تحریر: محمد اظہارالحق۔۔
اُس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو دو وقت کی روٹی کے لیے صدقہ خیرات لیتا ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو بھوکا رکھ کر‘ ان کی ضروریات کو نظر انداز کر کے‘ وہی صدقہ خیرات کسی اور کو دے دیتا ہے! نہیں معلوم آپ اسے احمق کہیں گے یا ظالم! مگر شاید اس کی حماقت‘ اس کا ظلم‘ ان دو القابات سے بھی بڑھ کر ہے۔۔وہ احمق‘ وہ ظالم کون ہے؟ وہ ہم ہیں! ہماری حکومت ہے! ہمارے پالیسی ساز ہیں! سنگدلی کی انتہا دیکھیے! پٹرول کی قیمت قوم کے سوکھے‘ نحیف جسم کو چیر کر آسمان تک جا پہنچی ہے! ڈالر دو سوپینتیس سے اوپر جا چکا ہے اور پاکستان اپنے محدود اور انتہائی کم زر مبادلہ کو خرچ کرکے افغانستان کے لیے اشیا درآمد کر رہا ہے! یہ دہائی ایک پاکستانی ایسوسی ایشن کے سربراہ نے دی ہے۔ ہو کیا رہا ہے؟ انہوں نے بتایا ہے کہ افغانستان کے درآمد کنندگان اپنی ضروریات پاکستان کو بتاتے ہیں۔ پاکستان کے امپورٹرز ان کی ضروریات ڈالر دے کر دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں۔ اس میں چائے سمیت بہت سی اشیا شامل ہیں۔ یہ اشیا افغانستان کو بھیجی جاتی ہیں۔ تو کیا افغانستان یہ اشیا پاکستان سے ڈالر دے کر خریدتا ہے؟ نہیں! پاکستان نے افغانستان کو اجازت‘ بلکہ رعایت دے رکھی ہے کہ وہ یہ اشیا پاکستانی روپوں میں خریدے! دوسرے لفظوں میں پاکستان اپنا زر مبادلہ افغانستان کے لیے خرچ کر رہا ہے جو تقریباً دو ارب ڈالر ماہانہ ہے۔۔
کیا دنیا میں اس حماقت کی‘ اس سنگدلی کی کوئی اور مثال ہوگی؟ شاید نہیں! نرم ترین الفاظ میں بھی اسے اقتصادی غداری ہی کہا جائے گا! ادھر پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کے سامنے ناک سے لکیریں کھینچ رہی ہے‘ ذلت اور رسوائی کا چھرا ہماری گردن پر رکھا ہے۔ ڈالر دنوں کے حساب سے نہیں‘ گھنٹوں کے حساب سے اوپر جارہا ہے۔ پاکستانی روپیہ مسلسل بے قدری کا شکار ہے۔ زر مبادلہ کے حساب خطرناک پستی کو چھو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حساس اور درد مند پاکستانی سینہ کوبی کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر کہاں جا پہنچے ہیں۔ اور ادھر حکومت کی ” فیاضی‘‘ دیکھیے کہ افغانستان کے لیے اشیا ڈالر دے کر منگوا رہی ہے اور روپے لے کر افغانستان کو دے رہی ہے۔ ہر مہینے یہ ”فیاضی‘‘ پاکستان کو دو ارب ڈالر کی پڑ رہی ہے!
کوئی ہے جو حکومت سے جواب طلبی کرے؟ کیا اس ملک میں کوئی پارلیمنٹ ہے؟ اگر ہے تو کیا پوری پارلیمنٹ میں کوئی رجلِ رشید ایسا نہیں جو اٹھ کر پوچھے کہ یہ فیصلہ کس نے کیا؟ کیا یہ فیصلہ شوکت ترین صاحب کر گئے یا ان سے پہلے کسی نے کیا؟ یا مفتاح صاحب نے کیا ہے؟ جس نے بھی کیا ہے قوم کو اس ”محبِ وطن‘‘ کا نام معلوم ہونا چاہیے۔ عوام کا حق ہے کہ ایسے فیصلے کرنے والے یا کرنے والا‘ نقاب اتار کر چہرہ دکھائے! مذکورہ شخصیت نے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا ہے! اگر اٹھایا ہے تو وزیر خزانہ اس نقصان کا سلسلہ کیسے بند کر رہے ہیں؟
افغان عوام کا حق ہے کہ ان کی حکومت ان کے مسائل حل کرے! پاکستان کی حکومت کا فرض ہے کہ پاکستانی عوام کے مسائل پر توجہ دے! اگر افغان حکومت کی توجہ افغان عوام پر ہے اور پاکستانی حکومت کی توجہ بھی افغان عوام پر ہے تو پاکستانی عوام کہاں جائیں؟ اور کون سی افغان حکومت؟ جس نے ابھی چند دن پہلے کوئلے کی قیمت اور ڈیوٹی صرف اس لیے دو گنا کر دی کہ پاکستانی وزیراعظم نے وہاں سے کوئلہ خریدنے کی بات کی تھی! کون سی افغان حکومت؟ جس نے کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رکھا ہے! پہلے پاکستان سے قبائلی عمائدین گئے اور کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے جو ناکام ہوئے۔ اب پاکستانی علما گئے ہوئے ہیں! گمان غالب یہ ہے کہ پاکستانی علما کی بات بھی نہیں مانی جائے گی! افغان حکومت کی نظر میں کالعدم ٹی ٹی پی کا اور حکومتِ پاکستان کا مرتبہ یکساں ہے! کون سی افغان حکومت؟ جس نے پاکستان کی تعمیر کردہ باڑ جگہ جگہ سے اکھاڑ دی! فاعتبروا یا اولی الابصار۔۔
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے! اس ملک میں سب سے مظلوم خود پاکستانی ہی ہیں! ہماری ہر حکومت کو دوسروں ہی کی فکر رہی! کبھی اہلِ چیچنیا کی‘ کبھی افغانوں کی! سائیکل کا ہر پرزہ بجا سوائے گھنٹی کے! نہ فکر ہوئی تو اپنے عوام کی نہ ہوئی! غیر ملکیوں کے لیے پاسپورٹ ویزہ سرحد سب کچھ ختم کر دیا گیا! آج بھی لاکھوں غیر ملکی اس قلاش ملک کو نوچ رہے ہیں! دکانیں ان کی! جائدادیں ان کی! چاہیں تو پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں ( بے شمار ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں)۔ اسے نااہلی کہیے یا بے حسی یا وطن دشمنی کہ نادرا جیسے حساس ادارے میں غیرملکی ملازمت کرتے پائے گئے! عرب ملکوں کا یہ حال ہے کہ چڑیا وہاں پر نہیں مار سکتی! جو سلوک پاکستانیوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ ہم سب جانتے ہیں! ویزے کے بغیر کسی کے وہاں جانے یا اترنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! دنیا کا ہر ملک اپنی سرحدوں کی حرمت کا خیال رکھتا ہے۔ امریکہ نے بیمار پرویز مشرف کو حال ہی میں علاج تک کے لیے ویزہ نہیں دیا! یہ صرف پاکستان ہی ہے جہاں برما سے لے کر بوسنیا تک اور بنگلہ دیش سے لے کر افغانستان تک کے لاکھوں شہری نہ صرف رہ رہے ہیں بلکہ بزنس کر رہے ہیں! ملازمتیں کر رہے ہیں! ضیاء الحق نے تھور کا جو درخت لگایا تھا ابھی تک اس کی شاخیں نحوست پھیلا رہی ہیں۔۔
پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اب تک ہو رہا ہے۔ یہاں سے غلہ‘ چائے‘ گھی‘ چینی‘ ادویات اور دیگر بے شمار اشیا جو زندگی گزارنے کے لیے لازم ہیں‘ افغانستان جاتی ہیں۔ وہاں سے کیا آتا ہے؟ منشیات اور اسلحہ! میوہ جات بھی آتے ہیں مگر قلیل مقدار میں! میوہ فروش افغان ہیں یا پاکستانی امپورٹر‘ دونوں کے ہاتھ چند روپوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا! اصل مال منشیات بیچنے والے اور خریدنے والے بنا رہے ہیں۔ اس مکروہ کاروبار میں افغان اور پاکستانی دونوں شامل ہیں۔۔
مانا کہ افغانستان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں! مگر افغانستان حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس کی ترجیحات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ تفصیل مناسب نہیں۔ بینکاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ افغانستان کے لیے لازم ہے کہ بینکاری کے لیے سنجیدہ کوشش کرے۔ اپنے بینک نہیں تو پاکستانی اور ایرانی بینکوں کی شاخیں اپنے ہاں کھلوائے اور انہیں سکیورٹی مہیا کرے! بینکاری کے بغیر امپورٹ ایکسپورٹ ناممکن ہے! چین نے شروع میں طالبان حکومت کی مدد کا عندیہ دیا تھا لیکن جب تک افغان حکومت خود آگے بڑھ کر معاملات کو دوسرے ملکوں کے لیے قابلِ قبول نہیں بنائے گی‘ کوئی اور کچھ نہیں کر سکتا! سوال یہ ہے کہ کیا افغان حکومت کی اولین ترجیح عوام کی فلاح اور معیشت کی بہتری ہی ہے؟(بشکریہ دنیانیوز)