تحریر: مرزا طالب
رحمت علی ہانپتا نتا کانپتا نیوز روم میں داخل ہوا، اور اپنی کرسی پربیٹھ کر سر ٹیبل پر رکھ دیا۔۔رحمت کی حالت دیکھ کر دفتر والے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے، سب کے پوچھنے پر رحمت نے بتایا کہ وہ دفتر آتے ہوئے لُٹ گیا ہے۔ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر اسکا موبائل اور پرس چھین لیا ہے۔رحمت کے مینیجر بھی اس کے پاس آگئے اوراس سے دلی ہمدردی کا اظہارکرنے لگے۔۔رحمت نیوزروم کی ڈیسک پر کام کرتا تھا۔خبروں کو بنانا، سنوارنا ، خبروں میں سلاست اور اختصار پیدا کرنا، خبر کو ادارے اور معاشرتی آداب کے دائرے میں رکھنا اس کی ذمہ داریوں کا حصہ تھا۔وہ دفترمیں کاپی ایڈیٹرتھا۔رحمت کی داستان سن کر سب ہی اظہارافسوس کررہے تھے۔اتنے میں شازیہ چنگیزی ،جو دفتر میں کاپی رائٹر تھی، مینیجر صاحب سے بولی ، سر، رحمت صاحب کے ساتھ واردات کی خبر اور ٹکر ہم اپنے ٹی وی پر چلوا دیں؟یہ سن کرمینیجر صاحب نے کہا کہ انہیں اس کے لئے پہلے باس سے بات کرنا پڑے گی۔۔ تھوڑی دیر بعد مینیجرصاحب نے بتایا کہ باس کہہ رہے ہیں کہ ادارے کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ اسٹاف سے متعلق اس طرح کی خبریں ٹی وی پرچلائی جائیں ۔یہ جواب سن کر ڈیسک پرمایوسی سی پھیل گئی۔اس واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا ، ایک روز رحمت اپنے گھر پر بیٹھا اپنے ٹی وی چینل کی خبریں دیکھ رہا تھا۔اچانک اس کے سامنے لال ٹکر کی پٹیاں چلنا شروع ہوگئیں۔رحمت ٹکر پڑھتا گیا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔
خبر یہ تھی۔
نیوز فور ٹوئینٹی کے رپورٹر گلفام بھٹی لٹ گئے۔۔
رپورٹرگلفام بھٹی کو 2 موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے لوٹا
گلفام بھٹی کوپرس ،موبائل ،چارجراورلائٹر سے محروم کردیا گیا۔
آل اینڈ آل پاکستان صحافی یونین کی جانب سے گلفام بھٹی کے ساتھ واردات کی سخت مذمت۔
رحمت یہ ٹکر پڑھتا جارہا تھا اور اسے اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہورہا تھا۔ جیسے ڈیسک کے رکن ، صحافی ہی نہ ہوں۔ گلفام اور وہ ایک ہی چھت تلے کام کرتے تھے۔گلفام کی خبروں کو ایڈٹ بھی رحمت ہی کیا کرتا تھا،دونوں کے ساتھ واردات بھی ایک جیسی ہوئی، تاہم رحمت کے واقعے کی خبر ہی نہ بن سکی۔اس واقعے کو پورا ایک سال بیت گیا۔ان دنوں ملک کے حالات بدل رہے تھے۔میڈیا بھی بحران کا شکارتھا۔نیوز چینلز سے صحافیوں کو چن چن کر فارغ کیا جارہا تھا۔رحمت اب دوسرا چینل ’سماج ون ‘ جوائن کرچکا تھا، جہاں اسے اب کام کرتے ہوئے ایک سال بیت چکا تھا۔ رحمت کو خطرہ تھا کہ اب ’سماج ون ‘ میں بھی کسی بھی وقت چھانٹی شروع ہوسکتی ہے۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا۔ ’سماج ون ‘ نے دیگر چینلز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، پانچ کاپی ایڈیٹروں سمیت پینتالیس ملازمین کو بیک جنبش قلم نوکری سے نکال دیا تھا۔خوش قسمتی سے نکالے گئے افراد میں کوئی بھی رپورٹر شامل نہ تھا۔اس سے قبل سات دیگر چینلز بھی رپورٹروں سمیت سینکڑوں ملازمین کو فارغ کرچکے تھے، ان چینلز کے خلاف صحافی یونین کا احتجاج بھی جاری تھا۔۔
ایک روز ایک پریس کانفرنس میں عجیب واقعہ ہوا، کوریج کیلئے آئے صحافیوں نے ، صحافیوں کی چھانٹیوں کے خلاف بطور احتجاج سات نیوز چینلز کے مائیک ڈائس سے ہٹا دیئے۔رحمت بھی اس روز پریس کلب میں موجود تھا۔اس نے دیکھا ڈائس ’سماج ون ‘ کا مائیک بدستور لگا ہوا ہے۔رحمت سمجھا کہ شاید یہ مائیک غلطی سے یہاں لگا رہ گیا ہے۔اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی دارالخلافہ پریس کلب کی ویڈیوبھی پورے ملک میں وائرل ہوگئی،جس میں ایک صحافی بطور احتجاج سات چینلز کے مائیک ڈائس سے ہٹا رہا ہے۔رحمت کو بھی کسی نے واٹس ایپ پر وہ ویڈیو سینڈ کی۔ویڈیو دیکھ کر رحمت کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ’سماج ون ‘ کا مائیک یہاں سے بھی کسی نے نہیں ہٹایا۔اب رحمت کے ذہن میں تمام ماجرا اب شاید واضح ہوتا جارہا تھا۔اگلے روز رحمت اپنے پریس کلب پہنچا تو وہی ویڈیو زیربحث تھی، سب لوگ مائیک ہٹانے والے رپورٹر کی واہ واہ کررہے تھے۔
اتنے میں رحمت کو ایک کیمرا مین قریب آتا دکھائی دیا۔اللہ دین نامی یہ کیمرامین صحافی یونین میں خوب ایکٹو تھا۔بڑے بڑے لوگوں سے اس کی جان پہچان تھی۔اللہ دین قریب آیا تو اس بولا نہیں جارہا تھا،شاید منہ میں پتی والا پان تمام تر لعاب کے ساتھ بھرا ہوا تھا۔ رحمت نے اس سے پوچھا کہ ’سماج ون ‘ کے معاملے پر تمہاری یونین کیوں خاموش ہے؟سماج نیوز نے بھی تو ورکرز کو بے روزگار کیا ہے؟ اس پر اللہ دین اپنی تھوڑی کو بلند کرکے بہ مشکل بولا کہ سماج نیوز نے کب کسی رپورٹر کو نکالا ہے؟ اس پر رحمت بولا کہ رپورٹر تو کوئی فارغ نہیں ہوا، لیکن کاپی ایڈیٹرز اور دیگر اہم اسٹاف تو فارغ ہوا ہے نا؟ جواب میں اللہ دین بولا کہ اچھا ’سماج ون ‘ نے عام ورکرز فارغ کئے ہیں نا، صحافی تو اس نے کوئی بے روزگار نہیں کیا نا؟ رحمت ، اللہ نور کی یہ بات سن کر حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ شاید اللہ دین اور اس کی یونین ڈیسک اسٹاف کو صحافیوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے۔رحمت سوچ رہا تھا کہ شاید یہ اللہ دین کا نہیں اس کی صحافی یونین کا جواب ہے۔۔اس ایک بیان نے جیسے ساری بات ہی ختم کردی تھی۔( مرزا طالب)۔۔
نوٹ : یہ کہانی بعض صحافیوں کے حقیقی تجربات پر مبنی ہے..تاہم کرداروں کے نام وغیرہ تبدیل کردیئے گئے ہیں..
(مرزا طالب نیوزروم کے حوالے سے ایک سینئر صحافی کا قلمی نام ہے،جو پچھلے ایک عشرے سے زائد ملک کے ٹاپ چینلز میں کام کرتے رہے ہیں، ان کی تحریر نیوزروم میں کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ صحافتی تنظیموں کے لئے بھی تازیانہ ہے۔۔ چونکہ میں خود بھی ایسی پوزیشن پر کام کرتا رہا ہوں جس میں ہم لوگ کسی گنتی میں شمار نہیں ہوتے لیکن کسی بھی چینل کا دماغ کہلاتے ہیں۔۔لیکن جب یہ لوگ ظلم و زیادتی کا شکار ہوتے ہیں تو اپنے ہی چینل کےساتھ ساتھ دیگر چینلز میں کام کرنے والے بھی اس سے لاعلم رہتے ہیں، علی عمران جونیئر)۔۔۔