تحریر: محمود شام۔۔
قرار داد پاکستان کو بھی 81سال ہورہے ہیں اور مجھے بھی مگر میں اپنی آئندہ نسل کو ان اسٹالوں پر دیکھ رہا ہوں جو النسا کلب میں تنظیم فلاح خواتین کی طرف سے بزرگ دردمند پاکستانی بیگم قمر النسا قمر کی سربراہی میں لگائے گئے ہیں۔ یوم پاکستان کی خوشی میں متوسط طبقے اور غریب گھروں کی مائوں بیٹیوں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سلائی کڑھائی، کھانوں کی پیشکش سے کچھ کمائیں۔ ایسے بازار تو اکثر لگتے ہیں مگر خاص بات اب یہ ہے کہ بظاہر سگھڑ اور سادہ نظر آنے والی یہ پاکستانی بہنیں اب فیس بک پر، واٹس گروپ سے اپنے ہُنر کو فروغ دے رہی ہیں۔ پاکستان کا نچلا طبقہ آن لائن کاروبار کر کےخوشحال ہورہا ہے۔اس میں سرکار کا کوئی کمال ہے نہ سیاسی پارٹیوں کا۔
ہماری اشرافیہ جو آبادی کا 1½فی صد ہوگی۔ وہ 98½فی صد پر غلبہ پائے ہوئے ہے۔ لیکن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ان طبقاتی زنجیروں کو توڑ رہی ہے۔ ہمارا ملک اگر چہ آدھا ابھی قبائلی طور طریقوں کے حصار میں ہے۔ آدھے سے زیادہ مذہبی اور فرقہ واریت کی پکڑ میں۔ لیکن واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر، یوٹیوب ان صدیوں قدیم روایتی جکڑ بندیوں کو توڑنے کا آغاز کرچکے ہیں۔ معاشرے کے ناخدا اور طبقاتی دیوتا کوشش کررہے ہیں کہ اس آن لائن انقلاب کو روک سکیں۔ اس کے لیے مذہب کا جواز بھی تلاش کیا جارہا ہے۔ اخلاقیات کا واویلا بھی ۔ سیکورٹی کی پکار بھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ذہنی طور پر اس آن لائن انقلاب کے لیے تیار ہیں؟غریب کا اصل مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے۔ امیر کا معاملہ مزید لاکھوں کروڑوں کمانے کا۔ دونوں میں یہ آن لائن ٹیکنالوجی کام آرہی ہے جس طرح پاکستان میں 1964میں پاکستان ٹیلی وژن بھی وقت سے پہلے آگیا تھا۔ پھر 2002 میں پرائیویٹ ٹی وی چینل بھی ہماری دوسری بنیادی ضروریات سے پہلے آئے۔ ٹیکنالوجی کے صحیح اور منصفانہ استعمال کے لیے کسی معاشرے میں سائنس سے بھرپور آشنائی ضروری ہے۔ سائنس کی تعلیم اور تدریس پر تو بزنس کی تعلیم سبقت لے گئی۔ سائنس بہت پیچھے 60اور 70کی دہائی میں ہی بھٹک رہی ہے۔
ہمارے ہمدم ڈاکٹر سید جعفر احمد نے استادوں کے استاد خواجہ مسعود کی یاد دلائی۔ وہ برسوں پہلے کہہ گئے کہ سائنس ٹیکنالوجی سے پہلے ہونی چاہئے۔ اگر کوئی سائنس پہ اچھی دسترس رکھتا ہے، وہ ٹیکنالوجی میں بھی اچھا ہوسکتا ہے۔ سائنس درخت ہے، ٹیکنالوجی اس کا پھل۔پاکستان میں درخت نہیں لگائے گئے۔ پھل باہر سے منگوائے جارہے ہیں۔ اور ہم انہیں برضا و رغبت کھا بھی رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر دنیا کو نگل رہی ہے۔ سائنس کے بغیر ٹیکنالوجی استعمال ہو تو ٹیکنالوجی انسان کو استعمال کرنے لگتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں یہی خطرناک موڑ ہوتا ہے۔ پاکستانی سماج اس وقت مینوئیل اور آٹو کی کشمکش میں معلق ہے۔ ہمارے بچےاور نوجوان اپنے طور پر اس سرپٹ دوڑتی ٹیکنالوجی کی لگامیں تھامنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے ماں باپ ان کے بزرگ اس کوشش میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بڑی بڑی صنعتی کمپنیوں کی جگہ ڈیجیٹل ٹیکنیکل کمپنیاں زیادہ کمارہی ہیں۔ ٹیکنالوجی سرحدوں۔ ضابطوں۔ قوانین کی پابند نہیں ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ریاستی۔ قبائلی۔ سیاسی دیوتا دم توڑ رہے ہیں۔ تکنیکی دیوتا ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ کورونا کے دنوں میں جب سارے بزنس ٹھپ ہورہے تھے۔ آن لائن کمپنیوں نے اربوں ڈالر کمائے۔
ریاستیں۔ فوجیں پہلے سوشل میڈیا سے خائف ہوئیں۔ ان کا راستہ روکنے کے طریقے ڈھونڈتی رہیں اب وہ خود بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئی ہیں۔ سوشل میڈیا بریگیڈ بنائے جارہے ہیں۔ اس مقابلے میں ایک سچ کو دوسرے سچ سے بدلنے کی کوشش نہیں بلکہ سچ کا اثر ہی زائل کیا جارہا ہے۔ وہ سچ کا تصوّر ہی مٹا دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے کئی یو ٹیوب چینل، ویب سائٹ روزانہ لاکھوں کمارہی ہیں جن کی سرخیوں میں جو شور مچایا جاتا ہے، وہ متن میں نہیں ہوتا۔ایک اور رجحان جس سے صنعتی مالکان خوف زدہ ہیں کہ اب اس نئے ٹیکنو اسٹرکچر میں ایڈمنسٹریٹر ماہرین اور ٹیکنیشین، کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز سے زیادہ موثر ہورہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا نے طاقت کے پرانے سر چشموں، سیاست،میڈیا، پارلیمنٹ کو بے اثر کردیا ہے۔ اب حساس فیصلے ووٹرز کی طاقت کے محتاج نہیں رہے ہیں۔مستقبل میں ہماری زندگیوں کے اہم فیصلے اسمبلیوں اور عدالتوں میں نہیں ہوں گے۔ اب آمدنی اور رسوخ فیصلے نہ کرنے میں ہے۔ ڈیجیٹل کمپنیوں کے سیمینار یا اعلامیے جاری نہیں ہوتے فیصلہ نہ کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس ہورہے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں جرم کرنے والے حدود سے باہر بیٹھے ہیں۔ نئی اصطلاحات جنم لے رہی ہیںلیکن ان خدشات اور خطرات کے ساتھ ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ ڈیجیٹل معاشرہ بے نوائوں، ناداروں کو بھی طاقت دے رہا ہے۔ استونیا ایک چھوٹا غریب ملک مثال بن گیا ہے۔ اس نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے اپنی غربت پسماندگی دور کرلی ہے۔ پاکستان میں بھی کئی ہنر مند با شعور نوجوان اپنے گائوں میں بیٹھے آن لائن لاکھوں کمارہے ہیں۔ اچھا ذہن، نیک نیت بد حالی کو خوشحالی میں بدل سکتی ہے۔ ہمیں آن لائن سماج میں داخل تو ہونا ہے۔ یہ آنے والا وقت کا تقاضا ہے۔ اب اقتصادی جنگیں اسمارٹ فون پر لڑی جائیں گی۔ اخلاقیات کی پامالی اور اخلاق کی بر قراری کی جدو جہد بھی اسکرین پر ہی ہوگی۔
وقت آگیا ہے کہ صدیوں سے پامال ہوتے طبقے اپنی اولادوں کو آن لائن سماج کے لیے تیار کریں۔ سائنس کی بنیادی تعلیم کے ساتھ اگر وہ ڈیجیٹل راستہ اختیار کریں گے تو خوشحالی ان کی منتظر ہوگی۔ دیانتداری، ایمانداری، خلوص سافٹ ویئر کو بھی طاقت بناسکتا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا روز بدلتی ہے۔ روز نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ آگے بڑھئے، سائنس کے درخت لگائیں۔ ان پر ٹیکنالوجی کا بور آئے گا۔ پھر آپ کی جھولی میں اس کے پھل بھی گریں گے۔(بشکریہ جنگ)