تحریر: جاوید چودھری۔۔
مجھے تیسرے دن ان کا فون آیا‘ وہ شرمندہ تھے اور بار بار معذرت کر رہے تھے‘ میں نے عرض کیا‘ میں حیران تھا آپ نے کبھی رنگ بیک میں تاخیر نہیں کی‘ میں نے کال کی‘ آدھ گھنٹے میں آپ کا جواب آ گیا۔ہمارے تعلقات میں پہلی بار میں نے آپ کو آٹھ فون کیے اور آپ کا تین دن تک جواب نہیں آیا لہٰذا میں پریشان ہو گیا تھا‘ اللہ کرم کرے آپ خیریت سے ہوں‘ وہ ہنس کر بولے‘ میں آپ سے شرمندہ ہوں تاہم میں اللہ کے کرم سے ٹھیک ٹھاک ہوں‘ صحت مند بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کی پریشانی اور تکلیف سے بھی بچا رکھا ہے بس میں تین دن کے لیے ’’ڈیجیٹل فاسٹنگ‘‘ پر تھا۔
اس لیے آپ کو بروقت جواب نہیں دے سکا‘ ڈیجیٹل فاسٹنگ کا لفظ میرے لیے اجنبی تھا لہٰذا میں نے رک کر پوچھا ’’کیا مطلب‘ آپ نے رمضان میں کس قسم کے روزے رکھنا شروع کر دیے ہیں؟‘‘ وہ ہنسے اور پھر مطمئن آواز میں بولے’’ جاوید صاحب میں ہر پندرہ دن بعد تین دن کے لیے موبائل‘ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن بند کر دیتا ہوں‘ یہ میرا ڈیجیٹل فاسٹ ہوتا ہے۔میں ان دنوں میں ٹیلی فون کالز‘ ای میلز اور سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز کرتا ہوں‘ میں ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتا اور اخبار بھی نہیں پڑھتا‘‘ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی چناں چہ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سننا شروع کر دی‘ یہ بولے‘ میں ان تین دنوں میں صرف کتابیں پڑھتا ہوں‘ مارننگ واک کرتا ہوں۔
پہاڑوں میں چلا جاتا ہوں‘ سڑکوں اور پارکس میں گھومتا ہوں‘ سموسمہ چاٹ کھاتا ہوں‘ عام چائے خانوں میں بینچ پر بیٹھ کر دودھ پتی پیتا ہوں‘ پرندوں کو دانا ڈالتا ہوں‘ خرگوشوں کے ساتھ کھیلتا ہوں‘ صبح جلدی اٹھ کر سورج کو نکلتے اور شام کے وقت ڈوبتے دیکھتا ہوں‘ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتا ہوں‘ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو لیکچر دیتا ہوں۔اپنے پرانے کپڑے اور جوتے نکال کر تقسیم کرتا ہوں‘ بیگم کے ساتھ واک کرتا ہوں‘ اس کے ساتھ کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتا ہوں‘ چائے کافی پیتا ہوں‘ تصویروں کی نمائش پر جاتا ہوں‘ کتابوں کی دکانوں کا چکر لگاتا ہوں اور ناراض دوستوں کے گھر جا کر انھیں راضی کرتا ہوں‘ میں ان تین دنوں میں وہ سارے کام کرتا ہوں جو میں عام دنوں میں ڈیجیٹل وال کی وجہ سے نہیں کر پاتا۔
میں نے ہنس کر پوچھا ’’اور جناب یہ ڈیجیٹل وال کیا ہوتی ہے؟‘‘ وہ بھی ہنس پڑے اور بولے ’’ڈیجیٹل ورلڈ نے ہمارے اور فطرت کے درمیان اور ہم اور لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے‘ ہم اب گلہری کو بھی انسٹا گرام اور ٹویٹر پر دیکھتے ہیں‘ ہم دوستوں‘ رشتے داروں اور دشمنوں سے بھی فیس بک پر ملاقات کرتے ہیں۔
ہم اپنے چاہنے والوں سے بھی واٹس ایپ پر بات کرتے ہیں‘ اب تو انجینئر‘ ڈاکٹر‘ استاد اور قاری سے ملاقات بھی وڈیو کال پر ہوتی ہے اور ہم مولوی صاحب کا خطبہ بھی یوٹیوب لائیو پر سنتے ہیں۔یہ تمام گیجٹس اچھے اور مفید ہیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے لیے تباہ کن بھی ہیں‘کیوں؟ کیوں کہ یہ ہم اور زندگی کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ہیں اور اس دیوار کی وجہ سے ہم آج کے انسانوں کو فرسٹریشن بھی ہو رہی ہے‘ ٹینشن بھی اور اینگزائٹی بھی‘ ہم بلڈ پریشر‘ شوگر اور کینسر کے مریض بھی بن رہے ہیں۔
یہ درست ہے ہم آج کے دور میں ڈیجیٹل ورلڈ سے الگ نہیں ہو سکتے لیکن ہم کم از کم ایک آدھ دن کا ڈیجیٹل فاسٹ رکھ کر خود کو اصل زندگی سے کنیکٹ تو کر سکتے ہیں اور میں یہ کام پچھلے تین چار سالوں سے کر رہا ہوں۔
میں پندرہ دن بعد تین دن کا فاسٹ لے لیتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کواس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ یہ بولے ’’میری ٹینشن‘ ڈپریشن اور اینگزائٹی کا لیول فوراً نیچے آ جاتا ہے‘ میرا بلڈ پریشر اور شوگر بھی ٹھیک ہو جاتی ہے اور مجھے دکھائی اور سنائی بھی دینے لگتا ہے‘ مجھے اپنی بیوی‘ اپنے بچے اور پوتے پوتیاں بھی نظر آنے لگتے ہیں۔
مجھے کیاریاں اور کیاریوں کے پھول اور ان پر پھدکتی چڑیاں اور درختوں میں چھپی کوئل بھی دکھائی دینے لگتی ہے‘ میری ٹیسٹ بڈز بھی امپروو ہو جاتے ہیں اور میں گاجر اور مولی کا ذائقہ محسوس کرنے لگتا ہوں۔
مجھے کافی اور چائے بھی بدن میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور میں عام نارمل دنوں کے مقابلے میں زیادہ خوش بھی ہو جاتا ہوں اور میرے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو جاتے ہیں‘‘ ان کا کہنا تھا’’ چھ انچ کا موبائل فون ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ہم جوں ہی اسے ہاتھ میں پکڑتے ہیں ہماری زندگی‘ ہماری زندگی نہیں رہتی‘ یہ سوشل میڈیا‘ واٹس ایپ‘ کالز‘ ایس ایم ایس‘ ای میلز اور ٹینشن اور ڈپریشن سے بھری ہوئی آڈیوز اور وڈیوز کے رحم و کرم پر چلی جاتی ہے اور ہم اس کے بعد اندر سے فوت ہونے لگتے ہیں۔
لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی زندگی میں کوئی ایک دن موبائل اور ٹیلی ویژن کے بغیر رہ کر دیکھیں آپ کا زندگی کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو جائے گا‘ آپ کو چند لمحوں میں سامنے بیٹھے لوگ دکھائی اور سنائی دینے لگیں گے۔
آپ کو چند لمحوں میں ماں کے چہرے کی جھریاں دکھائی اور چھوٹے بچے یا بچی کے قہقہے سنائی دینے لگیں گے‘ آپ کو چہرے پر سکون اور دماغ میں ٹھنڈک محسوس ہو گی اور آخری بات ‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ’’ اور آخری بات آپ کا دن لمبا اور رات پرسکون ہو جائے گی‘ آپ یقین کرو ہمارا 60 فیصد دن سوشل میڈیا کھا جاتا ہے۔آپ جس دن اس کا روزہ رکھ لو گے اس دن آپ کا 60 فیصد دن آپ کو واپس مل جائے گا اور آپ اس دن وہ سارے کام نبٹا لو گے جن کے بارے میں آپ کو سوچنے کی فرصت نہیں ملتی تھی‘ ہم کیوں کہ بستر میں بھی موبائل فون لے کر لیٹتے ہیں چناں چہ ہماری نیند بھی ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔آپ جس دن موبائل کا روزہ رکھو گے اس دن نیند اور آپ کے درمیان سوشل میڈیا نہیں ہو گا‘ آپ اس رات اپنی نیند کی کوالٹی چیک کر لینا‘ آپ زیادہ دیر سوئیں گے اور صبح فریش اٹھیں گے۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو یہ گیدڑ سنگھی کہاں سے ملی؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں ڈپریشن اور انسومنیا کا مریض تھا‘ مجھے صرف تین چار گھنٹے نیند آتی تھی چناں چہ اگلے دن تھکا رہتا تھا‘ میری شوگر اور بلڈ پریشر بھی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔
میری ادویات بڑھتی جا رہی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا میری زندگی کا سفر تمام ہو چکا ہے لیکن پھر میں نے کسی فلائٹ میں آسٹریا کے ایک ویل نیس سینٹر کا اشتہار دیکھا‘ کمپنی کا دعویٰ تھا آپ ہمیں دس دن دے دیں ہم آپ کو آپ کا صحت مند جسم‘ روح اور دماغ واپس کر دیں گے‘ میں نے یہ ٹرائی کرنے کا فیصلہ کیا اور میں سالس برگ پہنچ گیا۔
وہ سینٹر پہاڑوں کے درمیان دریا کے کنارے تھا اور بہت ہی خوب صورت تھا‘ میں جوں ہی وہاں پہنچا‘ انتظامیہ نے مجھ سے میرا فون لے لیا‘ ان کا کہنا تھا آپ کا فون اب آپ کو واپسی کے ٹائم ملے گا اور مجھے اس کے بعد ایک ایسی ڈار میٹری میں بھجوا دیا گیا جس میں ہم چار لوگ رہ رہے تھے‘ ہمیں واش روم کے لیے بھی برآمدے کی دوسری سائیڈ پر کامن ٹوائلٹ میں جانا پڑتا تھا‘ میں یہ سسٹم دیکھ کر بہت مایوس ہوا لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے۔
میں دو دن بعد مکمل طور پر مختلف انسان تھا‘ میری روم میٹس کے ساتھ گہری دوستی ہو گئی‘ میں دریا کے کنارے واک بھی کرنے لگا اور مجھے سینٹر کا پھیکا کھانا بھی اچھا لگنے لگااور یوں میں سات دن بعد واقعی تبدیل ہو گیا‘ میں یوگا سیکھ چکا تھا۔
میں رات کا کھانا سات بجے کھا لیتا تھا اور ٹھیک آٹھ بجے سو جاتا تھا اور صبح پانچ بجے اٹھ کر دوسروں کے ساتھ جاگنگ بھی کرتا تھا اور اسٹریچنگ بھی‘ میں دوسروں کے ساتھ گپ بھی لگاتا تھا اور قہقہے بھی اور آپ یقین کریں میں نے مدت بعد اپنے قہقہوں کی آواز سنی تھی‘ ہمارا کورس مکمل ہوا تو ہمارے مینٹور نے بتایا‘ آپ کی زندگی میں دو کمیاں اور دو زیادتیاں تھیں‘ ہم نے یہ دونوں نکال دیں اور آپ لوگ نارمل ہو گئے۔
دو کمیاں‘ لوگوں سے رابطہ اور قہقہے تھے‘ یہ یاد رکھیں انسان جب تک انسان سے نہیں ملتا یہ خوش نہیں ہو سکتا اور آپ انسانوں سے دور ہو گئے تھے‘ دوسرا ہماری خوشی کا قہقہے کے ساتھ گہرا تعلق ہے‘ آپ جوں ہی ہنستے جائیں گے آپ خوش ہوتے چلے جائیں گے‘ ہم نے آپ کے قہقہے واپس کر دیے اور یوں آپ لوگ فریش ہو گئے اور آپ کی زندگی کی دو زیادتیاں کھانا اور موبائل فون تھیں‘ آپ کھاتے بھی زیادہ تھے اور موبائل بھی زیادہ استعمال کرتے تھے۔ہم نے یہ دونوں چیزیں کم کر دیں اور یوں آپ بدل گئے لہٰذا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ میں ڈیجیٹل فاسٹنگ بھی کرتا ہوں‘ جسمانی روزے بھی رکھتا ہوں‘ نئے لوگوں سے بھی ملتا ہوں اور ہنسنے اور قہقہے لگانے کا کوئی موقع بھی ضایع نہیں کرتا‘ آپ بھی جسمانی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل فاسٹنگ کیا کرو‘ آپ کا ٹینشن لیول بھی نیچے آ جائے گا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔