تحریر: مظہر جلالی۔۔
کراچی، جو کہ پاکستان کا معاشی اور ثقافتی مرکز ہے، اس وقت مختلف اقسام کے جرائم کی آندھی میں گھرا ہوا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم بھی شہر میں خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے، جس نے نہ صرف عام شہریوں بلکہ صحافیوں کو بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ یہ عدم تحفظ صارفین کے حقوق کی پامالی، معاشی نقصان، اور انسانی تحفظ کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
سائبر کرائم کے واقعات کی متعدد اقسام وقوع پذیر ہو رہی ہیں جن میں سے ایک انتہائی عام شکل ڈمی کالز کی ہے۔ موبائل فون کے ذریعے کی جانے والی یہ کالز شہریوں کو حراساں کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ ہنرمند ملزمان فراڈ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے لوگوں کی ذاتی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں متاثرہ افراد کی زندگیوں میں شدید مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح، سوشل میڈیا پر فیک پوسٹس کا ایک نیٹ ورک بھی کام کر رہا ہے، جس میں ملزمان “ڈیجیٹل بھکاری” بن کر لوگوں کو جھوٹی کہانیوں کے ذریعے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ گینگ عقلی طور پر بکھیرا ہوا جھوٹ اور جذباتی مواد استعمال کر کے سادہ لوح عوام کو متاثر کرتا ہے۔ ان فیک پوسٹس کے ذریعے لوگ اپنی مدد کرنے کی عادت اور نیک نیتی کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں، اور انہیں بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
بینکنگ چینلز کے ذریعے ہونے والے فراڈ بھی عام اور ایک اہم مسئلہ ہیں، جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی آسانی سے سرانجام دیئے جاتے ہیں۔ ہیکنگ، فشنگ، اور کلوننگ جیسی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے ملزمان بینک اکاؤنٹس میں سادہ سی کوتاہیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مزید برآں، شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے، جہاں ملزمان عارضی طور پر افراد کو اغواء کرتے ہیں اور ان کے خاندانوں سے بھاری رقم طلب کرتے ہیں جس کی حالیہ مثال ایک کرپٹو کرنسی کے کا کام کرنے والے مغوی کو CTD اہلکاروں کے زریعے لوٹنے کی ہے۔ یہ سب کچھ شہر کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے، اور شہریوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
ان تمام عوامل میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا کردار
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ، جو کہ سائبر جرائم کے سدباب کے لیے قائم کیا گیا ہے، اس عمل میں غیر فعال دکھائی دیتا ہے۔ شکایات کے باوجود، عملدرآمد میں تاخیر اور متاثرہ افراد کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایف آئی اے ان کرائمز کا سدباب کرنے میں ناکام ہے۔ کئی ایک شکایات تقریباً ایک سال سے زیر التواء ہیں جن پر ایکشن ندارد۔ جبکہ صحافیوں کی شکایات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، جس کو دیکھتے ہوئے اس ضمن میں عام شہریوں کا کیا حال ہوگا یہ سوچنا بھی مشکل نہیں ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر، یہ کہنا بجا ہوگا کہ آنے والا وقت سائبر کرائمز کے عصری عروج کا منظر پیش کر سکتا ہے۔ حکومت وقانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں، تاکہ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
کراچی میں سائبر کرائم کا بڑھتا ہوا رجحان محض ایک قانونی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ عوام کی زندگیوں میں عدم تحفظ، خوف، اور عدم اعتماد کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے تدارک کے لیے مربوط اور مستقل کوششوں کی ضرورت ہے، تاکہ شہر کے شہری اپنے ہنر اور کاروبار کو بلا خوف وخطر جاری رکھ سکیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ نہ صرف کرمنلز کی روک تھام کر سکے بلکہ متاثرین کی امیدوں پر پورا اتر سکے۔
سائبر کرائم کی سزا کے بغیر چھپے ہوئے اس عفریت کے سامنے، معاشرے کے ہر ایک فرد کا کردار ناگزیر ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگرچہ حکومت اور ڈیجیٹل پلٹ فارم کے منتظمین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرانا ضروری ہے، مگر ہر شہری کو بھی اپنی سیکیورٹی کے بارے میں باخبر ہونا چاہیے۔ مثلاً، محفوظ پاس ورڈز کا استعمال، سوشل میڈیا پر ذاتی معلومات کا محتاط اشتراک، اور آن لائن ٹرانزیکشنز میں احتیاط برتنا بنیادی احتیاطی تدابیر ہیں۔ اس صورت میں، ہر فرد نہ صرف اپنی حفاظت کر سکتا ہے بلکہ اپنے اردگرد موجود خطرات کے بارے میں دوسروں کو بھی آگاہ کر سکتا ہے۔ یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے جو صرف حکومت یا اداروں پر نہیں بلکہ ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو اجتماعی طور پر حل کرنے کی کوشش کریں، تو نہ صرف ہم اپنے اور اپنے پیاروں کی حفاظت کر سکتے ہیں، بلکہ معاشرے میں سائبر بے راہ روی کا بھی مؤثر سدباب کر سکتے ہیں۔
اس مضمون میں پیش کردہ حقائق اور استدلال ہماری سماجی ذمہ داری کا حصہ ہیں کہ ہم اس مسئلے کی شدت کو سمجھیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اس سے آگاہ کریں، تاکہ ہم ایک محفوظ اور مستحکم معاشرہ تشکیل دے سکیں۔(مظہرجلالی)۔۔