crime free city 2

دو شاندار ہتھیار۔۔

تحریر: جاوید چودھری۔۔

’’آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ نوجوان کی آواز میں شدت بھی تھی‘ غصہ بھی اور حقارت بھی‘ میں شرمندہ ہو گیا اور آہستہ آواز میں عرض کیا ’’سر میں نے آپ کو کچھ بھی نہیں کہا بس آپ کی چیونگم صاف کر دی اگر یہ گستاخی ہے تو میں آپ سے معافی چاہتا ہوں‘‘ میری معذرت کے باوجود اس کا غصہ کم نہیں ہوا اور وہ ناراض آواز میں بولا ’’آپ جیسے لوگ ایسی حرکتوں سے اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن رہتے پدے کے پدے ہی ہیں‘‘ میں ہنسا‘ ہاتھ جوڑے اور لاؤنج سے باہر آ گیا۔یہ واقعہ ایئرپورٹ پر پیش آیا‘ میں ارجنٹائن کے لیے روانہ ہو چکا ہوں‘روانہ ہوتے ہوتے میں ایک اور شخص کو ناراض کر بیٹھا اور میں اب پورا سفر شرمندہ ہوتا رہوں گا‘میں نے اپنے آپ کو کوسا اورآگے روانہ ہو گیا‘ ارجنٹائن ساؤتھ امریکا کی طرف دنیا کا آخری ملک ہے‘دنیا وہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے۔

دنیا کے اس آخری ملک کی ایک سائیڈ قطب جنوبی پر انٹارکٹیکا کو چھوتی ہے‘ دوسری چلی اور تیسری برازیل اور پیرا گوئے کو‘ یہ پاکستان سے جغرافیائی لحاظ سے بہت فاصلے پر واقع ہے‘ میں پہلے پیرس جاؤں گا‘ وہاں سے میڈرڈ کی فلائٹ لوں گا اور میڈرڈ سے جنوبی امریکا کے تمام ممالک کے لیے ڈائریکٹ فلائٹس چلتی ہیں‘ آپ لاطینی امریکا کے کسی بھی ملک جانا چاہتے ہیں تو آپ کو اسپین کے شہر میڈرڈ سے ڈائریکٹ فلائٹ مل جائے گی۔

میں بھی بیونس آئرس کے لیے میڈرڈ سے فلائٹ لے رہا ہوں‘ میرے دوست سہیل مقصود مجھے اسپین سے جوائن کریں گے اور ہم دونوں ایک ہفتہ ارجنٹائن ایکسپلور کریں گے‘ ان شاء اللہ اگلے چھ ماہ میں چلی بھی جاؤں گا‘ میں واقعے کی طرف واپس آتا ہوں‘ مجھے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک صاحب ملے‘ وہ مجھ سے ناراض تھے۔

ان کا خیال تھا شیرافضل مروت نے افنان اللہ کو مارا تھا لیکن میں نے مار کو الٹ دکھا کر مرحوم مشاہد اللہ سے اپنی دوستی نبھائی‘ وہ لمبی تقریر کرتے رہے اور میں خاموشی سے سنتا رہا‘ میں نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیکھ لیا ہے انسان کو بلاوجہ بحث میں نہیں الجھنا چاہیے‘ آپ اطمینان سے دوسروں کی تلخ سے تلخ بات سنیں اور پھر مسکرا کر آگے نکل جائیں۔

آپ کا وقت اور انرجی دونوں بچ جائیں گی‘خدا کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے لیکن جب آدھی دنیا خدا کو نہیں مانتی اور باقی آدھی خدا کی نہیں مانتی تو پھر آپ کی کون سنے گا اور آپ کو کون مانے گا لہٰذا آپ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا بند کر دیں‘ آپ کی دو تہائی ٹینشن ختم ہو جائے گی‘ خاموشی کے بعد دوسرا شان دار ہتھیار معذرت ہے۔

آپ فوراً اپنی غلطی مانیں‘ معافی مانگیں اور آگے بڑھ جائیں‘ آپ کی باقی ٹینشن بھی ختم ہو جائے گی‘ ہم اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے میں بہت سا وقت اور انرجی ضایع کر بیٹھتے ہیں‘ہم یہ کوشش بند کر کے اچھی اور مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں‘ میں اس بار بھی اس نوجوان کی بات اطمینان سے سنتا رہا‘ اس کا لہجہ بلند اور شدید تھا‘ اسے سن کر دو چار اور لوگ بھی آ گئے اور وہ بھی بحث میں شریک ہو گئے۔

ایک دو صاحب مجھ پر تنقید کر رہے تھے اور دو ایک میری طرف داری اور میں کبھی ایک کو دیکھتا تھا اور کبھی دوسرے کو‘ وہ جب تھک گئے تو میں نے عرض کیا بھائی میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے جو دیکھا وہ میں نے بیان کر دیا‘ باقی آپ بہتر سمجھتے ہیں اور اس فقرے کا وہی نتیجہ نکلا جو ایسی صورت حال میں عموماً نکلتا ہے۔وہ مزید ناراض ہو گیا‘ وہ بحث کے ساتھ ساتھ چیونگم بھی چبا رہا تھا‘ چیونگم بار بار اس کی دلیل میں اٹک رہی تھی لہٰذا اس نے انگلی منہ میں ڈالی‘ چیونگم نکالی اور ہاتھ نیچے کر کے کرسی کے ساتھ چپکا دی اور دوبارہ بحث میں الجھ گیا‘ اسے اب دوسرے لوگ جواب دے رہے تھے اور میں ان کے لیے غیر متعلقہ ہو چکا تھا۔

مجھے اس کی چپکائی ہوئی چیونگم ڈسٹرب کر رہی تھی چناں چہ میں اٹھا‘ جیب سے ٹشو پیپر نکالا‘ اس کی کرسی کے پاس گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا‘ وہ گھبرا گیا لیکن میں نے اس دوران جھک کر اس کی کرسی کے نیچے سے چیونگم اتاری‘ ٹشو پیپر میں لپیٹی اور ٹشو پیپر ڈسٹ بین میں پھینک دیا اور میری یہ حرکت اسے مروت اور افنان کی لڑائی سے زیادہ بری محسوس ہوئی اور وہ باقاعدہ ناراض ہو گیا‘ میں نے اس سے معافی مانگی اور لاؤنج سے باہر آ گیا۔آپ کو میری بات زیب داستان یا ڈینگ محسوس ہو گی لیکن آپ یقین کریں مجھے دوسرے کے گند صاف کرتے ہوئے ذرا ملال نہیں ہوتا‘ میں شاید ایسے شان دار لوگوں میں رہا ہوں جو کام یابی‘ طاقت‘ شہرت اور امارت کی پیک پر پہنچ کر بھی سادے اور ہمدرد تھے۔

وہ ایسے معمولی کاموں میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے‘ میں شاید ان کی کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور ہر بار ناکام ہو جاتا ہوں‘ میں پچھلے 17 سال سے ایک کھرب پتی کے ساتھ کام کر رہا ہوں‘ میں نے زندگی میں اس شخص سے بے شمار چیزیں سیکھیں‘ مثلاً میں ایک بار کراچی میں فٹ مساج کرا رہا تھا‘ میرے سامنے شیشے کی دیوار تھی۔میں شیشے سے ہال کی طرف دیکھ رہا تھا‘ اچانک پارلر کا دروازہ کھلا اور وہ کھرب پتی اندر داخل ہوا‘ ہال کے درمیان میں اسٹول پڑا تھا‘ یہ غالباً صفائی والا صفائی کے دوران وہاں رکھ کر بھول گیا تھا اور انتظامیہ نے بھی اس پر توجہ نہیں دی تھی لیکن وہ راستے میں خلل ڈال رہا تھا اور جمالیاتی لحاظ سے بھی برا لگ رہا تھا۔میرے سامنے وہ کھرب پتی آیا‘ بینچ کے قریب رکا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ بینچ اٹھایا اور اسے دیوار کے ساتھ رکھ کر اندر داخل ہو گیا‘ اس نے اس کے بعد کسی سے کوئی شکایت نہیں کی‘ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ میں نے اس شخص کو ہمیشہ ورکرز کے واش روم استعمال کرتے دیکھا اور وہاں بھی یہ باہر نکلنے سے پہلے ٹشو پیپر سے واش بیسن صاف کر دیتا ہے۔

میں نے ایک بار ان سے اس سادگی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے مارز (Mars) کمپنی کے چیئرمین جان مارز کا واقعہ سنا دیا‘ مارز فوڈ آئٹمز کی بڑی امریکی کمپنی ہے‘ یہ چاکلیٹ بھی بناتی ہے‘ ببل گمز بھی اور پالتو جانوروں کی خوراک بھی‘  اس کی سالانہ سیل 45 بلین ڈالر ہے جب کہ پاکستان کی ٹوٹل ایکسپورٹس 16 بلین ڈالر ہیں۔اس 45 بلین ڈالرز کی کمپنی کا چیئرمین جان مارز کمپنی کی کسی میٹنگ میں شریک تھا‘ پریذنٹیشن چل رہی تھی‘ اس دوران چھت کی ایک چھوٹی سی لائٹ نے جلنا بجھنا شروع کر دیا‘ یہ معمولی سی خرابی تھی اور اس سے پریذنٹیشن پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا‘ جان مارز خاموشی سے اٹھا‘ باہر گیا‘ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے کندھے پر فولڈنگ سیڑھی تھی۔اس نے نہایت خاموشی سے سیڑھی لگائی‘ اس کی فولڈنگ کھولی‘ ہاتھ سے بلنک کرتی ہوئی لائیٹ ٹھیک کی‘ سیڑھی فولڈ کی‘ اٹھائی‘ باہر گیا‘ سیڑھی اسٹور میں رکھی اور واپس آ کر چپ چاپ پریذنٹیشن میں بیٹھ گیا اور اس واقعے کا کسی سے تذکرہ تک نہ کیا اور یہ 45 بلین ڈالر کی کمپنی کے مالک کا رویہ تھا جب کہ میٹنگ روم میں بیٹھے تمام لوگ اس کے ملازم تھے‘مجھے پاکستانی کھرب پتی نے یہ واقعہ سنا کر کہا ’’اگر جان مارز کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ میں یہاں آپ کو سید بابر علی کا ایک واقعہ بھی سناتا چلوں‘ سید بابر علی پاکستان کی سب سے بڑی اور پرانی کاروباری شخصیت ہیں‘ یہ نیسلے کمپنی کے میجر شیئر ہولڈر اورپیکیجزلمیٹڈ کے مالک ہیں۔لمز بھی ان کا کمال ہے‘ یہ 97 سال کی عمر میں آج بھی 14 گھنٹے کام کرتے ہیں اور سادگی کا یہ عالم ہے یہ عام سے کاموں کے لیے عام ڈپٹی ڈائریکٹرز کے آفس میں دو دو گھنٹے بیٹھے رہیں گے اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی اس کے سامنے کتنی بڑی شخصیت بیٹھی ہے‘ میں نے انھیں ایک بار لاہور ایئرپورٹ پر لاؤنج کا ٹیبل صاف کرتے دیکھا‘ یہ اپنا بیگ بھی خود اٹھا کر جہاز میں سوار ہوئے تھے اور یہ عادتیں پاکستان جیسے ملک میں حیران کن ہیں۔

مجھے چند دن قبل میرے ایک دوست نے اپنا واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا میرا چوکی دار رورز اپنے واش روم کی صفائی کا شکوہ کر رہا تھا‘ میں اسے جواب میں سویپر سے بات کرنے کا کہتا تھا مگر وہ اس کے بجائے ہمیشہ مجھ سے شکایت کرتا تھا‘ میں نے ایک دن دو کرسیاں منگوائیں۔دونوں واش روم کے سامنے رکھیں‘ سویپر اور چوکی دار کو ان پر بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے ان کا واش روم صاف کر دیا‘ میں نے قہقہہ لگاکر پوچھا ’’اس کا کیا نتیجہ نکلا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’وہ دونوں نوکری چھوڑ کر چلے گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ وہ بولے ’’دونوں کا کہناتھا آپ نے ہماری بے عزتی کر دی‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’لوگ اور قومیں اس وقت برباد ہوتی ہیں جب انھیں نیکی اور اچھائی بے عزتی محسوس ہونے لگتی ہے‘‘۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں