dehaari dar mazdoor trolling kar rhe hein | Asma Sherazi

دیہاڑی دار مزدور ٹرولنگ کررہے ہیں،عاصمہ شیرازی

خصوصی رپورٹ۔۔

پاکستان میں صحافیوں کے کام پر تنقید اور سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں لیکن جب بات آتی ہے خاص طور پر خواتین صحافیوں کی تو یہ تنقید صرف ان کے کام تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کی ذات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔کچھ ایسا ہی پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ بھی ہوا جب منگل کے روز ان کا ایک کالم بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔اس کالم کے شائع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شامل وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور وزیراعظم عمران خان کے مشیروں اور معاونین کی جانب سے ان کے کالم کا ایک مخصوص حصہ اٹھا کر اس پر سخت تنقید کی۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے ماضی میں کیے گئے کام کی ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ٹیلیفونک انٹرویو کرتی سنائی دیتی ہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی آفیشل اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے ماضی میں کام سے متعلق متعدد ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی شائع کی گئیں جن میں ان پر سیاسی جانب داری کا الزام عائد کیا گیا۔لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب صحافی عاصمہ شیرازی کو پی ٹی آئی حامی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے قبل جون میں بھی انھیں انڈیا سے چلنے والی ایک ویب سائٹ سے منسلک کر کے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان پر الزام عائد کیے گئے تھے۔یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست میں پاکستان کی کچھ معروف خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے اور ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ہے۔

عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنے خلاف گذشتہ روز سے جاری سوشل میڈیا ٹرولنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح سے رکن پارلیمان، معاونین اور کابینہ کے اراکین کی جانب سے منظم انداز میں ٹرولنگ کی جا رہی ہے یہ دراصل گالم گلوچ کے ذریعے آواز دبانے کی کوشش ہے جو اس حکومت کا کام رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اس کے لیے پراپیگینڈا اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور پھر دیہاڑی دار سوشل میڈیا مزدوروں کو اس کام پر لگا دیا جاتا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں خاتون صحافیوں کو اتنی بری طرح نشانہ بنانے کی وجہ کیا ہے، عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’اس لیے کہ خواتین کو نشانہ بنانا آسان ہے۔ یہاں مرد صحافیوں کو بھی ٹرول کیا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں لیکن خاتون صحافیوں کی ذاتیات پر بات کی جاتی ہے، ان پر جنسی نوعیت کے تبصرے کیے جاتے ہیں اور اس طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’خواتین پر ذاتی حملوں کے ذریعے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تسلسل کب ٹوٹے گا اور اس کا حل کیا ہے تو عاصمہ نے کہا کہ ’اس کا کوئی حل نہیں۔ جب ایک فاشسٹ حکومت برسرِ اقتدار ہو تو جمہوریت اور جمہوری اقدار اس کی ضد بن جاتے ہیں۔پچھلی حکومتوں پر بھی تنقید کی جاتی تھی، مشرف دور میں میرا پروگرام چار مہینے بند رہا، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی تنقید کی،اور ن لیگ پر بھی تنقید کی لیکن اس حکومت کو اس کی پرفارمنس دکھائی جائے تو جواب میں گالی سننے کو ملتی ہے۔انھوں نے مزید کہا ’جس طرح سے تنقید کا اثر اس حکومت پر ہوتا ہے، وہ بہت ہی برا ہوتا ہے اور اس کے ردِ عمل میں جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، ذاتی حملے کیے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس کا حل یہی ہے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد اس رویے کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں کیونکہ ’صحافیوں کی آوازیں تو کسی صورت بھی دبائی نہیں جا سکتیں۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں