do baar pehle bhi khudkushi ki koshish ki thi

دوبارپہلے بھی خودکشی کی کوشش کی تھی۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

’اپنی تمام تر کوشش کے باوجود میں اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر پاتا ہوں نہ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا خیال رکھ پاتا ہوں۔ میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہوا کہ شاید کوئی ایسی صورت نکلے کہ کم از کم ان کو چھوٹا سا گھر ہی بنا کر دے دوں مگر اب تو نوکری ہی نہیں ملتی اور رکشے سے اتنی کمائی نہیں ہو پاتی کہ میں قرض کے بوجھ سے ہی باہر نکل سکوں۔ہر جگہ اپنی سی وی لے کر جاتا ہوں، انٹرویو دے کر آتا ہوں مگر مجھے بس یہی جواب ملتا ہے کہ ابھی حالات آپ کے سامنے ہیں‘۔اپنے دل کی یہ باتیں میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کراچی کے رہائشی 35 برس کے فہیم مغل نے اپنی خودکشی سے قبل اپنی اہلیہ شہزادی مغل سے کیں تھیں۔

شہزادی مغل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے شوہر جب بھی ان سے ان پریشانیوں کا ذکر کرتے تو ’میں انھیں حوصلہ دیتی تھی اور یہی کہتی تھی کہ آپ کو اپنی پانچ بچیوں اور ایک بچے کے لیے زندہ رہنا ہے۔شہزادی مغل کے مطابق فہیم مغل نے کم از کم دو بار اس سے قبل بھی خود کشی کی کوشش کی تھی مگر انھوں نے ہر بار ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور پھر انھیں سمجھایا کہ اگر ’آپ زندہ رہیں گے تو بچوں کے لیے سہارا ہوں گے مگر اس طرح تو بچوں کا سہارا بھی کوئی نہیں ہو گا۔شہزادی کے مطابق فہیم نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر آئندہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے شک تھا فہیم ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب ہو چکے ہیں تو میں انھیں ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی جس نے انھیں ذہنی دباؤ سے باہر نکالنے کے لیے ان کی ’کونسلنگ‘ بھی کی۔شہزادی کے مطابق انھوں نے ایک بار فہیم کو جب بہت پریشانی میں دیکھا تو انھیں مشورہ دیا کہ آپ لوگوں سے اپیل کریں کہ وہ آپ کی اس مشکل میں مدد کریں مگر فہیم کا جواب تھا کہ ان کا میڈیا کے شعبے میں ایک نام ہے اور لوگ انھیں جانتے ہیں ایسے میں اگر ’میں نے بیٹیوں کے نام پر غربت کا رونا رویا‘ تو اس سے تو ان کی عزت نفس مجروح ہوگی۔

فہیم مغل نے اپنی زندگی کے کئی برس میڈیا کے شعبے میں گزار دیے۔ وہ کراچی کے مقامی اخبارات ’ایمان‘ اور ’آزاد ریاست‘ سے بھی وابستہ رہے۔ تین برس قبل وہ ایک نجی اخبار کا حصہ بنے اور تقریباً آٹھ ماہ قبل انھیں اس ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔شہزادی کے مطابق جب فہیم کو اس ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے تو پھر انھیں میڈیا کے شعبے میں کہیں دوبارہ ملازمت نہ ملی۔ اس کے بعد فہیم نے اپنے ایک قریبی دوست سے ایک پرانا آٹو رکشہ قرض پر لیا کہ کم از کم بچوں کا پیٹ تو پال سکیں۔شہزادی فہیم کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانا رکشہ تھا جس کی وجہ سے یہ اکثر خراب ہو جاتا تھا اور پھر جمع پونجی اس کی مرمت میں ہی خرچ ہو جاتی تھی اور یوں بچوں کی دوائی، کپڑے یا دیگر خواہشات پوری کرنا فہیم کا خواب ہی بن کر رہ گیا تھا۔ان کے مطابق فہیم نے بینک سے قرضہ بھی لیا مگر پھر بھی حالات بہتر نہیں ہو سکے اور فہیم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔شہزادی کے مطابق رواں ماہ مکان کا کرایہ دینے اور تین بچوں کو سکول داخل کروانے کے لیے فہیم نے اپنی بہن سے بھی قرضہ لیا۔ ان کے مطابق اب فہیم کو ہر کام کرنے کے لیے قرض ہی لینا پڑتا تھا جبکہ وہ اپنے دوست کو رکشے کے پیسے بھی ادا نہیں کر پا رہے تھے، جس وجہ سے وہ پریشان رہتے تھے۔

فہیم مغل کی اہلیہ کے مطابق آخری رات سونے سے قبل ایک بار پھر فہیم نے مشکلات کا ذکر چھیڑ دیا تھا اور کہا کہ جب بچوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا ہوں تو ایسے جینے کا کیا فائدہ ہے۔میں نے فہیم کو سمجھایا کہ وہ ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ان کے مطابق ’فہیم نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وہ اپنے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اس کے بعد فہیم نے ہمیں کہا کہ آپ سب سو جاؤ اور میں بھی سوتا ہوں، جب ہم سو گئے۔ پھر رات کو اٹھ کر دیکھا کہ فہیم نے اپنے آپ کو پھندا لگا لیا ہے‘۔گھر والوں کو جیسے ہی پتا چلا تو وہ فہیم کو فوری طور پر اسی رکشے میں ہسپتال لے گئے۔ شہزادی کے مطابق ’یہ رکشہ خراب ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے راستے میں دیر بھی ہوئی‘۔ انھوں نے بتایا کہ ہسپتال والوں کے مطابق ’آپ 20 منٹ پہلے آ جاتے تو شاید زندگی بچائی جا سکتی تھی‘۔شہزادی کے مطابق جب بچوں کی دیکھ بھال کا چیلنج درپیش آیا تو فہیم نے مجھ سے کہا کہ میں ملازمت چھوڑ دوں اور صرف بچوں کی ہی تربیت پر توجہ دوں۔۔ان کے مطابق ’اب فہیم کے بعد میں دوبارہ ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کروں گی تاکہ بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو اور یوں شاید میں فہیم کے بچوں کے لیے چھت کے ادھورے خواب کو بھی مکمل کر سکوں‘۔

فہیم مغل کے ایک قریبی دوست عمیر دبیر نے بی بی سی کو بتایا کہ فہیم بہت جفا کش اور سفید پوش تھے۔ ان کے مطابق تمام مصائب اور مشکلات کے باوجود وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔ان کے مطابق فہیم کی موت سے دو دن قبل یعنی بدھ کے روز وہ باہر سے اپنے بچوں کے لیے رات کا کھانا لے کر آئے جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ یہ کھانا ایک خیراتی ادارے کے دسترخوان سے لے کر آئے تھے۔عمیر دبیر کے مطابق فہیم نے متعدد بار ان سے بینک سے لیے گئے 60 ہزار کے قرضے سے متعلق بات کی تھی اور کہا تھا کہ بینک سے قرضہ بچوں کے سکول میں داخلے کی غرض سے لیا تھا مگر اب واپسی ممکن نہیں ہے اور متعلقہ بینک کا عملہ دھمکیاں دینے پر اتر آیا ہے۔عمیر کے مطابق آخری دن فہیم سے گھر والوں نے چھوٹے بچے کے لیے دودھ لانے کے لیے بولا مگر اس وقت اُن کی جیب میں پیسے نہیں تھے کیونکہ وہ اُس دن بیماری اور پیٹرول کی مشکلات کی وجہ سے رکشہ نہیں نکال سکے تھے۔عمیر کا کہنا ہے کہ جب اس دن وہ رکشہ نہ چلا سکے تو ان پر رکشے والے کا کرایہ 1600 بن چکا تھا، جس کی ادائیگی کے لیے وہ قدرے پریشان تھے۔ان کے مطابق فہیم دن کو رکشہ اور رات کو چھوٹے اخبارات کے صفحات تیار کرنے کا کام کرتے تھے جہاں سے انھیں بہت کم تنخواہ ملتی تھی۔

بی بی سی نے فہیم مغل کے دفتر میں کام کرنے والے ان کے دوستوں سے بات کی۔ ان کے ایک سینیئر نے بتایا کہ فہیم کے حوالے سے انھیں یہ فیڈ بیک ملتا تھا کہ ’ڈسپلن‘ کے مسائل تھے لیکن وہ اپنے کام میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ان کے مطابق فہیم اخبار کے صفحات کی ڈیزائننگ کرتے تھے۔ فہیم کے ساتھ کام کرنے والے ان کے دوست نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ ہم میڈیا کے شعبے سے وابستہ تھے مگر ہمیں سب یہی کہتے تھے کہ آپ لوگ صحافی نہیں ہیں کیونکہ آپ کا شعبہ تکنیکی نوعیت کا ہے جب کہ صحافی ہونے کے لیے نیوز روم میں کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ان کے مطابق فہیم کو میڈیا سے جتنا لگاؤ تھا ایسے رویے سے وہ دلبرداشتہ رہتے تھے کہ وہ جس اخبار کے صفحات کو اتنی محنت سے تیار کرتے ہیں اس دفتر میں ہی کوئی انھیں صحافی ماننے کو تیار نہیں ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں