تحریر: جبار چودھری۔۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی ایک مہارت بہت ہی زبردست ہے کہ وہ آگ خود لگاتے ہیں لیکن اس میں جلنے کے لیے دوسروں کو اکساتے ہیں۔وہ خود اپنی زندگی آرام اورآسائش سے گزارتے ہیں۔ان کے اپنے معمولات میں کچھ فرق نہیں پڑتا نہ وہ پڑنے دیتے ہیں۔اس وقت ملک میں سازشی بیانیہ جو انہوں نے بنایااور اس کو آگے بڑھارہے ہیں اس کا شکار بھی اس ملک کے عام لوگ ہی ہورہے ہیں۔ میں ان کی باتوں کا تجزیہ کرتا ہوں۔ ان کو سنتا ہوں مجھے ان کی گفتگو سے ان کے نعروں سے ان کے الفاظ سے صرف اقتدار کی بو آتی ہے۔اس وقت ان کے نزدیک ان کا اقتدار چھن جانا دنیا کی سب سے بڑی بغاوت اور بڑامسئلہ ہے۔ اس ملک میں دو دوسال بعد حکومتیں جاتی آتی رہیں۔ مارشل لاتک لگتے رہے لیکن اقتدار جانے کے بعد لوگوں نے اگلے الیکشن کا انتظار کیا۔ پھر لڑے پھر واپس آئے دوبارہ وزیراعظم تک بن گئے لیکن اس ملک کے خلاف اس طرح لٹھ لے کر نہیں بیٹھ گئے جس طرح عمران خان بیٹھ گئے ہیں۔
عمران خان ایک اسٹار تھے اس لیے لوگوں میں ان کی پرستش تک کی فالونگ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں وہ اس فالونگ کو برے طریقے سے استعمال کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ وہ خود نہ خرچ کرتے ہیں نہ اپنے آرام اورسکون میں کسی کو مخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کے لیے اسٹیج تیار کیا جاتا ہے تو وہ خطاب کرتے ہیں۔ ان کے لیے کنٹینر تیار کیاجاتا ہے وہ صرف اس پر کھڑے ہوکر ہاتھ ہلاتے ہیں۔ انہوں نے کبھی سختیاں برداشت نہیں کیں۔ وکلا تحریک کے دوران جب ایمرجنسی لگی تو ان کی گرفتاری کا فیصلہ بھی ہوا لیکن وہ گرفتاری کے ڈرسے ایک دیوارپھلانگ کر بھاگ نکلے۔ پھر انہیں کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ گرفتاری دیدیں چند دن کی بات ہے آپ اس گرفتاری کو عمربھر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔پھر ایسا ہی ہوا انہوں نے گرفتاری دی اور تین چاردن بعد رہا ہوگئے۔
اب بھی جب لانگ مارچ کی کال دی تو لاٹھیاں کھائیں اس ملک کے لوگوں نے۔ قربانیاں دیں ان کے کارکنوں نے۔ راوی کے پل سے نیچے گرکرجاں بحق ہوا تو غریب کا بچہ عمران خان اسلام آباد میں رہنے کی بجائے امن کی جگہ کے پی میں چلے گئے وہاں سے ہیلی کاپٹر پرسوار ہوکر پشاور سے مردان تک آئے۔سپریم کورٹ نے ان کا راستہ کلیئرکیا۔ جب عمران خان کی ذات کو قربانی دینے کا وقت آیا تودھرنا دینے کی بجائے چھ دن کا الٹی میٹم دے کر چلتے بنے۔ وہ وقت تھا عمران خان دھرنا دے کر بیٹھ جاتے۔ موسم کی سختی برداشت کرتے۔ پولیس کا سامنا کرتے۔ لوگوں کو دکھاتے کہ میں صرف کہتا ہی نہیں کرتا بھی ہوں لیکن ان کے کارکنوں سمیت سب کو مایوسی ہوئی جب وہ ایک بارپھر فرارہوئے اور وہ چھ دن آج تک نہیں آئے۔
قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے ہفتے میں نے ایک کالم لکھا تھا جس میں لالہ نعیم ثاقب کی طرف سے لاہور میں ایک سیمینار کا احوال تھا۔ یہ سیمینار ڈیجیٹل سٹیزن کی ذمہ داریوں پر تھا۔ اس سیمنارمیں لالہ نعیم نے صحافیوں اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرنے والے نمایاں افراد کو موضوع پر بات کرنے کے لیے بلوایا۔ اس سیمینار میں عمران ریاض نے بھی گفتگو کی تھی۔ موضوع تھا کہ ڈیجیٹل اسپیس میں کس طرح ذمہ داری سے بات کی جائے کہ ہمارے ادارے محفوظ رہیں۔ ہم محفوظ رہیں، ہماری ڈیجیٹل اسپیس نفرت اور الزامات سے آلودہ نہ ہو۔عمران ریاض نے موضوع کے برعکس اس فورم کو فوج پر الزامات کا ذریعہ بنایا۔ فوج کیخلاف ہی تقریرکرڈالی پھر اس کو ایڈٹ کرکے ٹارگٹڈ مواد کو سوشل میڈیا پر وائرل کردیا گیا۔اس ویڈیو میں عمران ریاض فوج کو بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا مقابلہ اس بار ٹکر کے لوگوں سے پڑا ہے۔ اسی ویڈیو پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اوران کو منگل کی رات گرفتار کرلیا گیا۔
عمران ریاض ایک صحافی ہیں۔ان کواپنی بات کہنے کا حق ہے اس کا احترام بھی ہونا چاہئے لیکن بات کہنے کی آزادی بھی تو ہمارے آئین کے مطابق کچھ ذمہ داریوں کے ساتھ ہے۔ ہم آزادی مانگتے ہیں لیکن ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے جس سے سارا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت ملک آزاد ہے۔ اس میں خرابیاں ہیں۔ شاید زیادہ خرابیاں ہوں اوراچھائیاں کم ہوں۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے کہ صرف خرابیاں ہی ہیں۔ اور نہ اس وقت کوئی اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی لڑی جارہی ہے کہ آپ صحافی سے ایک ایکٹوسٹ ہی بن جائیں۔ عمران خان کوکسی نے سازش سے نکالا ہے تو اس کے لیے انتظار کیا جاسکتا ہے سال بعد دوبارہ الیکشن ہوں گے لوگ ان کو دوبارہ اقتدار میں لے آئیں گے۔ کیا اس کی آڑ میں اس ملک میں آگ لگادی جائے؟کیا اداروں کو تباہ کردیا جائے؟میں یہ نہیں کہتا ہے کہ ہماراادارہ بھی سب ٹھیک ہی کررہا ہوگا۔ ان کی طرف سے بھی خرابیاں ہیں ان کو ایسے معاملات میں نہیں آنا چاہئے لیکن انتہا پسندی تودونوں طرف ہے۔
عمران ریاض جس طرح پچھلے تین چار ہفتوں سے اپنے یوٹیوب پر فوج کے کمانڈروں اور آرمی چیف پر الزامات لگاتے جارہے تھے وہ طریقہ کسی بھی صورت درست نہیں ہے۔انہیں عمران خان کی حکومت جانے کو انا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے تھا۔سابق وزیراعظم عمران خان،جنہوں نے یہ آزادی اور حقیقی آزادی کا نعرہ مارا ہے وہ خود گرفتاری کے ڈر سے پشاور جاکر بیٹھ جاتے ہیں، ضمانتیں کرواتے ہیں لیکن ان کے بیانیے کو آگے چلانے والے ایسی باتوں کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ صحافی ہوں یا عام شہری ذمہ داری پہلے ہے۔ یہ ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔نفرت جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے اس لیے ذمہ داری اور بھی زیادہ اور گہری ہوجاتی ہے۔ اور پھر اگر بڑے صحافی ہیں لوگ آپ کوسنتے اور دیکھتے ہیں پھر تو اور بھی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے۔
میں عمران ریاض کا چینل دیکھ رہا تھا مجھے اس میں سے حامد میر کو غدارکہنے کی ویڈیوزبھی ملیں۔ مجھے ابصار عالم کی گولی کوڈرامہ کہنے کی ویڈیو بھی ملی، مجھے اسد طوراور مطیع اللہ جان کو جھوٹ بول کرڈرامے کرنے کی ویڈیوز بھی ملیں۔ عمران ریاض ان صحافیوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا تھا لیکن عمران ریاض کی گرفتاری پریہ صحافی مجھے ان کی گرفتاری کی مذمت کرتے نظرآئے ہیں۔ ہماری تقسیم کی وجہ سے بھی ہم کمزورہیں۔ صرف صحافت تقسیم نہیں ہے۔ سیاست بھی تقسیم ہے۔ معاشرہ بھی تقسیم ہے۔ صحافت اورایکٹوسٹ کے درمیان بہت ہلکی سی لکیر ہوتی ہے آپ اس لکیر کو جب تک مٹنے سے بچائے رکھیں گے آپ صحافی کہلائیں گے جب آپ نے یہ لائن کراس کرلی پھر آپ کسی سیاسی جماعت کے کارکن لگیں گے۔ مجھے عمران ریاض کے حالیہ طرز صحافت سے اختلاف ہے لیکن ان کی ہتھکڑی لگی تصویر بہت تکلیف دہ لگی۔ ہمیں ایک پرامن معاشرے کی ضرورت ہے۔ برداشت کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ حکومت دوبارہ مل سکتی ہے یہ معاشرہ اورملک دوبارہ ملنا مشکل ہوگا۔ خدارا برداشت۔۔برداشت اور صرف برداشت۔۔صحافیوں کیخلاف ایسی کارروائیوں کی بحث اوراس کوختم کرنے کی جدوجہد لمبی ہے لیکن ویگوڈالے، اغوااورتشدد سے پولیس کے ذریعے گرفتاری اور عدالت میں پیشی بحرحال بہتر ہے۔(جبار چودھری)۔۔