تحریر: انور ساجدی۔۔
جن لوگوں نے1990 کی دہائی میں اخبارات کا اجراءکیا وہ پس دیوار دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ورنہ وہ کچھ وقت اور انتظار کرتے اور ڈیجیٹل انقلاب کے دور میں داخل ہوتے۔پاکستان تو ایک بہت ہی پسماندہ ملک ہے۔اس لئے اس کے میڈیا مالکان تو آنے والے وقت کے ادراک سے عاری تھے لیکن دنیا کے بڑے ممالک بھی بے خبر تھے کہ اسٹیو جابز کیا کرنے جا رہے ہیں۔اگرچہ موبائل فون تو ایجاد ہو چکا تھا لیکن یہ اسمارٹ فون نہیں تھا۔آپ صرف کال کرسکتے تھے اور سن سکتے تھے۔شروع میں پیغامات بھی بھیجے نہیں جا سکتے تھے۔ ارکسن موجد تھا لیکن نوکیا نے مارکیٹ پر قبضہ کرلیا۔اس کے منتظمین بھی نہیں جانتے تھے کہ اور کیا ہونے والا ہے۔اس لئے ایپل کے مالکان نے اسمارٹ آئی فون ایجاد کرلیا۔اسٹیو جابز نے اعلان کیا کہ ان کے اسمارٹ فون کی وجہ سے کیمرہ،ریڈیو، پوسٹ آفس، لینڈ لائن فون، ٹیپ ریکارڈ، وی سی آر وغیرہ ختم ہو جائیں گے۔بہت جلد ایسا ہی ہوا۔نئی کمپنیاں سامنے آ گئیں۔واٹس اپ، فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام اور ٹوئٹر کے سرچ انجن دریافت ہوئے جنہوں نے ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ پوری دنیا بدل گئی۔کاروبار کی نوعیت تبدیل ہوگئی۔ایمازون اور علی بابا نے دنیا کے ایک بڑے حصے کے کاروبار کو ایک بٹن کے تابع کر دیا۔اس تبدیلی کے باوجود نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ لکیر کے فقیر بنے رہے۔پاکستان جیسے ممالک کی تو خیر تھی خبروں کا ذریعہ سوشل میڈیا بننے لگا یہ پلیٹ فارم اپنے خیالات کا اظہار کا بھی مناسب اور تیز رفتار ذریعہ تھا چنانچہ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پرنٹ میڈیا کی جگہ لے لی۔ہندوستان واحد ملک تھا جو بچا رہا کیونکہ اس کے لاکھوں لوگ آئی ٹی کے شعبہ میں آگے بڑھ رہے تھے اور انہیں معلومات کے لئے مستند معلومات کی ضرورت تھی جو صرف اخبار کے ذریعے ہی مل سکتی تھی۔دوسری بات یہ کہ انڈیا تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگا۔دنیا بھر کے سرمایہ کار وہاں آنے لگے۔اس لئے انہوں نے الیکٹرانک کے ساتھ پرنٹ میڈیا کو بھی اشتہارات کا اجراءکیا۔دنیا کے سب سے بڑے اخبار نیویارک ٹائمز نے خود کو تبدیلیوں کے سانچے میں ڈھال لیا اور اس نے خبروں کے بجائے ان کے پس منظر اور تجزیاتی رپورٹوں کی اشاعت شروع کر دی۔جب یہ سلسلہ قبول ہوا تو اس نے اس کا رسپانس دیکھنے کے لئے خریداری کی شرط لگا دی چنانچہ وہ مالی بحرانوں سے باہر نکل آیا لیکن واشنگٹن پوسٹ ایسا نہ کرسکا۔اس لئے وہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوا حالانکہ واشنگٹن پوسٹ وہ اخبار تھا جس نے واٹر گیٹ اسکینڈل کا اسکوپ مارا تھا جس کی وجہ سے اسے بے شمار شہرت اور بزنس ملا تھا۔گزشتہ سال امریکہ کی سب سے بڑی کمپنی نے ترس کھا کر واشنگٹن پوسٹ کو خریدا اور کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ یہ تاریخی روزنامہ بند نہ ہو۔دوسری جانب روس، چین اور شمالی کوریا میں سرکاری پرنٹ میڈیا کو اس لئے زندہ رکھا گیا کہ وہاں پر امریکی سوشل میڈیا پر پابندی ہے۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس کا پرنٹ میڈیا سب سے زیادہ متاثر ہے۔برسوں پہلے یعنی ن لیگ کی تیسری حکومت کے دور میں ایسے آثار نظر آنے لگے تھے کہ بعض اہم ادارے پرنٹ میڈیا کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ گنتی کے چند ایسے اخبارات کو زندہ رکھا جائے جو ہر حاکم وقت کی ہاں میں ہاں ملائے اور اپنے صفحات پر تنقید کا حصہ ہی نکال دے یہ جو آج کا پیکا قانون ہے اس کا ابتدائی ڈرافٹ اس وقت تیار ہوا تھا۔عمران خان نے حکومت میں آ کر سوشل میڈیا کے ہزاروں جنگجو تیار کئے اور پرنٹ میڈیا کے حصے کا فنڈ انہیں منتقل کر دیا۔ان کے آخری دور میں پیکا آرڈیننس نافذ ہوگیا جبکہ شہبازشریف کی موجودہ حکومت کے دور میں اس قانون کے تحت سرسری سماعت کی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ ن لیگ کی پنجاب حکومت نے ہتک عزت کے نام سے ایک سخت گیر قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت الزام لگنے کے بعد ملزمان یعنی اخباری مالکان اور رپورٹرز کو کم ازکم80 لاکھ روپے جرمانہ پیشگی جمع کرنا ہوگا موجودہ حکومت کے ان اقدامات کا مقصد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے کی بورڈ وارئیرز کو روکنا ہے جنہیں ڈیجیٹل دہشت گرد کا نام دے دیا گیا ہے۔مستقبل قریب میں درجنوں سینکڑوں حتیٰ کہ ہزاروں سوشل میڈیا جنگجو پکڑے جائیں گے اور بڑی بڑی سزائیں بھگتیں گے۔ان قوانین کا اطلاق پرنٹ میڈیا پر بھی ہوگا جو اس وقت میڈیا کا کمزور حصہ ہے اور جسے دبانا بہت آسان ہے۔
حکومت کا رویہ انتہائی دوغلا ہے۔مثال کے طور پر ٹی وی چینلز پر روز سیاسی رہنماؤں کو بلا کر بٹھایا جاتا ہے کبھی کبھار ان کے منہ سے انہونی بات بھی نکل جاتی ہے لیکن حکومت درگزر سے کام لیتی ہے۔اس کے مقابلے میں اگر پرنٹ میڈیا پر کوئی مخالفانہ خبر آئے تو دیرینہ اور آزمودہ ہتھیار استعمال میں آ جاتا ہے پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں پرنٹ میڈیا کا بیشتر حصہ سرکاری اشتہارات پر زندہ ہے اگر حکومت اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کرے تو ان اخبارات کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ نوازشریف کے دوسرے اور عمران خان کے پہلے دور میں جنگ اور جیو کے خلاف انتہائی سخت کارروائیاں کی گئیں تھیں نوازشریف نے تو جنگ کے اکاؤنٹس بھی منجمد کر دئیے تھے کوئی دو سال قبل ایکسپریس گروپ نے اپنا چینل اور اخبارات ملک ریاض کو فروخت کئے تھے لیکن حکومت نے اس سودے کی منظوری نہیں دی۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو جیسے یہ دیگر معاملات میں بہت پیچھے ہے اس کا پرنٹ میڈیا بھی شدید بدحالی کا شکار ہے۔1988 میں جب نواب صاحب وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت اشتہارات کا بجٹ صرف 50 لاکھ روپے تھا محکمہ اطلاعات عامہ کے ڈائریکٹر نے فنڈز میں اضافہ کی سمری میرے حوالے کی کہ میں نواب صاحب سے اس کی منظوری حاصل کرلوں۔ڈائریکٹر کو نواب صاحب کے پاس جانے کی جرات نہیں تھی۔ لہذا میں نے فائل نواب صاحب کو دیدی۔انہوں نے مرحوم عزیز بگٹی کو بلا کر کہا کہ یہ رقم دوگنی کر دی جائے۔بعد ازاں ایک اور ڈائریکٹر نے فنڈز میں اضافہ کی فائل میرے حوالے کی کیونکہ اخبارات کی تعداد بڑھ گئی تھی اس وقت میر تاج محمد جمالی وزیراعلیٰ تھے۔انہوں نے فنڈز دو کروڑ کر دئیے۔کافی سال بعد جب جام یوسف وزیراعلیٰ تھے تو ہم لوگو ںنے فنڈز کو 12کروڑ تک پہنچایا لیکن یہ رقم ناکافی تھی کیونکہ محکمہ کے افسران نے بھی رشتہ داروں کے نام سے اخبارات کا اجراءکیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب ڈمی اخبارات کا ڈیکلیئریشن نسبتاً ایک اچھا کاروبار بن چکا تھا اور باقاعدہ ٹھیکہ داری کا سسٹم شروع ہو چکا تھا۔یعنی اخبارمیرا کسی اور نے اسے ٹھیکہ پر لے کر چلایا اور ملی بھگت سے اچھا خاصا منافع کمایا۔ہوتے ہوتے یہ فنڈ36کروڑ تک پہنچے۔میر عبدالقدوس بزنجو نے ہماری درخواست پر رقم بڑھانے کا وعدہ کیا لیکن اضافہ موجودہ بجٹ میں وقوع پذیر ہوا۔یہ اضافہ تو40فیصد ہے لیکن اخبارات کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور ٹھیکہ داری سسٹم بھی مضبوط ہو چکا ہے۔گزشتہ ادوار میں کمیشن کا رواج نہیں تھا لیکن اب حالات کجچھ مشکوک سے لگتے ہیں۔مثال کے طورپر محکمہ تعلقات عامہ کی پالیسی ہے کہ
بڑا اخبار اسے تسلیم کیا جائے گا جس کا مالک غیر بلوچستانی ہو پھر جن اخبارات کے زیادہ ایڈیشن چھپتے ہیں انہیں کمبائنڈ اشتہارات جاری کئے جاتے ہیں۔بھلا واشک،موسیٰ خیل اور آواران میں پانی یا نالیوں کے منصوبے کے اشتہارات کے فیصل آباد ملتان اور راولپنڈی میں شائع کروانے کا کیا تک ہے۔یہ بہت ہی پراسرار منطق ہے حالانکہ باقی تین صوبوں نے آج تک اپنا کوئی بھی اشتہار کسی لوکل بلوچستانی اخبارات کو جاری نہیں کیا۔سوال یہ ہے کہ بلوچستان کوئی ڈمی صوبہ ہے جس کے ترقیاتی منصوبوں کے اشتہارات دیگر صوبوں کے اخبارات کی زینت بنیں چونکہ بلوچستان کے پرنٹ میڈیا کا سارا دارومدار سرکاری اشتہار پر ہے اس لئے وہ شدید طور پر بلیک میل ہوتے ہیں اور ایسا تابع فرمان میڈیا کہیں اورپایا نہیں جاتا۔
گزشتہ36 برسو ںمیں روزنامہ انتخاب کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک ہوا ہے۔کئی حکومتوں نے اس کے اشتہارات بند کئے تاکہ اس کی غیر جانبدار پالیسی کا گلا گھونٹا جا سکے اب جبکہ ای پیپر اور ڈیجیٹل صحافت کا زور ہے تو بھی اس کے ساتھ ناروا سلوک برقرار ہے بلکہ بڑھ گیا ہے انتخاب آن لائن کا بلوچستان کے کسی بھی ڈیجیٹل میڈیا سے کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن حکومت اندھی گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔حالیہ بندش کے بعد مجھے خیال آیا کہ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ سرکاری اشتہارات کی محتاجی ختم ہو جائے یعنی حکومت اپنی پبلسٹی نہ کرائے اور ہمیں آزاد چھوڑ دے تاکہ عوام کو ایسی خبریں مہیا کی جائیں جو اشتہارات کی مجبوری کی وجہ سے ان تک پہنچ نہیں پاتیں۔بلوچستان کے کسی اخبار نے آج تک یہ جرات نہیں کی کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے بعد جاری ہونے والے کھربوں کے فنڈز کے ضیاع کے بارے میں کوئی خبر جاری کرے یا بیورو کریسی اور نام نہاد سیاسی حکومتوں کے کرتا دھرتا جو کر رہے ہیں ان کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔اگرچہ موجودہ ماحول میں آزادی اظہار کو بے باکی کے ساتھ سامنے لانا ایک مشکل کام ہے بے شک حکومت اشتہار نہ دے اس کے باوجود وہ صحیح خبروں کی اشاعت کو برداشت نہیں سکتی پھر بھی کوشش کی جا سکتی ہے لہٰذا ایسے باصلاحیت لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی تجاویز بھیجیں کہ انتخاب اور اس کے ای پیپر کو کس طرح اس درجہ پہنچایا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ سرکاری اشتہارات کے بغیر قائم رہے۔اگر ای پیپر کی خریداری رائج کی جائے تو لوگ کس حد تک تعاون کریں گے کیونکہ اشتہارات کا محکمہ ایک دلدل بن چکا ہے اس میں کودنا خود کو آلودہ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔صوبائی محکمہ تعلقات عامہ بیڈ گورننس کا اعلیٰ نمونہ ہے حالانکہ یہ چھوٹا سا محکمہ ہے جس کے فنڈز اتنے زیادہ نہیں لیکن بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ حالیہ کوارٹرز بجٹ ریلیز ہونے کے ایک ہفتہ کے اندر ختم ہوگیا اس کی وجہ یہ ہے کہ دو تین دن میں10 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ حالانکہ اس محکمہ کے وزیرخود وزیراعلیٰ ہیں۔انہیں اس چھوٹے سے محکمہ کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں یہ چھوٹا محکمہ ضرور ہے لیکن عوام کے اندر حکومت کا امیج بنانے کا موثر ذریعہ یہی ہے۔کافی عرصہ سے یہ پبلسٹی کے بجائے صرف ٹینڈر نوٹس جاری کرنے کی ایجنسی بن گیا ہے اور بس کسی کو ضرورت نہیں کہ وہ اس کی طرف دیکھے اور اس میں اصلاح کی کوشش کرے۔(انورساجدی)۔۔