سینئر صحافی، کالم نویس اور اینکرپرسن رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ۔۔ اسحاق ڈار صاحب کو وزارتِ خزانہ کیوں جان سے بھی عزیز ہے بلکہ یوں کہیے کہ جیسے جن کی قید میں شہزادی کی جان طوطے میں ہوتی تھی‘ ایسے ہی اسحاق ڈار کی جان وزارتِ خزانہ میں ہے۔دنیانیوز میں اپنےتازہ کالم میں وہ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 2014ء میں جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے یوروبانڈز فلوٹ کرنے کا اعلان کیا۔اس وقت عالمی مارکیٹ میں بانڈز فلوٹ کرنے کا وقت نہیں تھا۔ کچھ اور ممالک بھی بانڈز فلوٹ کرنا چاہتے تھے جن میں ترکی بھی شامل تھا لیکن مارکیٹ میں مارک اَپ ریٹ بہت زیادہ تھا لہٰذا ان تین چار ممالک نے فورا ًبانڈز فلوٹ کرنے کی بجائے کچھ دن انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ عالمی مارکیٹ میں ماہرِ معیشت اور دیگر ایکسپرٹ اس وقت حیران رہ گئے جب اسحاق ڈار نے عالمی مارکیٹ میں 500 ملین ڈالر کے یورو کے بانڈز فلوٹ کرنے کا اعلان کیا۔ پتا چلا ان بانڈز کا سالانہ پرافٹ 8.25 فیصدہوگا تو مارکیٹ میں کھلبلی مچ گئی۔ آج تک کسی ملک نے اتنا بڑا پرافٹ آفر نہیں کیا تھا۔ سب حیران تھے کہ اسحاق ڈار کو کیا ہوگیا ہے۔ 500 ملین ڈالرز اتنی بڑی رقم بھی نہیں یا اتنی بڑی ایمرجنسی بھی نہ تھی کہ اتنا مہنگا قرضہ لیا جاتا۔ پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں یا ڈیفالٹ کا ایشو بھی نہیں تھا۔خیر اُن دنوں یہ خبر سامنے آئی کہ بھارت کی مشہور کمپنی ریلائنس نے بھی 700 ملین ڈالرز کے بانڈز فلوٹ کیے تو انہوں نے سالانہ پرافٹ ریٹ 2.75 فیصددیا جبکہ اسحاق ڈار‘جو پاکستان کے وزیرخزانہ تھے‘ انہوں نے سوا آٹھ فیصد پرافٹ دیا۔ یوں ایک پرائیویٹ کمپنی کی کریڈٹ ریٹنگز پوری ریاستِ پاکستان سے زیادہ بہتر نکلی۔ سرمایہ کاروں کو بھارت کی ایک نجی کمپنی پر زیادہ بھروسا تھا کہ وہ ہر سال پرافٹ بھی دے گی اور بانڈز میچور ہونے پر ادائیگی بھی مکمل ہوگی۔ لیکن ایک نیوکلیئر سٹیٹ پر یقین نہ تھا کہ وہ دس سال تک انہیں پرافٹ دے پائے گی اور دس سال پورے ہونے پر بانڈز میچور ہونے پر ادائیگی بھی کرے گی۔ یوں ان سب نے 8.25 فیصدپرافٹ مانگا اور انڈیا کی کمپنی کو خوشی خوشی 700 ملین ڈالرز صرف ڈھائی فیصد پر دے دیے۔جب یہ خبر پاکستان میں بریک ہوئی تو دو تین کام ہوئے۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ نے قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی جس میں انہوں نے پہلی دفعہ دعویٰ کیا کہ اسحاق ڈار نے پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پانچ سو ملین ڈالرز پر پاکستان کو سرمایہ کاروں کو ساڑھے چار سو ملین ڈالرز کا پرافٹ دیناہوگا۔ مطلب سو فیصد ادائیگی کرنی ہوگی۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔ابھی اس پر گرد بیٹھ ہی رہی تھی کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اپنی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ان کے علم میں آیا ہے کہ پاکستان سے 70 ملین ڈالرز کچھ اہم لوگوں نے باہر بھیج کر یہ بانڈز خریدے ‘ کیونکہ اتنا بڑا پرافٹ وہ دوبارہ اپنی زندگیوں میں سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ 70 ملین ڈالرز بڑے بڑے لوگوں نے باہر بھجوائے تاکہ وہ یہ بانڈز خرید سکیں۔ چند بینکوں کے ذریعے بعد میں وہ بانڈز خریدے گئے کیونکہ پرافٹ بہت زیادہ تھا۔ اس پر سلیم مانڈوی والا نے بہت اجلاس بلائے لیکن کوئی انہیں وہ نام دینے کو تیار نہ تھا جنہوں نے پاکستان سے بانڈز خریدے تھے۔ اُس وقت کے سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کو دو تین دفعہ بلایا گیا لیکن وہ اُن لوگوں کے نام دینے سے انکاری تھے جنہوں نے پاکستان سے ڈالرز باہر بھیج کر وہ بانڈز خریدے تھے۔اس دوران میری ملاقات چودھری شجاعت حسین سے اُن کے گھر پر ہوئی۔ چودھری شجاعت حسین کو بھی اس ایشو کی بھنک پڑ چکی تھی۔ مجھے کہنے لگے: ائوے منڈیاایدھر آ گل سُن۔ میں تجھے بتاتا ہوں ان بانڈز کے پیچھے کون ہے اور وہ کون سے تین لوگ ہیں جن کی خاطر یہ بانڈز فلوٹ کیے گئے۔ مقصد ان تین خاندانوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ جان بوجھ کر سوا آٹھ فیصد پرافٹ رکھا گیا کیونکہ اس کے خریدار وہی پاکستانی تھے جو یہ سب فیصلے کرتے ہیں۔ انہوں نے دو بڑے سیاسی گھرانوں کے علاوہ لاہور کے ایک بڑے بینکر کا نام لیاکہ ان بانڈز کا سارا پرافٹ ان کی جیب میں جارہا ہے۔میں حیرانی سے بیٹھا سنتا رہا کہ کوئی اپنے ملک کے ساتھ ایسی بے رحمی بھی کرسکتا ہے کہ صرف اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کر دے۔انہی دنوں ہمارے صحافی دوست احتشام الحق نے اس پانچ سو ملین ڈالرز پر ایک کالم لکھا تو انہوں نے اسحاق ڈار کے حوالے سے کہا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے جا ن بوجھ کر اتنا مہنگا قرضہ کیسے لے لیا ‘ جب ترکی جیسے ملک بھی پیچھے ہٹ گئے‘ تو ڈار صاحب نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ ہم عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ چیک کررہے تھے۔ مطلب ساکھ چیک کرنے کے چکر میں دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے لیا اور وہ بانڈز بھی اپنے ہی لوگوں نے خرید لیے۔