تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
ممالک کی اقتصادی صورتحال کی مانیٹرنگ کرکے ان کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے ’’موڈیز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے اقتصادی بحران کی بدترین شکل، جس میں قومی اثاثے گروی رکھنے کی نوبت آ ہی نہیں گئی تھی، ملکی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے۔ تبدیلی حکومت سے پہلے کرپشن کے الزامات و مقدمات سے لتھڑی نون لیگی حکومت میں موٹر وے، پوسٹ آفس اور مختلف النوع ریاستی اثاثوں کو گروی رکھنے جیسی اور اس کے جاری حساب کتاب کی خبریں آنے لگی تھیں۔ اس پس منظر میں اسٹیٹس کو پر پہلی کامیاب ضرب لگانے والی تحریک انصاف جب الیکشن 2018ء میں برسر اقتدار آئی تو بطور حکومت اناڑی کھلاڑی کا تاثر واضح ہوا، لیکن اس میںبھی کوئی شک نہیں کہ موجودہ عمرانی حکومت کے اقتدار کا آغاز مکمل اجڑے خزانے سے ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں دونوں روایتی پی پی اور نون لیگی حکومتوں کی طاقتور باقیات افسر شاہی کے عدم تعاون سے ہواتاہم بلا کے خود اعتماد وزیراعظم نے ’’بڑا خطرناک‘‘ یوٹرن لیکر آئی ایم ایف سے جو واضح عوام دشمن سودا کیا، اب تو وہ نتیجہ خیز اور مثبت ہوتا معلوم ہو رہا ہے کہ قومی معیشت سنبھلنے کے کچھ واضح اشارے ملنے شروع تو ہوئے ہیں۔ حفیظ شیخ اور ڈاکٹر باقر جیسے ریاستی مالیاتی منیجرز جن کے پاکستانی سے زیادہ مالیاتی اداروں کے ایجنٹ ہونے کا پروپیگنڈا اور خدشات کا اظہار کافی ہائی ڈگری پر ہو رہا تھا، کی پاکستانیت، ان کے آئی ایم ایف برینڈ پر حاوی ہوتی معلوم دے رہی ہے۔خانِ اعظم کا لیا گیا خطرناک یوٹرن ان کی نیک نیتی، معصومیت اور جرات کے امتزاج سے ان کے دورِ حکومت کی کامیابی کا بڑا ریفرنس بن جائے گا۔
فقط دیانت، خلوص اور نیک نیتی پر چلتی خان صاحب کی حکومتی گاڑی کے اس قدرے اطمینان بخش پس منظر میں تازہ ہوا کا ایک بڑا جھونکا آیا ہے۔ اللہ بھلا کرے، نجانے کیسے، جیسے بھی میں تو مددِ خدا ہی جانتا ہوں، خاں صاحب نااہلیت اور اناڑی اور کھلنڈرے پن میں گھرے ہونے کے باوجود گورننس کو علوم (مطلوب) سے جوڑنے کی طرف آرہے ہیں۔ ’’آئین نو‘‘ میں تو ان کے برسر اقتدار آنے کے امکانات پیدا ہونے پر انہیں کافی پہلے یہ راہ دکھائی گئی تھی کہ وہ انتخابی مہم چلانے سے پہلے ایک اسمارٹ الیکشن پروگرام اور اس کو عمل میں ڈھالنے والا ہوم ورک جلد سے جلد مکمل کریں، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کہاں سنائی دیتی ہے، یہ ہو جاتا اور منظم انداز میں ہوتا تو آج پاکستان ایک سال میں ہی ترقی جانب کافی تیز بھاگنا شروع کر چکا ہوتا۔ بہرحال پاکستان مملکتِ خداداد ہے، اللہ کا رحم ہم پر کبھی کم نہیں ہو گا ان شاء اللہ، ہم شہداء کی قوم ہیں، قیام سے تادم شہادتوں کا نذرانہ اللہ کے حضور پیش کر رہے ہیں، ہمارے غریب جتنے بے شعور، بے بس اور استحصالی سیاسی طاقتوں کے ظلم کا شکار ہوئے اتنے ہی صابر و شاکر بھی ہیں۔
تازہ ہوا کا بڑا جھونکا ’’ڈیجیٹل پاکستان پروگرام‘‘ ہے جس کی افتتاحی تقریب میں ارب ہاکی گلوبل کمیونٹی کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والے عالمی ادارے گوگل میں سرگرم کوئی جوان سال پاکستانی آئرن لیڈی تانیہ کو وزیراعظم صاحب بار بار مخاطب کرکے حوصلہ دے رہے تھے کہ ’’تانیہ گھبرانا نہیں‘‘۔ انہوں نے بتایا تانیہ گوگل جیسا ادارہ چھوڑ کر چیلنجز سے بھرے پاکستان چلی آئی ہے پاکستان کی کوئی بڑی سچی اور اعلیٰ دماغ بیٹی لگتی ہے۔ تانیہ کا ایک اخباری انٹرویو پڑھ کر اس کی تصدیق بھی ہوئی کہ وہ ایک وسیع سوچ کی مالک ہے۔ ’’آئین نو‘‘ کے اس نئے بیانیے کہ ’’عوام کو بڑے ریلیف دینے والے اسباب جاری ملکی بحران میں بھی موجود ہیں، لیکن اس کے لئے موجود ٹیکنالوجی کو گورننس کے لئے استعمال کرنا ضروری ہے‘‘۔ لگتا ہے ایم آئی ٹی کی تعلیم یافتہ اور گوگل میں کامیابی اور سرگرمی کا تجربہ رکھنے والی تانیہ نے بالاخر الیکٹ ایبل میں گھرے دیانت دار اور نیک نیت وزیراعظم کو اس گورننس کی راہ دکھا دی۔ ناچیز نے تو نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر ’’پہلا آئین نو‘‘ اس خوش فہمی پر کہ نون لیگ کا اب شروع ہونے والا تیسرا دور کفارے کا ہوگا، کیونکہ پی پی کے چوتھے دور میں حج کے سرکاری انتظامات میں بھی کرپشن نکل آئی تھی۔ اس پس منظر میں جناب نواز شریف کو ’’آئین نو‘‘ میں ای گورننس کی راہ دکھائی گئی۔ بہت حوصلہ ہوا کہ انہوں نے ایک تو کابینہ کا پہلا اجلاس بھی جلد بلایا اور اس میں ای گورننس سے ملتا جلتا ایجنڈا ہی سرفہرست تھا، لیکن چراغ جلا کر ساتھ ہی بجھا دیا گیا۔ جس کے جلتے رہنے اور چراغ سے چراغ جلنے سے سرکاری محکموں کی آسان تر پبلک ڈیلنگ، عام شہری کی عزت نفس محفوظ ہونے، رشوت کے بغیر جائز کام ہونے اور انتظامی امور میں شفافیت کا سامان پیدا ہونا تھا، جھوٹی اور دکھاوے کی لیپا پوتی کے سوا کچھ نہ ہوا، تھانہ کچہری کا بوسیدہ اور عوام کو خوار کرنے والا سسٹم جوں کا توں رہا، بلدیاتی انتخابات سے ممکن حد تک گریز، حالانکہ لوکل گورنمنٹ سسٹم اگر کمپیوٹرئزاڈ ہو جاتا تو عوام کی زندگی میں بڑی آسانیاں پیدا ہوتیں، لیکن اسیٹٹس کو کا تحفظ، جاری سسٹم میں تبدیلی لانے کی بجائے عوام دشمن تھانہ کچہری سسٹم کو جاری رکھنے اور اسے ای گورننس سے دور کرنے کا لازمہ تھا۔ ای گورننس تو کیا آتی، جعلی دستاویزات کے جعلی ریکارڈ کا سسٹم بھی نذر آتش ہونے لگا۔ خوش فہمی دور ہوگئی، سمجھ آ گئی کہ ہنوز دلی دور است۔ کہاں عوام کو ذلیل و خوار کرکے رشوت کے دروازے کھلے رکھنے والا نظامِ بد اور کہاں ای گورننس سے پیدا ہونے والی شفافیت۔ اب وزیراعظم کی جانب سے متعارف کرائی گئی سمندر پار سے پاکستان کے نظام بد کے چیلنج کو ٹیکنالوجی سے بدلنے کا حوصلہ رکھنے والی آئرن لیڈی میدان میں کودی ہیں۔ ان شاء اللہ ہمت ’نسواں‘، ہمت مرداں سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی، بشرطیکہ تانیہ نے گورننس کو آئی ٹی سے جوڑ کر پاکستان میں ای گورننس کا ناختم ہونے والا اور مسلسل بڑھنے والا آغاز کر دیا۔ وما علینا الا البلاغ۔(بشکریہ جنگ)۔۔