اور صائب الرائے شخص کی رحلت بلاشبہ ادب کے ساتھ ساتھ ایک تہذیبی سانحہ بھی ہے۔
وہ بنیادی طور پر فلسفے کے آدمی تھے اس لیے علمی بحثوں کے دوران مذہب، عقائد یا روایت کے حوالوں کی دخل اندازی کی مخالفت کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثر احباب اپنی دلیل کے کمزور پڑنے پر اس زبردستی کی بنائی ہوئی حفاظتی دیوار کے پیچھے چھپ جاتے تھے اور دلیل کا جواب مختلف قسموں کے فتوؤں سے دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے موقع پر قاضی جاوید کی حالت دیدنی ہوتی تھی یہ اور بات ہے کہ بیشتر مواقعے پر اُن کی بات ہی صحیح اور وزن دار ہوتی تھی اُن کے دماغ میں اُس فرانسیسی مفکر والی گہرائی تھی جس نے اپنے بد ترین مخالف کے بارے میں بھی کہا تھا کہ اگرچہ میں اُس کی بات کو سراسر غلط سمجھتا ہوں لیکن اگر کسی نے اُس کی آزادی رائے کے حق پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو سب سے پہلے میں اُس کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
اقبال کشمیری مرحوم میری نظم ’’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘ کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے۔ اطلاعات کے مطابق اُن کی درسی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی اور وہ فلم انڈسٹری میں ایک تھرڈ بلکہ فورتھ اسسٹنٹ کے طور پر داخل ہوئے تھے جسے عام طور پر چپڑاسی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی مگر اپنی خداداد صلاحیت، محنت اور قوتِ ارادی کے باعث نہ صرف پاکستان فلم انڈسٹری کے کامیاب ترین ڈائریکٹرز کی صف میں شامل ہوئے بلکہ ایک مخصوص مزاج کی حامل فلموں کے ضمن میں وہ کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے نوّے کی دہائی میں وہ میری ایورنیو فلمز کے بینر تلے بننے والی دو فلموں ’’چوروں کی بارات‘‘ اور ’’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘‘ کے ہدایت کار تھے جو دونوں ہی باکس آفس پر بہت کامیاب رہیں۔
ان کی تحریر اور فلم بندی کے دوران اُن سے بہت ملاقاتیں رہیں اور اس دوران میں اُن سے بہت اختلافات بھی ہوئے لیکن یہ اُن کی اپنی ذات پر اعتماد اور ہمہ وقت سیکھتے رہنے کی خوب صورت عادت کا کمال تھا کہ بحث میں کبھی بھی بدمزگی کا عنصر شامل نہیں ہوا۔ پرانے انداز کی فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد سے اُن کی صحت اور کام کی مقدار میں بتدریج کمی واقع ہوتی گئی اور آہستہ آہستہ وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے چلے گئے مگر یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصے تک انھوں نے کامیابی کے بہت سے ریکارڈ قائم کیے اور اپنی بساط بھر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔