shartiya meetha | Imran Junior

”دو۔۔ قومی نظریہ ”

علی عمران جونیئر

دوستو، آپ نے بیگم اور بچوں سے ضرور سنا ہوگا کہ آپ اپنی زندگی میں کچھ پراپرٹی لے لیں، ذاتی مکان بنا لیں ،کچھ سیونگ کرلیں۔خدانخواستہ، آپ کو کچھ ہو گیا تو بعد میں ہمیں مشکلات نہ ہوں۔۔کیا کبھی کسی نے بیگم سے یہ بھی سنا ہے کہ آپ اپنی صحت میں دوسری شادی کر لیں،خدانخواستہ مجھے کچھ ہوگیا تو آپ کا خیال کون رکھے گا؟باباجی اسے ”دو قومی نظریہ” قرار دیتے ہیں، جس میں زوجہ ماجدہ کا اپنے شوہر اور سسرال والوں کے لئے الگ فلسفہ حیات ہوتا ہے جب کہ اپنے بھائیوں اور میکے والوں کیلئے الگ نظریہ۔۔ گرمیاں شروع ہورہی ہیں تو اپنے شادی شدہ بھائیوں کے لیے باباجی کی طرف سے ایک مفید مشورہ ہے کہ جب بھی فریج سے پانی پینے کے لیے بوتل نکالیں تو اسے دوبارہ بھر کر واپس رکھیں۔نہیں تو لیکچر بوتل سے شروع ہو گا اور پھر بات بچوں سے ہوتی ہوئی،برے نصیب، داخلی و خارجی امورسمیت خاندانی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے سچا پیار نہ ملنے جیسے طعنے پر ختم ہوگی۔

کہتے ہیں کہ عورت کسی بھی ملک سے ہو اس کو پروا نہیں ہوتی اسکا خاوند کیا ہے۔ خواہ اسکا خاوند لیڈر ہو، جنرل ہو، یا مافیا کا سربراہ۔۔2015 میں نوبل انعام سے نوازے جانے والے ترک کیمیا دان عزیز سنجر کہتے ہیں نوبل انعام جیتنے کے بعد ایک دن میری بیگم نے مجھے آواز دی۔۔عزیز! گھر میں جمع کچرا باہر گلی کے کوڑا دان میں ڈال آئیں۔میں نے جواب دیا میں نوبل انعام یافتہ ہوں۔۔اس نے پھر آواز دی۔۔ نوبل انعام یافتہ کیمیا دان عزیز صاحب! گھر میں جمع کچرا گلی کے کوڑا دان میں پھینک آئیں۔۔!!ہمارے پیارے دوست کو شادی کے بعد پہلی بار سیلری ملی تو بیگم نے بھی شاپنگ کی فرمائش کردی، نئی نویلی بیگم کی فرمائش کو بھلا کون ٹال سکتا ہے۔۔ شام کو نکل پڑا یہ نوبیاہتا جوڑا شاپنگ کیلئے۔۔بیگم صاحبہ نے 10 ہزار کے 2 سوٹ لیے۔3 ہزار کا کپڑوں کے ساتھ کا میچنگ سامان لیا۔2 ہزار کا ہینڈ بیگ لیا۔4 ہزار کے سینڈل۔ساڑھے تین ہزار کی عبایا۔۔ اٹھارہ سو کی عبایا۔۔ دوہزار کا پیزا کھایا۔۔بٹوے میں روپے ختم ہوتے دیکھ کر میں نے واپسی کی راہ لی۔راستے میں ہمارے پیارے دوست نے اپنی بائیک ایک پان کے کھوکھے کے سامنے روکی اور شان بے نیازی سے پان والے سے گولڈ لیف کا ایک سگریٹ مانگا۔۔پان والے نے سگریٹ حوالے کی اور تیس روپے طلب کرلیے۔۔ ہمارے پیارے دوست نے مڑ کر بیگم سے بڑی شرمندگی کے انداز میں کہا۔۔ بیگم تیس روپے ہونگے۔۔ بیوی نے یہ سنتے ہی طیش میں آکر کہا۔۔تمھاری انہی شاہ خرچیوں کی وجہ سے کبھی میری شاپنگ پوری نہیں ہوتی۔۔

کل باباجی نے انکشاف کیا کہ۔۔بادام، دودھ، انڈے والے صابن تک تو مشکل سے صبر کیا۔۔ پر آج آڑو والا صابن لیا تو برداشت نہ ہوا اور ایک ”چک” لگا ہی دیا۔۔یقین کریں،اللہ کی قسم ۔۔ آڑو ایسا نہیں ہوتا یار۔۔باباجی ہمیشہ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں نہیں کرتے، کبھی کبھی وہ جب نان سیرئیس ہوتے ہیں تو ایسے معاملات پر باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں، جس پر عوام کی توجہ ہی نہیں جاتے،یہ مسائل سنجیدگی کی حد تک ایسے ہوتے ہیں جن پر پورے ملک کو آواز اٹھانا ضروری ہے۔۔ وہ کہتے ہیں کہ۔۔سب پاکستانی اس بات کو سوچو کہ آپ کے ملک میں 7 چیزیں عوام کیلئے انتہائی مہنگی ہیں۔(1) بجلی(2) گیس(3) گاڑی(4) پیٹرول(5) گھر(6) علاج اور(7) سفر ۔۔اور یہی 7 چیزیں آپ کے حکمرانوں، بیوروکریٹس، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے بالکل فری ہیں۔۔پھر وہ تمہارے خادم کیسے ہوئے ؟سیاست نہیں اپنا حق مانگو،کیونکہ یہ ان سب چیزوں کے علاوہ تنخواہ اور پنشن بھی آپ کے خون پسینے کی کمائی کے ٹیکس سے لیتے ہیں۔۔ ہم نے ایک بار پوچھا، کیا کبھی ایسا بھی ہے کہ آپ نے کسی کو واٹس ایپ پر کوئی میسیج کیا ہو اور اس نے آپ کو نظرانداز کردیا۔۔ وہ بتانے لگے کہ میرا ایک دوست ہمیشہ یہی کرتا تھا، ایک بار میں نے اسے سبق سکھانے کا سوچا۔۔وہ ہمیشہ میرے میسیج دو تین دن کی تاخیر سے دیکھتا ۔۔ میں نے ایک دن اسے میسیج کیا اور کرتے ہی۔۔ ڈیلیٹ فار ایوری ون کردیا۔۔تین گھنٹے بعد اس کا میسج آیا۔۔ بھائی آپ نے میسج کیا اور ڈیلیٹ کردیا۔ خیریت تو تھی ناں؟۔۔ میں نے عرض کی۔۔جی جی خیریت ہے، بس رات مٹن کڑاہی کا پروگرام تھا، آپ کو مدعو کیا تھا۔۔ مگر آپ شاید مصروف تھے۔ جب کھانا سرو ہوگیا تو سوچا اب آپ روانہ بھی ہوئے تو خالی دسترخوان تک پہنچیں گے، سو بہتر ہے میسج ڈیلیٹ کر دیا جائے۔۔اس لیے پھرہم نے میسج ڈیلیٹ ہی کر دیا۔تب سے اب تک وہ دوست ہمارا ہر وٹس ایپ میسج دس سیکنڈز کے اندر اندردیکھ لیتا ہے۔

باباجی فرماتے ہیں کہ عورت سے بحث کرنے سے گریز کریں خصوصاً جب وہ غصے میں ہو، ناراض ہو ،خوش ہو۔۔ یا سانس لے رہی ہو۔۔۔ویسے دو قومی نظریہ کا اطلاق سب سے زیادہ مڈل کلاس طبقے والوں پر ہوتا ہے۔۔ مڈل کلاس طبقہ کی اپنی منفرد خوبیاں ہوتی ہیں۔۔ان کے گھر میں ایک بچہ ایسا ہوتاجسے گھر کے ہر کونے میں رکھی ہوئی چیز کا پتہ ہوتا، اور وہ عموماً چھوٹا سپوت ہوتا ہے، اس سے آپ کچھ بھی چھپا نہیں سکتے۔ان کے ہاں گھومنے پھرنے کا کوئی رواج نہیں ہوتا، کبھی کہہ دو کہ لاہور یا اسلام آباد، مری چلتے ہیں تو کہتے ہیں کیوں پیسے ضائع کرنے، ساتھ میں پلان کا ستیاناس کیا جاتا ہے کہ بندہ دوبارہ نام نہ لے۔ ان کے خاندان میں ایک عدد کمپیوٹر ہوتا ہے جسے سارے خاندان کی خبریں پتہ ہوتی اور وہ پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔یہ لوگ نئی چیزیں سنبھال کے رکھتے بعد میں استعمال کریں گے، وہ بعد پتہ نہیں کب آئے گی۔ انکے ہاں کوئی رائٹر،پینٹر،آرٹسٹ نہیں بن سکتا کیونکہ یہ سب فضولیات اورامیروں کے شوق ہیں۔انکے ہاں ہمہ وقت” روسٹنگ ”چلتی رہتی ہے، کوئی کسی کی بات کو پکڑ کر نہ کھینچے یہ ہو نہیں سکتا۔باہر جا کے کچھ کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر کبھی غلطی سے کچھ منگوا لیں تو اماں کھانے کے بعد کہتی ہیں یہ بھی کھانے والی چیز تھی، پیسے ضائع کیے، اس سے اچھا تھا گھر میں بنا لیتے کچھ۔۔اور اگر گھر میں بنا لو تو ایک عدد چیز سے ان کے پیٹ کو سکون نہیں ملتا، ان کو پلیٹیں بھر کے، ڈبل شفٹس لگواؤ۔۔ان کے ہاں پڑھائی کے علاوہ کسی کام میں” اپریسئیشن” نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس ہر وقت ڈانٹی جاؤ اور دوسروں کے بچوں کے اچھے ہونے مثالیں دیتے جاؤ۔یہ لوگ کہیں جائیں تو ایک بلب چلتا چھوڑ جاتے ہیں تاکہ چور سمجھے گھر پر ہیں۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دنیا بھر کے سائنسدان بھی حیران ہیںجب انہیں یہ پتا چلا کہ اگر کسی کے اوپر سے چھلانگ لگا کر گزر جائیں تو اس کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں