تحریر: ناصر جمال۔۔
ملک میں سیلاب اور بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ دوسری سمت سیاست اور سیاستدانوں کی باہمی تباہ کاری جاری ہیں۔ قدرتی آفات اور سیاستدان، دونوں ہی رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے، سیلاب سے ستائے مظلوم، دہائیاں، دے رہےہیں۔ مائیں بین ڈال رہی ہیں۔ لاوارث بچوں، باپ اور مائوں کی پانی میں ڈوبی تصاویر بھی سیاست کے اسیروں کے ضمیر جھنجھوڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ سندھ کے درجنوں اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ کراچی کی سڑکیں، آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہی ہیں۔ جیسا وہاں گورننس ماڈل ہے۔ اس حساب سے تو ’’بلی کے بھاگوں چھینکا، ٹوٹ چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اپنے دور حکومت2010-11میں بدترین انتظامی، صلاحیتیں دیکھنے کو ملی تھیں۔ اس بار، بلاول متحرک ہیں۔ جلد ہی فرق پتا چل جائے گا۔ ہوسکتا ہے۔ ریلیف ورک بہتر ہو۔ پانچ سو فیصد بارشیں، زیادہ ہوں۔ یا، ہزار فیصد۔ حکومتیں اپنی نالائقی، نااہلی اور بد انتظامی کے پیچھے نہیں، چھپ سکتیں۔ چودہ سال سے پیپلز پارٹی سندھ میں ہے۔ بلوچستان میں تقریباً وہی لوگ مسلسل ا قتدار میں ہیں۔ پنجاب کا بھی حال وہی ہے۔ وفاق سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیلاب کیا ملک میں پہلی بار آیا ہے۔ بلوچستان میں ریکارڈ ڈیم ٹوٹے ہیں۔ ظاہر ہے۔ ناقص کام ہوا ہے۔ کاغذوں میں سڑکیں بنتی ہیں۔ آبی گزرگاہوں، پلوں کی لمبائی اور اونچائی کم ہے۔ کام تھرڈ کلاس ہوا ہے۔ آخر گورے کا انفراسٹریکچر دو سو سال کے بعد بھی کیوں نہیں بہتا۔ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے۔ 2002ء کے زلزلے سے ہم نے کیا سیکھا ہے۔ وفاق اور چاروں صوبوں کے پاس ایئر ایمبولینس کیوں نہیں۔ این ۔ ڈی۔ ایم۔ اے اور پی۔ ڈی۔ ایم۔ ایز کے پیٹ میں کھربوں روپے چلے گئے۔ آخر ہنگامی ریسکیو کے لئے، ہیلی کاپٹر کیوں نہیں خریدے گئے۔ آخر کون لوگ ہیں ہم۔ بارش آئے تو سڑکیں، پانی کیسے بہا لے جاتا ہے۔ یقیناً، ناقص پلاننگ ہے۔ بدترین، انجینئرنگ ڈیزائن اور کام ہے۔ زیادہ منافع اور کمیشن کے لئے، گھٹیا سرویز کی بنیاد پر تعمیرات کی گئیں ہیں۔ شمالی علاقہ جات، چترال اور کے۔پی میں ایسی بے شمار ویڈیو، ڈھول کا پُول کھول رہی ہیں۔ مگر ہوگا کچھ بھی نہیں۔ نئے قرضے لئے جائیں گے۔ فنڈز دیئے جائیں گے۔ کچھ صاحب اختیار اور ٹھیکیدار اور زیادہ امیر ہوجائیں گے۔ ہم چار پانچ سال بعد، اسی طرح سے رونا رو رہے ہونگے۔ ایسے ہی ’’بلیم گیم‘‘ ہوگا۔ سابقہ لوگوں پر الزمات لگا کر، آگے چلنے کا مشورہ آئے گا۔
گڈو747، میگاواٹ کاجدید ترین پاورپلانٹ جل کر خاکستر ہوگیا۔ نیلم، جہلم ہائیڈل پروجیکٹ، جس کا آج تک فنانشل کلوز نہیں ہوسکا۔ ڈیم مکمل ہونے سے صرف دو ماہ پہلے، اس کی لاگت425سے 525ارب ہوگئی۔ آج 969میگا واٹ کا پلانٹ بند پڑا ہے۔ سول ورک غیر معیاری ہوا۔ سرنگوں کے اخراج پر داڑیں پڑنے کی اطلاعات ہیں۔ تربیلا میں تو دو الیکٹرک ٹربائن ہی بہہ گئیں تھیں۔ نندی پور پاور اسکینڈل بھی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ مہمند ڈیم، ٹینڈر ایوارڈ، تاریخ کا بدترین ایوارڈ ہے۔ جہاں چور، تو، چور، ڈاکو بھی، اسے ڈاکہ کہے۔ کیا ہوا۔ کچھ بھی نہیں۔ اور کبھی کچھ ہوگا بھی نہیں۔ چاہے حکومت ایماندار خان کی ہو۔ یا، شہباز اسپیڈ کی، حتیٰ کہ جماعت اسلامی کی بھی حکومت آجائے۔ حالات یہی رہیں گے۔
اس ملک کی، سیاسی، انتظامی، بزنس مین، صنعتکار اشرافیہ اس ملک اور عوام کو معافی دینے پر تیار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری عسکری اشرافیہ بھی نہیں۔ وہ چاہیں تو، کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔ خیمے، ادویات، راشن، کمبلوں سے آگے، نکلیں۔ حضور، کب تک’’کاسمیٹک سرجری‘‘ سے میجر سرجری والے، مریض کو بہلاتے رہیں گے۔ برسات اللہ کی رحمت ہے۔ اسے زحمت اور عذاب تو ہم نے خود اپنے لئے بنایا ہوا ہے۔ آج بے نظیر انکم سپورٹ سے لیکر، ایسے کئی پروگراموں کے ذریعے قوم کو بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ بجلی، گیس پر سبسڈی نہ دیں۔ بجلی، گیس چوری روکیں۔ ہرشخص بل دے۔ بجلی ، گیس، پیٹرول، سستا ہوسکتا ہے۔ مگر، آپ کے کھاتے ہی سیدھے نہیں ہیں۔ خسارے میں چلنے والے ادارے، حتیٰ کہ منافع میں چلنے والے بھی ادارے، بیچیں، جینوئن لوگوں کو دیں۔ اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے، کوڑیوں کے دام یہ، ’’پیرو‘‘ کا مال، مت اڑائیں۔ یہاں سے بچنے والے، کھربوں روپے عوام کی، صحت، تعلیم پر خرچ کریں۔ معیاری اور طویل العمر انفراسٹریکچر بنائیں۔ سیاسی بنیادوں پر موٹرویز بنانے کا کھیل ختم کریں۔ روٹ میرٹ پر ہونے چاہئیں۔ اپنے لوگوں کو ہُنر سکھائیں۔ انھیں بچتوں کا بتائیں۔ اسٹاک ایکسچینج سے اے۔ کے۔ ڈی، عارف حبیب، خادم علی شاہ، زبیر موتی والے سمیت، سب کی مناپلی اور قبضے ختم کروائیں۔ یہاں حکومت کیوں انویسٹمنٹ کرے۔ عام آدمی شیئرز خریدے۔ ایس۔ ای۔ سی۔ پی کو مضبوط بنائیں۔
قارئین۔۔آپ ہی بتائیں۔ جو اربوں روپے، تحریک انصاف اور دوسری حکومتوں نے یوٹیوبرز کے پیٹوں میں غرق کئے ہیں۔ اس سے کتنے ریلیف ہیلی کاپٹرز خریدے جاسکتے تھے۔ آج تعلیم، صحت کا بجٹ ہے ہی کتنا۔ آخر 1122کی طرز پر ایک مضبوط ریسکیو فورس کیوں کھڑی نہیں کی جاسکتی۔ عوام، افواج پاکستان کی طرف دیکھنے کی بجائے، ان کی جانب دیکھیں۔عام حالات میں، اُن سے اور بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں۔ آخر حکومت غیر ضروری انتظامی بوجھ سے نجات کیوں حاصل نہیں کرتی۔ سرکاری گاڑی، سرکاری پیٹرول کا تماشا بند ہونا چاہئے۔ وفاقی اور تمام صوبائی کابینائوں میں کوئی ایک غریب آدمی تو بتائیں۔ حضور پھر یہ، گاڑیوں کے بڑے، بڑے بیڑے کیوں رکھے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو، انکی گاڑی لیکر دیں۔ انھیں گاڑی، رہائش میں آسانی دیں۔ یہ سرکاری رہائش گاہیں، ریسٹ ہائوسز ختم کریں۔ اس ملک میں ہائوسنگ اور ہوٹلنگ انڈسٹری کو فروغ ہونے دیں۔ عام آدمی پر پیسے خرچ کریں۔ سمیڈا سے بڑا کام لیں۔ حکومت پالیسی، مانیٹرنگ تک محدود ہو۔ بہت ہوچکا ہے۔ خدارا، اس ملک کو چلنے دیں۔ عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں۔ ایف۔ بی۔ آر سے اگر بجلی، گیس، پیٹرول اور گڈز کے جی۔ ایس۔ ٹی اور کسٹم ڈیوٹی سے ہی ٹیکس جمع کرواناہے تو، بہتر ہے۔ اس ادارے کو بند ہی کردیں۔ اٹھارہ ہزار لوگ یہاں رکھنے کا کیا جواز ہے۔ اسی طرح صوبائی ریونیوز اتھارٹیز ختم کردیں۔ سیدھا، سیدھا، ٹیکسیشن کا نظام قائم کردیں۔ گھی، آٹے، دالیں، نمک، مصالحے، دودھ، دہی، ادویات، تعلیم کے علاوہ ہر چیز پر ٹیکس لگا دیں۔ سب کچھ آن لائن، پکی رسید کردیں۔ سب کو پتا ہو۔ کتنا ٹیکس، ہر شہری نے دیا ہے۔ خام مال کی بجائے اشیاء پر ٹیکس ہو۔ جس نے جو منگوانا ہے۔ وہ بغیر ڈیوٹی اور جی۔ ایس۔ ٹی کے منگوائے۔ ہر شہری کے CNIC نمبر کو نیشنل ٹیکس نمبر قرار دے کر، اس میں ٹیکس جمع ہونے کی اُسے فوری رسید دیں۔ بجٹ میں اللے، تللے ختم کرکے، واضح فنڈز کی تقسیم کریں۔ جس تک ہر شہری کی آن لائن پہنچ ہو۔
بارشوں، قدرتی آفات کے حوالے سے جدیدسسٹم اور جدید انفراسٹریکچر کی بنیاد رکھیں۔برائے مہربانی، اپنے شہباز گلوں، عمران خان، شہباز شریفوں، نواز شریف، زرداریوں کو خود سنبھالیں۔ اور معزز عدالتیں، عمران خان، سمیت دیگر سیاستدانوں کو جیسے فاسٹ ٹریک پر ریلیف دیتے ہیں۔ عام آدمی کو بھی دیں۔ ہمارے لئے بھی ، رات کو عدالتیں کھولیں۔ ڈاکٹر اور جج بھی چوبیس گھنٹے ملنا چاہئے۔ویسے ہی سلطان راہی کا ڈائیلاگ یاد آگیا۔ اس ملک میں ظلم چوبیس گھنٹے ہوتا ہے اور انصاف آٹھ گھنٹے ملتا ہے۔آبی گزرگاہوں کو کلیئر کریں۔ نئے ڈیمز، ہیڈ ورکس، کیوں نہیں بن سکتے۔ ہاں، آخر کالا باغ ڈیم سے لیکر، ایک مضبوط سوشل سروسز نیٹ ورک کیوں نہیں بن سکتا۔
ہمیں، ہمارے بچوں کے قہقہے، ان کے مستقبل، ماں، باپ کے خوابوں کی تعبیر درکار ہیں۔ ہمیں یہ لاشیں اور نہ ہی لاشوں کی قیمتیں اور نہ ہی، یہ آپ کے گندے، سیاسی، دھندے چاہئیں۔ ہے کوئی جو اس نقار خانے میں طُوطی کی آواز سنے۔ (ناصر جمال)
