تحریر: خرم علی عمران
مطالعہ ایک بہتریں عادت ہے۔کتاب کی فضیلت پر بے شمار اکابرین کے بہت سے اقوال پیش کئے جاسکتے ہیں ہیں جیسے کتاب بہترین دوست ہے یا کتابیں پڑھنے والا ایک زندگی میں کئی زندگیاں جی لیتا ہے۔ کتاب گھر بیٹھے آپ کو نت نئی دنیاؤں کی سیر کراتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن کتاب تو وہ پڑھے گا نہ جسے مطالعے سے شغف اور شوق ہوگا۔ اور اب تو زمانہ ہی انٹر نیٹ اور میڈیا کے جلووں کا آگیا ہے جسکی وجہ سے اب کتاب اور مطالعے سے قاری کا رشتہ اور بھی کمزور ہوگیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قریب المرگ ہوگیا ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا ۔ لیکن اس الیکٹرانک دور جنوں میں بھی اگر مطالعے سے ہم کچھ پرانے پرانے سے لوگوں کا اور نئی پود کا کچھ واسطہ یا تعلق اگر باقی ہے تو کتنی عجیب بات ہے کہ ان کی وجہ سے باقی ہے جنہیں کبھی ادب میں شمار ہی نہیں کیا گیا۔ میری مراد ڈائجسٹ اور ناولز سے ہے۔ہم میں سے یعنی ہمارے ایج گروپ کے لوگوں اور ان سے قدرے پہلے اور ذرا بعد کے لوگوں میں سے کون ہے جس نے ابن صفی۔ اشتیاق احمد ،مظہر کلیم کے ناولز نہ پڑھے ہوں اور ڈائجسٹوں کی ورق گردانی نہ کی ہو۔ موجودہ انٹرنیٹ نسل میں اب یہ رجحان البتہ بہت کم ہوگیا ہے لیکن جتنا بھی باقی ہے وہ ٹھیٹھ ادبی رسائل و جرائد کی وجہ سے نہیں بلکہ اسی قسم کے پاپولر فکشن کی وجہ سے ہے۔ لیکن انٹرنیٹ اورتفریحی چینلز کے پاکستان میں ظہور پذیر ہونے سے پہلے یہ مطالعے کا مشغلہ بہت رواج میں ہوا کرتا تھا۔
جگہ جگہ ،محلہ محلہ ،شہر شہر چھوٹی بڑی لائیبریریز ہوا کرتی تھیں اور کرائے پر ناولز لے کر پڑھے جاتے تھے۔ عمران سیریز کی خاص طور پر دھوم مچی ہوئی تھی ۔جو اب بھی ہے لیکن قدرے کم ہے۔ابن صفی مرحوم نے جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کی شکل میں ایسا طلسمی دروازہ برائے قصہ جات کھولا تھا جس نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ کرنل فریدی کیپٹن حمید، قاسم انور رشیدہ جاسوسی دنیا کے معروف کردار تھے تو اسی طرح علی عمران، سوپر فیاض، صفدر ،جولیا تنویر، طاہر یعنی ایکس ٹو اور بہت سے یادگار کردار عمران سیریز کے تھے۔ ابن صفی کے سب ہی کردار بڑے یادگار تھے حتی کہ ان کے ناولوں کے منفی کردار یعنی ولنز بھی لوگوں کو بہت پسند آتے تھے جیسے تھریسیا اور سنگ ہی وغیرہ۔ ان کرداروں کی بے پناہ مقبولیت نے بہت سے نقال مصنفین بھی پیدا کر دیئے تھے جو ان کرداروں پر ناول لکھ کر پیسے کمایا کرتے تھے اور چند ان میں سے بعد میں بہت مشہور و معروف بھی ہوئے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک دفعہ معروف امریکن جاسوسی ناول نگار اگاتھا کرسٹی کسی ٹرانزٹ پر کچھ دیر کے لئے کراچی ائیر پورٹ پر رکی تھیں تو مختصر سوال جواب کا سیشن ہوا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ میں ایشیا میں صرف ایک جاسوسی ناول نگار کو جانتی ہوں اور وہ ابن صفی ہے ۔ اسی طرح انڈو پاک میں چند اور بھی سری ادب لکھنے والے مشہور ہوئے جیسے اکرم الہ بادی اور اظہار اثر وغیرہ لیکن ابن صفی صاحب کا مقام ہی الگ تھا۔ ان کے ناولوں کو پڑھ کر پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے کئی لوگوں نے اردو سیکھی یوں اردو زبان کی ترویج میں بھی انکا حصہ رہا جسکا اعتراف بابائے اردو مولوی عبدالحق سمیت کئی مشاہیر زبان نے کیا۔
پھر اشتیاق احمد تھے جنہوں نے بچوں کے جاسوسی ناول لکھے اور انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی جیسے مشہور و معروف کردار تراشے اور اپنے ناولوں کے ذریعے سے نئی پود کی تفریح کے ساتھ ساتھ بہترین ذہنی تربیت بھی کی۔ اور مطالعے کے رجحان میں زبردست فروغ کے عامل بنے۔ ان کے ناول بھی ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوا کرتے تھے۔ پھر مظہر کلیم مرحوم نے گو کہ ابن صفی کا لازوال کرداروں کا انداز خاصا تبدیل کرکے عمران سیریز لکھی اور یہ اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ابن صفی کے علی عمران اور مظہر کلیم کے علی عمران میں بہت فرق تھا لیکن کیونکہ ابن صفی صاحب دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے تو شائقین نے پراٹھا نہ سہی سوکھی روٹی ہی سہی کے مصداق مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز کو بھی پسند کیا ۔
پھر آتے ہیں ڈائجسٹ! پاکستانی ڈائجسٹوں نے بھی شوق مطالعہ کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور تاحال کررہے ہیں۔ ان کے قارئین کا بھی ایک بہت بڑا حلقہ ہے جو ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ کچھ ڈائجسٹوں نے تو بڑی دھوم مچائی اور اشاعت کے بلند و بالا ریکارڈز قائم کئے جن میں سر فہرست جناب شکیل عادل زادہ کا سب رنگ تھا جو کہ ایک ٹرینڈ سیٹر ثابت ہوا ۔اسکی کہانیاں ، تراجم ،اسکے قسط وار سلسلے سب ہی لاجواب اور یادگار ہیں۔ غلام روحیں ، سونا گھاٹ کا پجاری ،انکا ،اقابلا، امبر بیل اور پھر بازی گر جسکی تکمیل کا آج تک لوگوں کو بے چینی سے انتظار ہے اور شنید ہے کہ شکیل بھائی اسے الگ سے پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ سب رنگ اب بند ہوچکا ہے۔ پھر جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکیشنز کے تمام ڈائجسٹ آج بھی بڑی آب و تاب سے جلوہ گر ہورہے ہیں۔ اسی طرح لاہور سے اردو ڈائجسٹ ،سیارہ ڈائجسٹ اور قومی ڈائجسٹ اپنی علمی ،ادبی اور تفریحی مہک لٹا رہے ہیں۔ اور پھر خواتین کے بہت سے ڈائجسٹ ہیں جو بے شمار خواتین کے ذوق مطالعہ کو تسکین بخش رہے ہیں اور انہی خواتین کے ڈائجسٹوں سے تربیت یافتہ بہت سی باصلاحیت رائٹرزٹی وی ڈراموں میں اپنے قلمی جوہر دکھا رہی ہیں اور یہ ٹی وی ڈرامے سرحد پار تک مقبول ہیں۔
تو یہ سب یعنی جسے بہت سے جغادری ادیب تحقیرا پاپولر فکشن کہتے ہیں اور ادبی اعتبار سے انہیں کوئی وقعت نہیں دیتے لیکن یہی ادبی بے وقعت ناولز،ڈائجسٹ اور کہانیاں ہی ہیں جو آج بھی مطالعے کے رجحان کو کسی نہ کسی حد تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔ تو کچھ بھی کہا جائے لیکن یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ یہ تفریحی ادب ہی ہے جس کی وجہ سے بے شمار لوگ اب تک کتاب کو ہاتھ میں لیتے اور سرہانے رکھتے ہیں۔ زندہ باد پاپولر فکشن۔(خرم علی عمران)