جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میرنے کہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیارنے کورونا وائرس سے لڑنے کی بجائے میڈیا سے لڑنا شروع کردیا ہے، پہلے مرحلہ میں جنگ جیو سے لڑائی شروع کی گئی ہے باقی مرحلوں میں دیگر ٹی وی چینلز اور صحافیوں سے لڑائی لڑی جائے گی، ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ آزادیٴ صحافت پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ بھی لڑنا ہے، سب کو پتہ ہے کونسی پی ایف یو جے آزادی صحافت کیلئے کھڑی ہوتی ہے۔ میزبان شہزاد اقبال نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں صحافتی برادری، عالمی صحافتی ادارے، امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ملکوں کی حکومتیں اور ملک کی سیاسی جماعتیں سب اس بات پر متفق ہیں کہ جیو اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کرپشن یا مالی بدعنوانی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ واضح طور پر میڈیا پر حملہ ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومت صحافیوں سے لڑنا چاہتی ہے تو لڑ کر دیکھ لے پہلے بھی کئی حکومتیں لڑچکی ہیں، قلم کی آبرو کیلئے ہم اپنا سب کچھ لٹادیں گے، ہم حکومت اور جمہوریت کا نقصان نہیں کرنا چاہتے لیکن جب گرفتاریاں ہوں گی تو ردعمل آئے گا۔آج اگر جیو جنگ کیخلاف کارروائی ہورہی ہے تو دیگر ادارے یاد رکھیں کل آپ بھی بند ہوں گے، حکومت شروع سے کہہ رہی ہے کہ اخبارات اور نیوز میڈیا نہیں چلے گا، صحافیوں کا معاشی قتل ہوتا ہے تو اس کا الزام بھی حکومت پر لگے گا۔سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ماضی میں بھی نواز شریف دور میں جنگ گروپ کیخلاف کارروائی ہوئی، اس وقت بھی نواز شریف سے کہا تھا کہ اقتدار اور اخبار کی لڑائی میں کبھی اقتدار نہیں جیتتا ہے، میرشکیل الرحمن پر الزام کیا ہے اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔
سینئر اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عمران خان کو عوام سے زیادہ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے کی فکر ہے، تحریک انصاف کے وزیر اور بہت سے رہنما میرشکیل الرحمن کی گرفتاری درست نہیں سمجھتے لیکن خاموش ہیں، انہیں پتا ہے کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کیخلاف بات کی تو وزیراعظم ان سے ناراض ہوجائیں گے، وزیراعظم کا میر شکیل الرحمن کی گرفتاری سے تعلق نہیں تو جیو کو بند کیوں کروایا ہے۔ سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے بعد جیو کی بندش نے واضح کردیا کہ یہ انتقام کا معاملہ ہے، میڈیا کو بھی اپنی خود احتسابی کرنی چاہئے، میڈیا کو ریٹنگ، بریکنگ اور کریڈٹ کے چکر سے نکلنا چاہئے۔ٹی وی اینکر پرسن عنبر شمسی نے کہا کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ ایک چینل کو ہدف بنایا جارہا ہے لیکن باقی چینلز آواز نہیں اٹھارہے، اگر میڈیا میں اتحاد ہو تو کسی کو اس طرح ہدف نہیں بنایا جاسکتا، صرف حکومتی اشتہارات ہی نہیں پرائیویٹ سیکٹر کی بھی جنگ اور ڈان اخبار میں اشتہارات دینے کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری سیاسی بنیاد پر اور امتیازی سلوک پر مبنی ہے، ڈان اور جنگ میڈیا گروپس ٹارگٹ پر ہیں، جنگ اور ڈان کیخلاف مسلسل چار سال سے مہم چلائی جارہی ہے، پی ایف یو جے جنگ، جیو اور میر شکیل الرحمن کے ساتھ کھڑی ہے، پاکستان میں آزادیٴ صحافت کے کردار کی پاداش میں انہیں سزا دی جارہی ہے۔سینئر تجزیہ کار نسیم زہرہ نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری میڈیا کی آواز دبانے کی ایک کوشش ہے، جیو تک حکومت اب پہنچی ہےایک اور نجی چینل کو پچھلے ایک سا ل میں کئی دفعہ بند کیا گیا جبکہ دو تین ہفتے سے بہت نچلے نمبروں پر پھینکا جارہا ہے، ایسی حرکات سے حکومت کی کمزوریاں سامنے آتی ہیں، میر شکیل الرحمن کو ہر صورت عدالت سے رہائی ملے گی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ سب کو پتا ہے کون سی پی ایف یو جے آزادیٴ صحافت کیلئے کھڑی ہوتی ہے، فردوس عاشق اعوان پرویز مشرف کے دور کی سیاسی پیداوار ہیں اور میڈیا کو تقسیم کرنے کیلئے انہی کے دو ر کی حکمت عملی استعمال کررہی ہیں۔جنگ جیو اور ڈان کے علاوہ پانچ چھ دیگر چینلز بھی ٹارگٹ ہیں، میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے پیچھے اصل ٹارگٹ شاہزیب خانزادہ ، حامد میر، جیو کے دیگر اینکرز، جنگ کے کالم نگار اور دی نیوز کے رپورٹرز ہیں، شاہزیب خانزادہ کے پروگرام کو پیمرا کے نوٹس سے ایک دن پہلے نیب نے میر شکیل الرحمن کو بلایا۔
اس کے بعد جب میں نے شاہد خاقان عباسی سے پوچھا کہ چیئرمین نیب کا تقرر آپ نے کیا آپ کو سزا ملنی چاہئے اس کے اگلے دن 10مارچ کو میر شکیل الرحمن کو دوبارہ نیب میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کردیا گیا۔حامد میر نے کہا کہ پچھلے سال جولائی میں اب تک اور چینل 24پر پیمرا نے پابندی لگائی تو اس پرہم نے یوم احتجاج منایا تھا، پی ٹی آئی کے سپورٹرز سوشل میڈیا پر 30صحافیوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کررہے تھے میں نے اس پر پی ایف یو جے کی میٹنگ میں تقریر کی تھی جس کی ویڈیو دیکھ کر شاید عمران خان نے مجھے ان فالو کردیا۔حامد میر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ملازمین کی تنخواہوں میں تاخیر کے معاملہ پر میری سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی، اس کمیٹی میں میر شکیل الرحمن بھی پیش ہوئے اور کھل کر باتیں کیں، شکیل صاحب نے سپریم کورٹ میں دستاویزات پیش کیں کہ میں نے اپنی جائیدادیں بینکوں کو گروی رکھ کر کارکنوں کی تنخواہیں ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس وقت ہمیں پتا چلا کہ جوہر ٹاؤ ن کی جس زمین پر نیب نے میر شکیل الرحمن کو اغوا کیا اور حبس بے جا میں رکھا ہے یہ زمین بھی انہوں نے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے گروی رکھی تھی۔جس شخص کے بارے میں فردوس عاشق اعوان کہہ رہی ہیں کہ سیٹھ کا مسئلہ ہے اور جس کیس پر ان کو گرفتار کیا گیا ہے یہ زمین شکیل الرحمن صاحب نے اپنے فیملی ممبر سے لے کر بینک کو گروی رکھوا کر کارکنوں کی تنخواہیں ادا کی ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ نیب نے میر شکیل الرحمن کو حبس بے جا میں رکھنے کے بعد ان کے ادارے کے پرانے لوگوں کو اپروچ کرنا شروع کیا ہے لیکن ان سے زمین کے بارے میں نہیں کچھ اور پوچھ رہے ہیں، صحافیوں کو اس صورتحال میں متحد ہو کر کنفیوژن سے نکلنا چاہئے۔عالمی صحافتی و انسانی حقوق کے ادارے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی بات کرتے ہیں تو سب اسے سراہتے ہیں اب یہی ادارے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کی بھی مذمت کررہے ہیں،کل جیو اور جنگ اسلام آباد کے دفتر کے باہر مظاہرے میں صحافی برادری اکٹھی نظر آئے گی۔