تحریر: جاوید چودھری۔۔
یہ بظاہر ایک عام سی‘ معصوم سی اور چھوٹی سی داستان ہے لیکن یہ چھوٹی سی‘ معصوم سی اور عام سی داستان ہم سب کی داستان ہے‘ یہ وہ حقیقت ہے جو ہم سب کے ساتھ جڑی ہے اور ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی اس حقیقت کا شکار ہوتے ہیں۔
میرے دوست کو اس کی پھوپھی نے پالا تھا‘ پھوپھی دنیاوی لحاظ سے بدقسمت خاتون تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر لحاظ سے نواز رکھا تھا‘ یہ خوب صورت تھی‘ اللہ نے اس پر علم کے دروازے بھی کھول دیے تھے‘ اس نے آج سے چالیس سال پہلے ایم اے کیا‘ یہ کالج میں لیکچرار ہو گئی‘ جوان تھی تو بے شمار رشتے آتے تھے لیکن گھر والوں نے ایک عجیب رشتے کا انتخاب کیا‘ یہ خاندان ایک غریب اور نادار بچے کی کفالت کر رہا تھا‘ خاندان نے اس بچے کو اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم دلائی تھی اور پندرہ بیس سال تک اس کے تمام اخراجات بھی برداشت کیے تھے۔
یہ بچہ جب تعلیم مکمل کر گیا تو خاندان نے گھر کی سب سے اچھی لڑکی اس کے عقد میں دینے کا فیصلہ کیا‘ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ بچہ ذہین تھا اور خاندان کا خیال تھا وہ اگر ان کے گھر میں بیاہا گیا تو اس کے لیے ترقی کے راستے کھل جائیں گے‘ شادی ہو گئی لیکن ایک سال بعد اس نوجوان نے سی ایس ایس کر لیا‘ وہ پولیس سروس میں آگیا اور نوکری ملتے ہی اس نے خاتون کو طلاق دے دی‘ یہ شخص حقیقتاً حضرت علیؓ کے اس قول کی عملی تفسیر تھا آپؓ نے جس میں فرمایا تھا تم جس پر احسان کرو۔
اس کے شر سے ڈرو‘ یہ شخص بعد ازاں پولیس کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچا اور آخر میں ذلیل ہو کر ریٹائر ہوا لیکن یہ شخص ہماری کہانی کا حصہ نہیں‘ یہ محض ایک کریکٹر تھا جو آیا اور کھیل سے خارج ہو گیا‘ طلاق کے بعد خاتون کا دل ٹوٹ گیا‘ اس نے دوسری شادی کرنے سے انکار کر دیا اور باقی زندگی خاندان کے لیے وقف کر دی‘ اس نے والد اور والدہ کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا‘ اس دوران اس کے بڑے بھائی کی شادی ہوئی‘ اس شادی سے میرا دوست پیدا ہوا۔اس دوست کو اس خاتون نے اپنا بیٹا بنا لیا اور یہ اپنی مظلوم اور معصوم پھوپھی کی گود میں پرورش پانے لگا‘ اس خاتون کی زندگی آنے والے دنوں میں سکڑتی چلی گئی‘ یہ اس بچے‘ اپنے والدین اور اپنے بھائیوں کی خدمت تک محدود ہو گئی‘ اس دوران وقت کے پتے جھڑتے گئے اور اس پت جھڑ کے دوران اس کے والدین ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے‘ خاتون کے والد کو جب دفن کیا گیا تو ان کے ساتھ ایک مصنوعی قبر بنا دی گئی۔
یہ کینٹ کا قبرستان ہے اور اس قبرستان میں بعض اوقات جگہ کا حصول مشکل ہو جاتا ہے چناںچہ خاندان نے گورکن سے درخواست کی اور گورکن نے والد کی قبر کے ساتھ مٹی کی ڈھیری بنا کر اگلی قبر ’’بک‘‘ کر دی‘ خاندان کے لوگ جب والد کی قبر پر فاتحہ کے لیے جاتے تھے تو وہ اکثر سوچتے تھے یہ قبرپتہ نہیں کس کے حصے میں آئے گی اور اس قبر کا حق دار بالآخر یہ مظلوم‘ معصوم‘ سادہ اور نیک خاتون بنی لیکن ابھی اس کہانی کا وہ پہلو باقی ہے جس کی وجہ سے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا‘ میں واپس اپنے دوست کی طرف آتا ہوں‘ میرے اس دوست سے دس گیارہ سال کی عمر میں ایک غلطی ہو گئی اور یہ غلطی اس کے ضمیر میں کانٹا بن کر پوری زندگی کے لیے پیوست ہو گئی۔بچپن میں اس نے ایک دن اپنی والدہ سے اپنی پھوپھی کی شکایت کر دی‘ یہ شکایت جھوٹی تھی‘ والدہ پھوپھی کے ساتھ ناراض ہو گئی‘ ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو والدہ پھوپھی کے ساتھ لڑ پڑیں‘ پھوپھی پریشان ہو گئی‘ اس نے بچے کو آواز دی‘ میرا دوست دونوں کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ والدہ نے پھوپھی کے منہ پر بات کہنے کا کہا‘ بچے نے پھوپھی کو دیکھا اور وہ جھوٹ ان کے منہ پر بھی دہرا دیا‘ پھوپھی پہلے حیران ہوئی‘ پھر وہ مسکرائی‘ اس نے بچے کو اپنے ساتھ لگایا اور اپنی بھاوج سے کہا ’’ اگر میرا بیٹا کہہ رہا ہے تو پھر یہ بات ٹھیک ہوگی۔
میں نے واقعی اسے کہا ہو گا‘‘ یہ لفظ اس وقت تیر بنے اور سیدھے میرے دوست کے دل میں لگ گئے‘ آج چالیس کی عمر میں بھی یہ لفظ اس کے دل میں پیوست ہیں اور یہ خیال کی انگلیوں سے انھیں روز سہلاتا ہے اور بے چین ہوتا ہے‘ وہ دن اور آج کا دن میرا دوست روزانہ سوچتا ہے وہ اپنی پھوپھی کے پاس جائے اور اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگے لیکن شروع میں شرمندگی‘ تاسف اور خجالت نے اسے موقع نہیں دیا اور بعد ازاں زندگی کی مصروفیات معافی کے راستے میں حائل ہو گئیں۔
یہ کہانی حقیقتاً ایک معصوم اور سادہ داستان ہے اور ہم سب اس داستان کا حصہ ہیں‘ یہ تاسف کے تانے اور پیٹے سے بُنی ہوئی داستان ہے اور ہم سب اس کے کسی نہ کسی سرے سے بندھے ہیں‘ میرے دوست کی پھوپھی سوشل خاتون تھی لیکن جب اس کے رشتے ایک ایک کر کے جھڑ گئے تو یہ تنہائی کا شکار ہو گئی‘ والدین فوت ہو گئے‘ بہنیں اور بھائی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے‘ ان کے بچے بڑے ہوئے‘ ان کی شادیاں ہوئیں اور وہ بھی اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات میں الجھ گئے‘ میرا یہ دوست بھی زندگی کی رو میں بہنے لگا لیکن اس دوران یہ جب بھی اپنے آبائی شہر جاتا تھا۔
یہ اپنی پھوپھی سے ضرور ملتا تھا‘ پھوپھی اب تنہائی اور اکیلے پن کا شکار ہو گئی تھی‘ اس کی زندگی صرف ایک کمرے تک محدود تھی‘ وہ قرآن مجید پڑھتی تھی‘ نماز پڑھتی تھی‘ کتابیں پڑھتی تھی اور ذرا دیر کے لیے ٹیلی ویژن دیکھ لیتی تھی‘ اسے کمرے سے باہر نکلے ہوئے مدتیں ہو جاتی تھیں‘ میرے دوست نے ایک دن تخمینہ لگایا تو معلوم ہوا پھوپھی کو کسی ریستوران میں کھانا کھائے کئی سال گزر چکے تھے اور انھوں نے مہینوں سے گھر کی سڑک پار نہیں کی تھی۔
میرے دوست نے سوچا یہ بھی میری ماں ہیں اور مجھے چاہیے میں انھیں کسی ریستوران میں لے کر جاؤں‘ میں انھیں کسی پارک میں لے جاؤں اور انھیں شاپنگ یا ڈرائیو کے لیے باہر لے جاؤں‘ اس سے ان کا دل بھی بہل جائے گا اور یہ تبدیل ہوتی ہوئی زندگی کا مشاہدہ بھی کر سکیں گی‘ میرے دوست کا خیال تھا پھوپھی نے برسوں سے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر رکھا تھا اور اسے یہ تک علم نہیں تھا کہ شہر میں کس قدر تبدیلیاں آ چکی ہیں اور سماجی زندگی اب تک کتنی کروٹیں لے چکی ہے۔
میرا دوست ہر بار یہ منصوبہ بناتا‘ یہ اپنے آبائی شہر جاتا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی ناگہانی مصروفیت اس منصوبے کا راستہ کاٹ جاتی‘ کسی دن اس کا بستر سے نکلنے کو دل نہ کرتا‘ کسی دن یہ اپنے کسی بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا‘ کسی دن بیوی کے ساتھ فلم دیکھنے چلا جاتا اور کسی دن کوئی دوست اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لے جاتا اور یوں پھوپھی کو باہر لے جانے کا منصوبہ اگلی وزٹ پر شفٹ ہو جاتا‘ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا یہاں تک کہ پچھلے ہفتے میرے دوست نے فیصلہ کیا وہ اس ویک اینڈ پر پھوپھی کو باہر ضرور لے کر جائے گا۔
یہ انھیں کمرے سے نکالے گا‘ یہ انھیں ان کی پسند کے ریستوران میں لے کر جائے گا‘ انھیں شاندار کھانا کھلائے گا اور آخر میں ان سے بچپن کے جھوٹ پر معافی مانگے گا‘ میرے دوست کا یہ فیصلہ مضبوط بھی تھا اور اٹل بھی لیکن یہ فیصلہ ویک اینڈ آنے سے پہلے ہی ہوا میں اڑ گیا‘ میرے دوست کو رات ساڑھے تین بجے اطلاع آئی ’’ پھوپھی جان انتقال کر گئی ہیں‘‘ یہ فوری طور پر آبائی شہر کی طرف دوڑا‘ یہ گھر پہنچا تو پھوپھی کا جنازہ تیار تھا‘ یہ انھیں لے کر قبرستان پہنچا اور پھوپھی کو دادا کے پہلو میں دفن کر دیا لیکن میرے دوست کا تاسف زندہ رہ گیا‘ اس کے اندر چھوٹی سی معافی اور چھوٹا سا کھانا چھیلے ہوئے پھوڑے کی طرح رسنے لگا۔
میں نے شروع میں عرض کیا تھا‘ یہ ایک معصوم سی‘ سادہ سی اور چھوٹی سی داستان ہے‘ یہ داستان ختم ہو گئی لیکن اس چھوٹی سی داستان میں چھپا ملال کبھی ختم نہیں ہوگا‘ ہم سب لوگوں نے اپنے دلوں میں معافیوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے‘ ہم سب کسی نہ کسی پھوپھی‘ کسی نہ کسی چچا‘ اپنے والد‘ اپنی والدہ یا اپنے کسی عزیز‘ دوست اور رشتے دار کو اپنے قیمتی وقت کے چند لمحے دینا چاہتے ہیں‘ ہم کسی کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں یا ہم کسی کو بند کمرے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں لیکن زندگی کی مصروفیتیں ہمیں معافی مانگنے اور دوسروں کو خوش کرنے کا موقع نہیں دے رہیں۔
ہم وقت کے گرداب سے باہر نہیں جھانک پا رہے چنانچہ ہماری معافیوں اور ہماری توجہ کے حق دار ایک ایک کر کے قبروں میں اترتے جا رہے ہیں اور ان کی قبریں ہمارے احساس ندامت کے بوجھ میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی ہم لوگ چند سیکنڈ اور دو فقروں کی معافی کو چالیس چالیس سال تک کیوں پھیلا دیتے ہیں اور ہم اپنے رشتوں کو ذرا سی خوشی دینے کے لیے دس دس سال تک کیوں سوچتے رہتے ہیں‘ ہم آج کا کام کل اور کل کی خدمت بیس پچیس سال تک کیوں پھیلا دیتے ہیں‘ میرا خیال ہے ہم سب اس سادہ سی‘ چھوٹی سی اور معصوم سی داستان کے فرعون ہیں جو دریائے نیل کے غوطوں سے پہلے حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے‘ ہم سستی اور کاہلی کے وہ غلام ہیں جو خود خوش رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو خوش دیکھ سکتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔