علی عمران جونیئر
دوستو، نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دھوکے باز ہوتی ہیں۔یہ نظریہ ہے کہ زیادہ تر مرد عورتوں کو اس لیے دھوکا دیتے ہیں کیونکہ ان کی جیون ساتھی وقت کے ساتھ جنسی تعلقات میں عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتی ہے۔ تاہم نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دراصل خواتین مردوں کے مقابلے زیادہ دھوکے باز ہوتی ہیں۔آسٹریلیا کی ریسرچرز اینڈ فیڈریشن یونیورسٹی کی تحقیق میں 18 سے 67 سال عمر کی 240 خواتین کا مشاہدہ کیا گیا جس میں پتا چلا ہے کہ خواتین کی جانب سے کی جانے والی بے وفائی کی وجوہات مختلف بھی ہوسکتی ہیں جس میں سماجی توقعات، بدسلوکی یا نظرانداز کرنے یا دماغی صحت کے مسائل شامل ہیں۔ایک طرف یہ مطالعہ مردوں کو خواتین کو سمجھنے اور ممکنہ نقصان سے خود کو محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے تو دوسری جانب اس تصور کو بھی چیلنج کرتا ہے کہ صرف مرد ہی بے وفا ہوتے ہیں۔
استاد نے اسٹوڈنٹ سے پوچھا کہ ناکام عشق اور مکمل عشق میں کیا فرق ہوتا ہے؟اسٹوڈنٹ نے جواب دیا۔ناکام عشق بہترین شاعری کرتا ہے، غزلیں اور گیت گاتا ہے، پہاڑوں میں گھومتا ہے۔ عمدہ تحاریر لکھتا ہے۔ دل میں اتر جانے والی موسیقی ترتیب دیتا ہے۔ ہمیشہ امر ہوجانے والی مصوری کرتا ہے۔ مکمّل عشق سبزی لاتا ہے، آفس سے واپس آتے ہوئے آلو، گوشت، انڈے وغیرہ لاتا ہے۔ لان کی سیل کے دوران بچوں کو سنبھالتا ہے۔ پیمپر خرید کر لاتا ہے۔ تیز بارش میں گھر سے نہاری لینے کے لیے نکلتا ہے۔ سسرال میں نظریں جھکا کر بیٹھتا ہے۔ ماں بہنوں سے زن مریدی کے طعنے سنتا ہے۔ اور پھر گھر آ کر یہ بھی سنتا ہے کہ آپ کتنے بدل گئے ہیں۔ شادی سے پہلے کتنے اچھے تھے۔۔کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا: آپ نے زندگی بھر شادی کیوں نہیں کی؟ انہوں نے بتایا: یہ میری جوانی کی بات ہے میں ایک شادی میں گیا ہوا تھا۔وہاں نادانستہ میرا پاؤں میرے پاس کھڑی لڑکی کی چادر پر پڑگیا۔وہ سانپ کی طرح سسکاری مار کر ایک دم پلٹی اور شیر کی طرح دہاڑی۔بلڈی ہیل، اندھے ہو کیا؟ میں گڑبڑا کر معافی مانگنے لگا،پھر اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی،تو وہ بہت ہی پیارے دھیمے لہجے میں بولی۔اوہ معاف کیجیے گا، میں سمجھی میرے شوہر ہیں۔بس جناب اس دن کے بعد سے۔۔۔
ایک فلسفی سے کسی نے پوچھا۔۔کہ آپ کیسی عورت سے شادی کرنا پسند کرینگے؟؟فلسفی نے جواب دیا:میں نہیں چاہتا کہ وہ اتنی خوبصورت ہو،کہ میرے علاوہ اور لوگ بھی پسند کریں۔نہ ہی اتنی بدصورت کہ میں بیزار ہوجاؤں۔نہ اتنی لمبی ہو کہ میں ایڑی کے بل ہو کر بات کروں اور نہ ہی اتنی پست قد کہ جھکناپڑے، نہ اتنی موٹی کے دروازہ گھیر کر رکھے ،نہ ہی اتنی پتلی کے مجھے وہ محض ایک خیالی جسد لگے۔نہ موم کی طرح سفید نہ بھوت کی طرح کالی۔نہ اتنی جاہل کہ مجھے سمجھ ہی نہ سکے اور نہ ہی اتنا علم ہو کہ مجھ سے بحث ہی کرتی رہے۔خیر سے مرحوم کنوارے مرگئے۔شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جارہی تھی۔باہر سخت سردی تھی،ایک اجنبی مرد اور عورت ٹرین کے ایک ہی کیبن میں اکٹھے سفر کر رہے تھے۔۔مرد اُوپر والی برتھ پر لیٹا تھا جبکہ اُس کا سامان نیچے پڑا تھا اور عورت نیچے والی برتھ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔رات کو مرد کو سردی لگی تو اُس نے عورت سے کہا اگر آپ بُرا نہ مانیں تو نیچے پڑے میرے سامان سے میرا کمبل مجھے پکڑا سکتی ہیں؟عورت نے بڑے پیار سے جواب دیا۔کیا یہ ممکن ہے صرف چند لمحوں کے لئے ہم میاں بیوی بن جائیں؟مرد نے حیرت اور خوشی سے کیبن کی کُنڈی پر نظر ڈالی کہ لگی ہوئی ہے یا نہیں،پھر ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ہاں ہاں کیوں نہیں بن سکتے۔اس کی ہاں سُن کر عورت بولی۔تمہارے ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں؟خود نیچے آکر کمبل اُٹھاؤ، زندگی میں کبھی اپنا کام خود بھی کر لیا کرو۔عورتیں کتنی چالاک اور دھوکے باز ہوتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کرلیں کہ جب میک اپ سستا تھا تو دلہنیں بھی رخصتی کے وقت دھاڑیں مار مار کر روتی تھی۔آج کل مہنگائی کی وجہ سے میک اپ کا سامان اور بیوٹی پارلرز کے چارجز بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں تو ہلکا سے ”اوووں” کرکے کام چلالیتی ہیں۔
ماسٹر صاحب بچے کو بڑی جان مار کے حساب سکھا رہے تھے۔ وہ ریاضی کے ٹیچر تھے۔ اْنھوں نے بچے کو اچھی طرح سمجھایا کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں۔مثال دیتے ہوئے انھوں نے اسے سمجھایا کہ ،یوں سمجھو کہ میں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دیے،پھر دو کبوتر دیے تو تمھارے پاس کتنے کبوتر ہو گئے؟بچے نے اپنے ماتھے پر آئے سلکی بالوں کو ایک اداسے پیچھے کرتے ہوئے جواب دیا ۔ماسٹرجی،پانچ۔ماسٹر صاحب نے اسے دو پنسلیں دیں اور پوچھا کہ یہ کتنی ہوئیں؟بچے نے جواب دیا کہ دو،پھر دو پنسلیں پکڑا کر پوچھا کہ اب کتنی ہوئیں؟بچے نے جواب دیا۔چار۔ماسٹر صاحب نے ایک لمبی سانس لی ،جو اْن کے اطمینان اور سکون کی علامت تھی۔پھر دوبارہ پوچھا،اچھا اب بتاؤ کہ فرض کرو کہ میں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دیے پھر دو کبوتر دیے تو کْل کتنے ہو گئے؟بچے نے پھر جھٹ پٹ سے جواب دیا۔ماسٹرجی پانچ ہوگئے۔ماسٹر صاحب جو سوال کرنے کے بعد کرسی سیدھی کر کے بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے اس زور سے بدکے کہ کرسی سمیت گرتے گرتے بچے۔غصے سے بھڑک اٹھے۔ابے نالائق، احمق، ناہنجار، جب پنسلیں دو اور دو چار ہوتی ہیں تو کبوتردواوردو پانچ کیوں ہوتے ہیں؟؟بچے ماسٹرجی کا غصہ نظراندازکیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ ماسٹرجی ایک کبوتر میرے پاس پہلے سے ہی ہے۔واقعہ کی دُم:ہم مسلمان تو ہوگئے مگر کچھ کبوتر ہم نے اپنے آباؤاجداد کے سنبھال رکھے ہیں اور کچھ معاشرے سے لے لیے،اسی لیے جب قرآن کی تلاوت سنتے ہیں تو سبحان اللہ کہتے ہیں، جب حدیث نبوی ۖسنتے ہیں تو درود کا تحفہ بھی بھیجتے ہیں مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو باپ ،دادا اور معاشرے والا کبوتر نکال لیتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ عقل اور کامن سینس کا ہونا آج کل کے دور میں کسی سزا سے کم نہیں،کیوں کہ اب آپ کو ہر اس شخص سے نمٹنا ہوگا جس کے پاس یہ نہیں ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔