پاکستان ہیرالڈ پبلی کیشن کی اشتہارات کی بندش کے خلاف درخواست کی سماعت پر سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ اطلاعات اور پی آئی ڈی کو 10 مارچ کے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔سندھ ہائی کورٹ میں پاکستان ہیرالڈ پبلی کیشن کی اشتہارات کی بندش کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے سیکریٹری محکمہ اطلاعات اور پی آئی ڈی کو 10 مارچ کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ہیرالڈ کے سی ای او حمید ہارون کی جانب سے درخواست دائرکی گئی اور موقف اختیار کیاگیا کہ جنوری 2020 سے بغیروجہ بتائے روزنامہ ڈان کےاشتہارات کو بند کردیا گیاہے اور ایسا کرنابدنیتی پرمبنی ہے۔پی ایچ پی ایل اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حمید ہارون کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں سیکریٹری اطلاعات و نشریات کے ذریعے وفاق اور وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن افسر کے ذریعے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے اور پبلی کیشن کو اس کی کوئی وجہ سے آگاہ نہیں کیا گیا، حالانکہ دہائیوں سے ڈان کو اشتہارات دیے جارہے ہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ ڈان کو سرکاری اشتہارات دینے پر پابندی کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے، درحقیقت ڈان کو اپنے مختلف ایڈیشنز میں ان آرا اور رپورٹس شائع کرنے پر سزا دی جارہی ہے جو وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام کی آرا اور رپورٹس کے موافق نہیں تھیں۔ درخواست گزار نے کہا کہ ʼڈان کے اشتہارات روکنا اور پابندی عائد کرنا اخبار کے آزادی صحافت کے بنیادی حق پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ رپورٹرز کو حالیہ بریفنگ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ڈان پر نومبردوہزار اٹھارہ میں ان کے چین کے پہلے دورے کے دوران جعلی خبریں شائع کرنے کا الزام لگایا، حالانکہ الزام کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ درخواست کے مطابق اسی طرح کی خبریں اور تبصرے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئے جنہیں سرکاری اشتہارات دیے جارہے ہیں بلکہ حقیقتاً ڈان کے اشتہارات روکنے کی وجہ سے ان کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے۔اس میں مزید کہا گیا کہ ڈان میٹروپولیٹن اے کٹیگری کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبارات میں شمار ہوتا ہے، اخبار کی سرکولیشن کے اعداد و شمار حکومت کے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ ʼڈان اخبار کو اس کی نیوز کوریج، تبصروں اور فیچرز کے معیار اور معروضیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے، اخبار کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہے جو ایک وجہ ہے کہ عوام غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور تجزیوں کے باعث اسے پسند کرتے ہیں۔درخواست کے مطابق اخبار کی ادارتی ٹیم آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتی ہے جس کے امور میں انتظامیہ اور مالکان کا کوئی عمل دخل نہیں، تاہم اخبار اس کی چھپائی کی لاگت سے کم قیمت میں فروخت کیا جاتا ہے اور اشتہارات کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے اس کی قیمت فروخت کو سبسیڈائزڈ کیا جاتا ہے۔درخواست گزار نے کہا کہ وفاقی حکومت اشتہارات کا بڑا ذریعہ ہے اور وفاقی حکومت کے ماتحت وزارتیں، ڈویژنز اور اداروں کی جانب سے عوامی سطح کے نوٹسز اور آگاہی مہم جاری کیے جاتے ہیں۔
ڈان کا ہائیکورٹ میں کیس، نوٹس جاری۔۔
Facebook Comments