تحریر: خرم علی عمران۔
قدیم زمانے میں دہلی کہلایا جانے والا شہر اب دلی کہلاتا ہے۔ ہندوستان کا دارالحکومت قرار دیا جانے والا یہ دلی شہرعظیم روایتوں کا امین شہر ہے جو ہمیشہ سے ہی ہندوستان کے مرکزی شہروں میں سے ایک رہا ہے اور مسلمانوں اور خصوصا مغلوں کے دور حکومت میں تو یہ تقریبا ہمیشہ ہی دارالحکومت کی حیثیت میں رہا ہے اور تقسیم کے بعد بھی اسی شہر کو دارالحکومت کا درجہ ملا ہے ویسے بر سبیل تذکرہ اس شہر کے حوالے سے مشہور بہت سی تمدنی،علمی اور ادبی روایات میں سے ایک ادبی واقعہ اردو شاعری کے خداء سخن میر تقی میر کے حوالے سے بہت مشہور ہے کہ جب ان کے دور میں دہلی میں غیر ملکی لشکر کشی کے نتیجے میں تباہی آئی تو میر نے بھی کچھ توقف کے بعد وہاں سے رخصت سفر باندھا اور لکھنو کی جانب روانہ ہوئے اور اردو شاعری میں دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنو کی چشمکیں اور ادبی معرکے بہت مشہور و معروف ہیں تو میر جب وہاں پہنچے تو سفر کی خستہ حالی کی وجہ سے حلیہ بے ترتیب سا تھا اور وہ اکیلے بھی تھے۔ ان کے آنے کی خبر تو لکھنو میں گرم تھی لیکن معدودے چند کے سوا کے سوا میر صاحب کی صورت سے کوئی آشنا نہ تھا آپ سیدھے ایک مشاعرے میں جا پہنچے جہاں لکھنو شہر کے بڑے بڑے اساتذہ موجود تھے وہاں پہنچ کر میر صاحب نے مشاعرے میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسٹیج سیکریٹری نے ازراہ ترحم سب سے پہلے پڑھنے کو کہہ دیا کہ مشاعروں کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ کم درجے کے شاعر پہلے پڑھتے ہیں پھر درجہ بہ درجہ شاعر کلام پیش کرتے ہیں اور آخر میں سب سے بڑے شعراء کو دعوت کلام دی جاتی ہے۔ میر صاحب جب کلام پڑھنے کے لئے بیٹھے تو حاضرین اور شعراء کی طرف سے استہزائیہ انداز میں تعارف کی فرمائش آئی کہ میاں کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟تعارف تو کراؤ تو جوابا میر صاحب نے تنک کر اپنا ایک مشہور زمانہ قطعہ پڑھا جس کے بعد کہتے ہیں کہ اساتذہء لکھنو نے جھک کر انکا استقبال کیا اور انہیں قرار واقعی تکریم سے نوازاکہ فن کی قدر صاحب فن ہی کو ہوتی ہے اور سب شعراء کرام سمجھ گئے کہ یہی میر تقی میر ہیں جوکہ فی البدیہہ ایسا قطعہ کہہ سکتے ہیں۔ قطعہ یہ تھا
؎ کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں، ہم کو غریب جان کر ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب،رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا، ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔
خیر درج بالا قصہ تو ضمنا آگیا بات اصل میں دلی کے موجودہ وزیر اعلی جناب اروند کیجریوال کی کرنا ہے ۔ جنہیں اگر فاتح دلی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ مرکز میں بی جے پی جیسی فاشسٹ پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود انہوں نے حالیہ ریاستی انتخابات میں تیسری مرتبہ اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار کیا اور نوے فیصد سے زیادہ نشستیں جیت لیں۔۔ کیجریوال صاحب بطور لیڈر اور انکی عام آدمی پارٹی انڈیا کی وہ واحد سیاسی شخصیت اور سیاسی پارٹی ہے جو کہ باقی ماندہ سیاسی لاٹ میں سب سے بہتر کم از کم مجھے تو لگتے ہیں کہ وہ باتوں اور بیانیوں سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور انکی پچھلے پانچ برسوں کی کارکردگی ایک ٹی وی انٹرویو میں سن کر میں دنگ رہ گیا کہ بجلی دو سو یونٹ تک ہر شہری کے لئے مفت، 20 ہزار لیٹر تک ہر شہری کے لئے مفت پانی کی فراہمی، ہیلتھ،تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں عوام کی بہبود کے لئے زبردست اقدامات، ٹرانسپورٹ کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی اور سرکاری دفاتر سے بد عنوانی کے مختلف حربوں کے انسداد میں نوے فیصد سے زیادہ کامیابی جس کے نتیجے میں دلی کا ترقیاتی بجٹ تیس ہزار کروڑ سے بڑھ کر ساٹھ ہزار کروڑ ہوجانا اور حیرت انگیز طور پر یہ معرکہ یہ کارنامہ بغیر کوئی نئے ٹیکس عائد کئے انجام دینا ۔ یہ وہ چند باتیں ہیں جو اس پروگرام کے خلاصے کے طور پر بیان کی گئ ہیں اور بعد میں انٹر نیٹ کی مدد سے می نے ریکارڈ چیک کرکے ان باتوں کی تصدیق کی کوشش کی تو کم و بیش تقریبا ساری باتیں ہی اروند صاحب کی درست تھیں۔ اور اب انہیں دلی کی عوام نے تیسری بار منتخب کرکے ان باتوں پر گویا مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
وائے حسرت کہ اب کیا کہا جائے کہ نہ جانے ہم اور ہمارے صوبے حقیقی عوامی بہبود اور خدمت سے دلچسپی رکھنے والی اس قسم کی رہنما شخصیات کی شید قلت کا کیوں ماضی میں بھی شکار رہے،اب بھی ہیں اور آئندہ کی ویسے تو خدا جانے لیکن بظاہر امید کوئی نہیں ہے۔ کیوں یہ سارے کام سندھ، پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں پچھلے سالوں میں نہیں ہوسکے بلکہ ہندوستان کے بھی بہت سے صوبوں اور ریاستوں میں نہیں ہوسکے اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قیادت۔ جب دہلی شہر کو مخلص قیادت ملی تو چند سال پہلے تک دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہونے والا دلی شہر اب پہلے سے بہت بہتر ہے اور عام لوگ اور غریب عوام بہت خوش ہیں کہ انکی سرکار انہیں ممکنہ حد تک ہر سطح پر بہترین ریلیف دے رہی ہے۔ لیکن کیا پاکستان کی عوام بھی ایسا ہی محسوس کررہی ہے تو جواب ہے بلکل نہیں! عوام کو برسوں سے صرف نت نئے قصے کہانیاں سنائی جارہی ہیں،مستقبل کے سنہری خواب دکھا دکھا کر حال خراب کرنے کی مشق ستم دہائیوں سے جاری و ساری ہے اور بات اب بے حالی و بد حالی سے بڑھ کر عوامی عدم اعتماد تک آتی جارہی ہے یعنی کہ اب تسلیاں تشفیاں اور دلاسے بلکل بے اثر ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری سیاسی لاٹ جو اپنی تقاریراور بیانات میں جن بڑی بڑی عظیم شخصیات کے حوالے دیتے نہیں تھکتی تو ان تک پہنچنا یا ان کی تقلید کرنا یا ان کی طرح کام کرنا تو بہت ہی اونچی اور عالی بات ہے لیکن کم از کم کے درجے میں ہمارے حاضر سروس اور منتظر سیاسی افراد اور قائدین اگر اروند کیجریوال اور انکی عام آدمی پارٹی کی ہی طرح سے عوامی فلاح و بہبود کے لئے ہوائی قلعے بنانے کی بجائے کچھ عملی کام کرکے دکھادیں تو اس غریب،پسے ہوئے، کچلے ہوئے،مجبور،مقہور اور مظلوم عوام الناس پر جن کا ویسے توناس مارا جاچکا ہےہمارے سیاسی ذمہ داران کا بڑا احسان ہوگا۔(خرم علی عمران)۔۔