تحریر: جویریہ صدیق۔۔
حسد‘ دشمنی‘ رقابت اور لڑائی جھگڑے ازل سے دنیا میں موجود ہیں۔ انہی نفرتوں کی وجہ سے جنگیں شروع ہوتی ہیں اور وہ تباہی لاتی ہیں کہ تاریخ‘ جغرافیہ اور حالات و واقعات‘ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ہم کتنی بھی کوشش کر لیں‘ خود کو لڑائیوں‘ حسد اور دشمنیوں سے نہیں بچاسکتے۔ کبھی کبھی ہماری اچھائی پر دوسروں کی برائی غالب آجاتی ہے۔ پھر بھی ہمیں اپنے اندر کے اچھے انسان کو مرنے نہیں دینا چاہیے۔ حسد سے ہی سازشیں جنم لیتی ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو حاسد کی اپنی خوشیوں کو بھی کھا جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ دوسرے کی خوشی اور کامیابیوں سے خائف رہتا ہے۔ یہ عادت و علت اس کی اپنی بربادی کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے؛ تاہم لوگ اکثر دوسروں کی کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کو نقصان پہنچائیں۔
حسد‘ دشمنی اور لڑائی جھگڑے کے بہت سے عوامل ہوتے ہیں لیکن اب ایک نئی قسم بھی سامنے آگئی ہے جسے ڈیجیٹل حسد کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دشمنی یا لڑائی ہے جو سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی شخص اگر سوشل میڈیا پر مشہور ہو جاتا ہے‘ اس کے فالوورز میں اضافہ ہو جاتا ہے تو ساتھ ہی اس سے حسد کرنے والے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے‘ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا ایک لازمی جُز بن چکا ہے‘ ہر کوئی سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ پرانے زمانے میں خط لکھنا پڑھتے تھے‘ تار بھیجے جاتے تھے یا ٹیلی فون ہوتا تھا‘ اب تو ایک سطر کا ٹویٹ کرو‘ پوسٹ کرو اور پیغام لاکھوں لوگوں تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح ‘وی لاگ وڈیوز‘ بھی بہت وائرل ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا سے مواد وٹس ایپ پر آجاتا ہے۔ ٹویٹس، سٹیٹس، ریلز، شارٹس، سٹریکس، سٹوری، میمز، وائنز، وڈیوز، پوسٹرز، آڈیوز‘ یہ مختلف اقسام ہیں جن کی شکل میں اپنے پیغامات کو عام کیا جاتا ہے۔ تمام پیغامات اب پلک جھپکتے میں پوری دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ سالوں کی محنت کے بعد سوشل میڈیا پر مشہور ہو پاتے ہیں تو کچھ منٹوں میں وائرل ہوکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت عزت پاتے ہیں تو کچھ کے حصے میں محض منفی شہرت آتی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو جلنے والے‘ حسد کرنے والے دونوں کے لیے موجود ہوتے ہیں‘ چاہے وہ اچھا کام کررہے ہوں یا برا۔ اس قسم کے حسد کو ہی ہم ڈیجیٹل حسد کہتے ہیں کیونکہ یہ سوشل میڈیا کی مقبولیت کے سبب جنم لیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مقبولیت سے خائف ہوکر باقاعدہ منفی مہم شروع کردیتے ہیں۔ جھوٹی خبروں کوقصداً پھیلایا جاتا ہے اور اپنے مخالفین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ فالوورز کی تعداد کو لے کر بھی مقابلہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کے فالوورز زیادہ ہیں یا اس کو ری ٹویٹس‘ لائکس اور شیئر زیادہ مل رہے ہیں تو اس چیز سے خائف ہوکر بھی لوگ مقابلہ بازی شروع کردیتے ہیں۔ اس مقابلے بازی کے لیے اکثر جعلی فالوورز خریدے جاتے ہیں مگر یہ زیادہ پائیدار نہیں ہوتے کیونکہ جب متعلقہ ایپس اور فورمز کی طرف سے اس قسم کے جعلی اکائونٹس کو بند کیا جاتا ہے تو یکدم فالوونگ نیچے آ جاتی ہے۔ انسان کو ایسی چیزیں نہیں کرنی چاہئیں جو بعد میں ندامت کا باعث بنیں۔
اس وقت ہر طرح کا مواد سوشل میڈیا پر شیئر ہورہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک خاتون ٹک ٹاکرنے روتے ہوئے ایک وڈیو بنائی تھی کہ اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے حالانکہ اس کے شوہر حیات تھے۔ اس کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس وڈیو کے بدلے میں اس کو فالوورز اور شہرت بھی خوب ملی۔ اسی طرح ایک لڑکی نے اپنی ایک وڈیو اَپ لوڈ کی کہ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ پارٹی کررہی ہے۔ وہ وڈیو اتنی وائرل ہوئی کہ آج وہ خود ایک ٹی وی سٹار اور انسٹاگرام انفولینسر(Influencer) ہے۔ ایک غیر ملکی بچے ‘کوبی‘ جس کی عمر قریب آٹھ ماہ تھی‘ کو اس کی ماں نے کووڈ لاک ڈائون کے دوران شیف کے طور پر متعارف کرایا اور اس کی کھانا پکانے کی وڈیوز اَپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ آج وہ بچہ محض تین سال کا ہے اور ایک بڑا سٹار ہے۔ اس کو کوکنگ سپانسرز بھی ملتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں لوگوں کی قسمت کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ برسوں کام کرتے رہتے ہیں لیکن ان کو فیم نہیں ملتا جبکہ کچھ لوگ چند لمحوں میں وائرل ہو جاتے ہیں۔ مجھے سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں مگر اس سے میری زندگی پر شاید ہی کوئی اثر پڑتا ہو۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت آپ کو بہت اچھا لگتا ہے جب لوگ آپ کے کام کی تعریف کریں اور اس وقت برا بھی لگتا ہے جب لوگ آپ کی نجی زندگی میں دخل دینے لگیں یا آپ کے خلاف خواہ مخواہ کی کوئی منفی مہم یا ڈیجیٹل حسد اور دشمنی شروع کردیں۔ عموماً لوگ صحافیوں اور شوبز شخصیات میں فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ محلے دار شاید ایک دوسرے کو اتنا نہیں جانتے ہوں گے جتنا سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی پسند‘ ناپسند سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کو یہ بھی پتا ہوتا کہ کون کس کو فالو کررہا ہے اور کس نے کس کو بلاک کر رکھا ہے۔ اس کا فائدہ اکثر وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو کسی سے حسد کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ دیگر مخالفین کو ساتھ ملا کر اس شخصیت کے خلاف ٹرینڈ چلانا شروع کردیتے ہیں۔ سادہ لوح لوگ شروع میں ان چیزوں کو سچ مان لیتے ہیں لیکن بعد میں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حاسد زیادہ تر فیک اکائونٹس کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود پہچان میں آجاتے ہیں کیونکہ طرزِ تحریر اور مسائل ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ کچھ اتنے دیدہ دلیر ہوتے ہیں کہ اپنی اصل شناخت کے ساتھ ہی نفرت‘ جلن اور حسد کا اظہارکرتے رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا حسد اور دشمنی کیلئے نہیں بنایا گیا مگر جب ہمارے سیاستدان ایک دوسرے سے لڑتے ہیں‘ لفظی حملے کرتے ہیں تو ان کے فالوورز بھی لڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور سارا ماحول زہر آلود ہوجاتا ہے۔ لیڈران تو اپنے مفاد اور کرسی کیلئے مل کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کارکنان ایک دوسرے سے بات چیت مکمل ختم کر دیتے ہیں حتیٰ کہ غمی و خوشی کے مواقع پر بھی ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھتے۔ دوست ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں اور یوں سوشل میڈیا کی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انسان چلے جاتے ہیں لیکن ان کے الفاظ سوشل میڈیا پر موجود رہتے ہیں۔ کسی کو ایک پل کا بھی نہیں پتا کہ کب چلے جانا ہے‘ لہٰذا گناہوں اور نفرتوں کا بوجھ کیوں کندھے پر لیے پھریں؟ کسی کو کامیابی مل رہی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی ہوجانے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتے توڑ لینا‘ دشمنی پال لینا یا حسد کرنا کسی طور درست نہیں۔ کسی کی ناکامی پر اپنی کامیابی کی بنیاد مت رکھیں بلکہ اپنی کامیابیوں سے اپنی ناکامیوں کو ختم کریں۔ میں ہمیشہ دیگر لوگوں کو سپورٹ کرتی آئی ہوں۔ سوشل میڈیا پر کسی کو سپورٹ کرنے، کسی کا آرٹیکل یا نیوز رپورٹ شیئر کرنے سے میری تحریر‘ میری شہرت یا میرے رزق پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑے گا مگر نئے لکھنے والے کو شاید وہ ری ٹویٹس اور لائکس کچھ خوشی دے جائیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کی کامیابیوں کو سیلیبریٹ کریں‘ ایک دوسرے کے کام سے خوش ہوں‘ کسی کی مقبولیت اور فالوونگ سے خائف نہ ہوں۔
مجھے موجودہ سیاسی قیادت پر افسوس ہے کہ کیسے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ روز ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈز بنا رہے ہیں۔ روز ہم اخلاقیات کا جنازہ دیکھتے ہیں‘ ایک دوسرے پر بہتان تراشی‘ ذاتی حملے‘ گالی گلوچ‘ اسی وجہ سے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال اب کم کر رہے ہیں۔ وہ ٹویٹر‘ فیس بک کے بجائے دیگر فورمز مثلاً انسٹاگرام یا سنیپ چیٹ کا رخ کررہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان فورمز کا ماحول بہت زہریلا ہوگیاہے۔ لوگ مکالمے کے فورمز پر بھی کردار کشی اور گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔ میں نے ایسے کئی اکائونٹس دیکھے جنہیں بڑی سیاسی شخصیات فالو کررہی ہیں مگر وہ سارا دن بدزبانی کرتے رہتے ہیں اور ان کو داد بھی ملتی ہے۔ یہ کلچر ختم کرنا ہوگا۔ ہرپارٹی کو چاہیے کہ اپنی ٹرول بریگیڈ کو لگام ڈالے تاکہ سوشل میڈیا کا ماحول ٹھیک ہوسکے۔ اپنی اپنی ڈیجیٹل دشمنیوں اور لڑائیوں پر بریک لگائیں کیونکہ اس سے نئی نسل کا اخلاق خراب ہورہا ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)