تحریر: طارق حبیب۔۔
تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ ”ڈیپ ڈارک ویب‘‘ کیا ہے، نہ یہ جانتے ہو گے کہ اس میں ہوتا کیا ہے۔ مجھے انجان سمجھ کر انہوں نے اپنی بات جاری رکھی ” یہ ایک مکروہ کاروباری دنیا ہے، اس میں چیخیں بکتی ہیں، ننھے معصوم فرشتوں کی چیخیں‘ جتنی دردناک چیخیں ہوں گی، جتنا وہ ننھا فرشتہ تکلیف و اذیت میں ہوگا اتنی ہی قیمت بڑھے گی‘‘۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی واضح تھی، ”ہم بھی انسان ہیں، ان معاملات کی تحقیقات کے دوران جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مجھ سمیت جن افسران نے وہ وڈیوز دیکھیں، اول تو وہ مکمل وڈیو دیکھ ہی نہ پائے اور جو دیکھا‘ اس دوران بھی ان کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں‘‘۔ ایف آئی اے کے ان سابق اعلیٰ افسر سے جب میں چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے ملاقات کے لیے پہنچا تو انہوں نے جو تفصیلات بتائیں انہیں سن کر روح کانپ گئی۔ ملاقات کے دوران چائے کب آئی، کب ٹھنڈی ہوئی کچھ پتا نہ چلا۔ اگرچہ انہوں نے مجھے کہا کہ تم نہیں جان سکتے کہ یہ تفصیلات تمہیں بتاتے ہوئے میری کیا حالت ہے مگر میں ان کی کیفیت اچھی طرح دیکھ رہا تھا۔ جب وہ مجھے حقائق بتا رہے تھے تو ان کی گود میں ان کا 5 سالہ نواسہ تھا۔ وہ اسے لاشعوری طور پر اپنی شال میں چھپائے جا رہے تھے۔ کہنے لگے کہ سب سے پہلے اس بھیانک کاروبار کا انکشاف آپ کی صحافی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کیا تھا مگر اس مکروہ دھندے کے ”درپردہ حمایتیوں‘‘ نے ایسا ماحول بنا دیا کہ ان صاحب کو خاموشی اختیار کرتے ہی بن پڑی۔ جانتے ہو ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ اگر ان کی بات کو ٹھیک تسلیم کر لیا جاتا تو پھر حکومت سمیت کئی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھتے جو اربابِ اختیار کو کسی صورت قبول نہ تھا، بس اس نام نہاد کارکردگی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ان کا مذاق بنا دیا گیا۔ بعض دوسرے افراد بھی ان کے خلاف سرگرم ہوگئے جیسے انہوں نے درندوں کو منظر عام پر لاکر کوئی عظیم جرم کردیا ہو، صرف ہم لوگ جانتے تھے کہ وہ بالکل ٹھیک بات کر رہے تھے مگر سرکار ی ملازم ہونے کی وجہ سے ان کی حمایت میں کھل کر سامنے نہیں آ سکتے تھے۔میرے ان دوست نے جو بتایا‘ اس کا تصور بھی محال ہے، انسان جیتے جی مر جائے، ایسی بھیانک درندگی کہ اسے بیان کرنے کے لیے شاید لغت میں الفاظ بھی موجود نہ ہوں۔ پھر ان معلومات کا بڑا حصہ ایسا تھا کہ جسے زیر قلم لانا دراصل ان بھیانک کرداروں کی مدد کرنے کے مترادف ہو گا، اس لیے اس حصے پر بات نہیں کر سکتے۔ ملاقات کے اختتام پر جب میں نے اپنے ان دوست سے پوچھا کہ ان مجرموں کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ تو ان کا سادہ سا سوال نما جواب تھا، ”اگر کتا پاگل ہو جائے تو آپ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ دنیا بھر میں ان پاگل کتوں کا یہی علاج (سزائے موت) ہے ، بس ہمارا معاشرہ ہے جہاں ان درندوں کا علاج نہیں ہو پاتا، کبھی سول سوسائٹی سزائے موت کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے تو کبھی نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور کبھی قانونی پیچیدگیاں‘‘۔
اپنے ان دوست سے ملنے والی معلومات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں کہ جو کراچی میں دھماکوں کی کوریج، لاشوں اور گولیوں کے درمیان کبھی کمزور نہ پڑا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران وار زون ایریا ز میں رپورٹنگ کے دوران کبھی نہ گھبرایا تھا‘ گرفتار مجرموں سے ملنے والی تفصیلات اور وڈیوز کا احوال جان کر ایسا لگا کہ دل پھٹ جائے گا، ضبط پر قابو نہ رکھ سکا۔ گھر پہنچا تو سب سے پہلے اپنے بچوں کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگیں کہ یا اللہ! ہمارے بچوں کو اپنی امان میں رکھنا۔ رات گئے کالم لکھنے بیٹھا تو وہ ڈائری کھولی جس میں اپنے دوست سے گفتگو کے دوران نوٹس لیے تھے۔ ان اوراق میں مختلف جگہوں پر قلم کی سیاہی پھیل چکی تھی جو آگہی کا کرب ناقابل برداشت ہونے کا شاخسانہ تھی۔ پتا یہ چلا کہ ہمیں اپنی اولاد کو بچانے کے لیے ماضی میں لوٹنا پڑے گا جہاں سول سوسائٹی اس قدر مضبوط تھی کہ اولاد، مائیں، بہنیں سانجھی ہوتیں تھیں۔ ورنہ تو درندے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔2011ء میں چائلڈ پورنوگرافی کے بین الاقوامی ریکٹ کا رکن گرفتار ہوا تو پتا چلا کہ اس گروہ کے 300 افراد ملک بھر میں سرگرم ہیں مگر اس مکروہ دھندے کے کرداروں تک پہنچنا کوئی آسان نہ تھا۔ 2015ء میں قصور میں 280 بچوں سے زیادتی کی وڈیوز پکڑی گئیں تو کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا مگر پھر خاموشی چھاگئی۔ جب اسی بین الاقوامی مکروہ کاروبار سے منسلک کارندے 2016ء میں فیصل آباد، 2017ء میں راولپنڈی اور سرگودھا اور 2018ء میں ایبٹ آباد سے گرفتار ہوئے توان سے ملنے والی معلومات اگرچہ قیمتی تھیں مگر اس گروہ کا مکمل خاتمہ کرنے کے قابل نہ تھیں۔ 2019ء میں ایک ایسا درندہ بھی گرفتار ہوا جو ماضی میں معصوم بچوں سے زیادتی اور ان کی وڈیوز بنانے کے جرم میں اٹلی اور برطانیہ میں سزا کاٹنے کے بعد پاکستان ڈی پورٹ ہوا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے بعد 2017ء میں خیبرپختونخوا حکومت نے اس کو بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے چلنے والے ایک اہم منصوبے کا کنسلٹنٹ تعینات کر دیا۔ سہیل ایاز نامی یہ بدبخت وہاں بھی اپنی جبلت سے باز نہ آیا اور اس وقت گرفتار ہوا جب دس سالہ ایک بچے کی ماں نے اپنے بچے سے زیادتی کی ایف آئی آر میں اسے نامزد کیا۔ بے حسی کی انتہا کیا ہوگی کہ اس شخص کے اعترافی بیان نے سب کو دہلا کر رکھ دیا مگر اربابِ اختیار پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پتا چلا کہ صرف راولپنڈی میں یہ شخص 30 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی وڈیوز ڈارک ویب کو فروخت کر چکا ہے۔ لرزہ تو تب طاری ہوا جب جانا کہ اٹلی میں دوران حراست اس خبیث کے قبضے سے ایسی وڈیوز بھی ملی تھیں جن میں 6 ماہ کے پھولوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ڈیپ ڈارک ویب نامی جرائم کی اس بھیانک دنیا کے لیے پاکستان میں کام کرنے والے گرفتار ملزمان کے جب اٹلی، برطانیہ، ارجنٹائن اور برازیل میں بچوں کی وڈیوز کی فروخت کے لیے رابطوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے تانے بانے کہاں کہاں سے جڑے ہوئے ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ اس گھنائونے کاروبار سے منسلک افراد خود کسی سے رابطہ نہیں کر سکتے بلکہ انٹرنیٹ پر سرچنگ کو بنیاد بناتے ہوئے بین الاقوامی گروہ کے کارندے خود ایسے ذہنی بیماروں سے رابطہ کرتے ہیںجن کی سرچنگ ہسٹری ایسی ویب سائٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔ پھر ایسے غلیظ کرداروں کو ساتھ ملا کر بچوں کو ورغلا کر اغوا کرنے اور زیادتی کرکے وڈیوز بنانے والے گروپوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہی اس بین الاقوامی نیٹ ورک کا طریقہ واردات ہے تاکہ اس کاروبار سے جڑے مجرموں کی شناخت ظاہر نہ ہو سکے۔ ویسے تو ملک بھر میں بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیںمگر پنجاب کے ایسے علاقے جو بین الاقوامی سرحد کے ساتھ ہیں‘ وہاں ان واقعات کی تعداد زیادہ ہے۔ ابتدا میں اس گروہ سے منسلک بدکرداروں کی تعداد کا اندازہ 300 لگایا گیا تھا مگر اب خدشہ ہے یہ تعداد 3 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ حاکم اگر اہل ہوں توان کے لیے گزشتہ سال کی نسبت رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 14 فیصد اضافے کی رپورٹ بھی لمحہ فکریہ ہوتی ہے مگر ان کا کیا کہنا جو اڑھائی سالوں میں یہ فیصلہ ہی نہ کر پائیں کہ ایسے مکروہ فعل کا ارتکاب کرنے والے کی سزا کیا ہونی چاہیے۔ دنیا میں تو ایسے گروہوں کی خاتمے کے لیے مختلف ونگز بنائے جا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اگر سائبر کرائم ونگ بنا ہی لیا ہے تو اسے اربابِ اختیار کے خلاف سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کی بیخ کنی کا فریضہ سونپ دیا گیا ہے۔ غرضیکہ دست بدستہ عرض ہے، اپنے پھولوں کی خود حفاظت کریں۔ رب باری تعالیٰ سے بس یہی دعا ہے کہ ؎
فتنے برس رہے ہیں، روحیں پگھل رہی ہیں
کڑی دھوپ ہے خدایا! رحمت کاسائباں دے۔۔(بشکریہ دنیا)