تحریر: ایاز امیر۔۔
حالات کا خراب ہونا اتنے اچنبھے کی بات نہیں۔ حالات خراب ہوتے رہتے ہیں‘ قومیں مشکل سے مشکل وقت کا سامنا کرتی ہیں‘ زندگی کی دوڑ دھوپ اور جدوجہد جاری رہتی ہے۔ خطرے کی بات تو تب ہوتی ہے جب اندر سے ہمت مر جائے اور مستقبل کے بارے میں کوئی امید نہ رہے۔ مشکلات سے قومیں نہیں مرتیں‘ ناامیدی سے گویا مردہ ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے‘ وہ یہ کہ جو آئے انہوں نے اپنی شکل و صورت و حرکات سے مستقبل کے بارے میں امید مار دی۔ آپ خود آزما لیں‘ کسی نوجوان سے گفتگو کریں‘ باہر کا رُخ کرنا چاہتا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو باہر جانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کیلئے یہاں کچھ نہیں‘ باہر کی معمولی مزدوری کو بھی غنیمت سمجھتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جن کے پاس یا جن کے خاندانوں کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ بھی یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے۔
اپنی زندگی میں ہم نے بڑے ادوار دیکھے ہیں‘ آمریت کے لمبے عہد دیکھے‘ جمہوریت کا چراغ جلتا اور بجھتا دیکھا‘ لیکن دل میں ناامیدی کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہمیشہ یہ خیال سلگتا رہا کہ اچھے دن آئیں گے‘ آگے کی طرف ملک چلے گا لیکن پتا نہیں کون سا منحوس سایہ اس دھرتی پر پڑا ہے کہ اب آگے کا کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنے آپ کو میں بے وسیلہ نہیں کہہ سکتا‘ زندگی چل رہی ہے اور زندگی چلانے کے لیے جو لوازمات ضروری سمجھے جاتے ہیں تھوڑی مقدار میں یا زیادہ‘ وہ ہیں لیکن سچ پوچھئے تو دل میں چاشنی نہیں رہی‘ مستقبل کا کچھ بنتا نظر نہیں آتا۔ جن کو کرتا دھرتا سمجھا جاتا ہے ان کے چہروں کو دیکھیں تو دل بالکل ہی بیٹھ جاتا ہے اور آسمانوں سے پکارنے کو جی چاہتا ہے کہ نہیں یہ ہمارا مقدر نہیں ہو سکتا۔ لیکن موجودہ حالات ہماری حقیقت ہیں اور یہی ہمارا مقدر ہے۔ انہی حالات میں ہم رہ رہے ہیں اور انہی کو ہم بھگت رہے ہیں۔ اس میں کوئی فریب تو نہیں ہے‘ ہم کوئی خواب نہیں دیکھ رہے۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ایسا ویسا ملک بھی نہیں‘ چوبیس‘ پچیس کروڑ کی آبادی ہے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دھرتی ہو‘ پانی ہو‘ آب و ہوا ہو‘ اتنی بڑی آبادی ہو اور اس دھرتی پر ناامیدی کے بادل چھائے ہوں۔ لیکن ایسا ہے‘ یہی آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں یہ دیس نصیب ہوا اس سے بڑی اور کوئی کہانی نہیں۔ کون سی یہاں پہ جدوجہد ہوئی تھی‘ کون سے ہم پہاڑوں پر چڑھے تھے انگریزوں کے خلاف لڑنے کیلئے؟ ہندوستان میں آزادی کیلئے کوئی مسلح جدوجہد نہیں ہوئی‘ یہاں کی جدوجہد تو پریس کانفرنسوں اور قراردادوں کی تھی۔ کانگریس والے تو پھر بھی جیل وغیرہ گئے ہم تو اس سے بھی بچے رہے۔ پنجاب میں جو خون کے دریا بہے ان کا حصولِ آزادی سے کوئی تعلق نہ تھا‘ وہ خون کے دریا تو یوں سمجھئے حصولِ آزادی کا ایک نتیجہ تھے۔ اور قوموں کی تاریخ پڑھیں تو پھر کچھ نہ کچھ سمجھ آتی ہے کہ جدوجہد کا معنی کیا ہوتا ہے۔ ہمیں تو بہت کچھ بہت آسانی سے مل گیا‘ اسی لیے شاید ہم نے اس کی اتنی قدر نہ کی‘ لیکن یہ بھی ہے کہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ممالک ہیں سب کے سب خونیں انقلاب یا مسلح جدوجہد کی راہ سے نہیں گزرے۔ وہ کیسے ترقی یافتہ ہو گئے؟ ان میں کیا ہنر تھا جو ہم میں نہیں؟ ہندوستانی تو ہمارے ساتھ کے لوگ ہیں‘ انہوں نے اپنے ملک کا کچھ بنا لیا ہے‘ ان کی نسبت ہم اتنے نکمے کیوں ٹھہرے؟
چند دن پہلے ہی خبر آئی تھی کہ ان کے زرِمبادلہ کے ذخائر چھ سو بلین ڈالر سے آگے جا چکے ہیں۔ ایسی خبروں پر تو یہاں پابندی لگنی چاہئے کیونکہ خواہ مخواہ کا ڈپریشن پیدا کرتی ہیں۔ درست ہے کہ برے حالات عارضی ہو سکتے ہیں لیکن یہاں یہ کیفیت ہے کہ کسی سے ہم سوال کریں کہ کیا ہمارے آج کے حالات عارضی ہیں تو آپ کو اچھا جواب نہیں ملے گا‘ ناامیدی اتنی پھیل چکی ہے۔ ایک طرف بھارت کے زرِمبادلہ کے ذخائر اور دوسری طرف طالبان حکومت کا ہمیں یہ کہنا کہ پاکستان کو تحریکِ طالبان پاکستان سے بات چیت کرنی چاہئے۔ یعنی جن کا بوجھ چالیس سال ہم اٹھاتے رہے اور اس دوران ان کی خاطر اپنے آپ کو خراب کیا‘ وہ آج ہمیں نصیحت کر رہے ہیں۔ نصیحت بھی کیا کر رہے ہیں‘ زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ یہاں دہشت گردی کی وارداتیں زور پکڑ رہی ہیں اور ہم طالبان حکومت سے مدد کے خواہاں ہیں اور وہ ہمیں الٹا نصیحت کرنے پر آ گئے ہیں۔ اس میں غلطی کسی اور کی نہیں ہماری ہی ہے کیونکہ فضول کے مفروضوں پر ہم نے افغانستان کے مسائل کو اپنے مسائل بنایا۔ جنہوں نے ایسے مفروضے اپنی نادانی میں تراشے وہی ہمارے مقدر کے رکھوالے ہیں۔ اگر ایسا ہے‘ جن کے سبب ہم بیمار ٹھہرے وہی ہمیں پھر دوا دینے پر تلے ہوئے ہیں تو ایسی دھرتی پر ناامیدی کے سوا کسی اور گل نے کیا نکھرنا ہے؟
ہم جو اس دھرتی کے باسی ہیں کس کی اولاد ہیں؟ حقیقت میں یا افسانوں میں ہمارے آباؤ اجداد کون تھے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہو تو تاریخ کے ان اوراق میں جانا پڑتا ہے جب مغل سلطنت یہاں ختم ہو رہی تھی اور انگریزوں نے برصغیر میں قدم جمانا شروع کیے تھے اس وقت مسلمان حکمرانی اور مسلم تہذیب زوال پذیر تھی‘ اپنا عروج دیکھ چکی تھی اور ہر طرف سے اسے شکست کا سامنا تھا۔ مغل سلطنت نے رہنا کیا تھا‘ مذاق بن چکی تھی۔ انگریز بنگال میں آ چکے تھے اور وسطی ہندوستان میں مرہٹوں کا زور تھا۔ پنجاب میں رنجیت سنگھ کی سلطنت قائم ہو رہی تھی۔ دُور جنوب میں حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان نے انگریز کے خلاف ہمت دکھائی لیکن کئی جنگوں کے بعد ان کا چراغ بھی بجھ گیا۔باقی بتائیے کون سے مسلمان طاقت کے مراکز رہ گئے تھے؟ غالب اور اُن جیسے شعرا کی شاعری تھی لیکن توپ و تفنگ تو نہ رہ گیا تھا۔انگریزآہستہ آہستہ ہندوستان پر پھیلتے جا رہے تھے اور مسلمانوں نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ انگریز حکمرانی کے ساتھ سمجھوتاکرلیا جائے۔کہنے کا مطلب یہ کہ مسلمانانِ ہند کا کوئی انقلابی قسم کا پس منظر نہ تھا۔خالصتاً ایک سیاسی اور آئینی عمل کے نتیجے میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور بطورِ ایک آزاد ملک پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
اِس بے ضرر پس منظر کے باوجود آزادی کے بعد قومی زندگی میں ایک نئی جدت پیداہوسکتی تھی لیکن ایسا تب ہی ممکن تھا اگرفرسودہ تصورات کو دفنایا جاتا اور کوئی ایسی قیادت ہوتی جو نئے افکار کے ساتھ آگے قدم رکھنے کی صلاحیت رکھتی۔لیکن ایسی قیادت کہاں سے آنی تھی؟یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ اُس زمانے کے لیڈر بڑے لوگ تھے لیکن پھر بھی اپنے پس منظر کے اسیر تھے ۔یہ آنے والے لوگوں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ قومی زندگی کو نئے اور جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرسکیں لیکن جیسا ہم جانتے ہیں آنے والی قیادتوں کا معیار کچھ اتنا بلند نہ تھا۔ اور بعد میں جوآئے اُن کا ذکر کیا کرنا۔دیگر ملکوں کو چھوڑیے بھارت کے مقابلے میں تو ہماری قومی زندگی کا معیار تو کچھ اچھا ہونا چاہئے تھا‘ لیکن دیکھ لیں وہ کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم کن دلدلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بی جے پی کے جیالوں کو ایک طرف رکھئے‘ جو ماڈرن انڈین ہے وہ ماڈرن آؤٹ لُک رکھنے والا انسان ہے۔ہماری قومی زندگی کا المیہ ہے کہ ماڈرن پاکستانی ذہن پیدا نہیں ہوسکا۔دھرتی مل گئی ‘ دیس بن گیا ‘ لیکن خیالات اور نظریات وہی پرانے اور فرسودہ رہے اور مزید المیہ یہ ہے کہ ایسے خیالات سے نکلنے کیلئے ہم تیار نہیں۔قومی گفتگو کا معیار ہی دیکھ لیں‘ کتنا پسماندہ قسم کا ہے ۔ کوئی ایک بھی ڈھنگ کا لیڈر نہیں جو آج کے تقاضوں کے مطابق کچھ کہہ سکے۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔
ڈھنگ کا لیڈر
Facebook Comments