فلم ساز جمشید محمود جنہوں نے رواں برس اکتوبر میں ایک میڈیا ٹائیکون پر ریپ کا الزام عائد کیا تھا اب انہوں نے اپنے مبینہ ریپسٹ کے طور پر ڈان کے سی ای او حمید ہارون کا نام لیا ہے۔جامی کی عرفیت سے مشہور ڈائریکٹر نے اپنا پرانا ٹوئٹر اکاؤنٹ مبینہ طور پر ہیک ہونے کے بعد نیا اکاؤنٹ بنا کر ہفتے کی رات ایک ٹوئٹ کی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا، اس کے ساتھ جامی نے اپنے فیس بک پیج پر بھی یہ الزام پوسٹ کیا تھا۔جس کے جواب میں حمید ہارون نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ریپ کے الزامات کو بالکل مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہانی جھوٹی ہے اور اُن (لوگوں) کے ایما پر جان بوجھ کر گھڑی گئی جو مجھے خاموش کروانا چاہتے ہیں اور میرے ذریعے اس اخبار کو اپنے جابرانہ بیانیے کی حمایت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جس کی میں نمائندگی کرتا ہوں’، اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ‘وہ قانونی کارروائی کریں گے‘۔
حمید ہارون کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اپنے نام اور ساکھ کی خاطر اور آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے ان تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کررہا ہوں جو میرے خلاف بدنیتی پر مبنی جھوٹے الزامات لگانے کے ذمہ دار ہیں‘۔واضح رہے کہ جامی پاکستانی میڈیا انڈسٹری کا ایک معروف نام ہیں جنہوں نے 2014 میں فلم زیرو ٹو ون (021) اور مور کی ہدایات دیں تھیں جو 2015 میں پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد کی گئی تھی۔دوسری جانب حمید ہارون میڈیا برادری کی ایک مشہور شخصیت ہیں اور متعدد ٹرسٹس اور تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں ثقافت کے تحفظ اور فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔
بعدازاں ڈان کے سی ای او کے جاری کردہ بیان پر ردِ عمل میں جامی نے ایک اور ٹوئٹ کیا۔انہوں نے کہا کہ انہیں خوف ہے کہ ان کے خلاف یہ کہا جائے گا کہ ’یہ ڈان کو نیچا دکھانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ ہے جس کا میں حصہ ہوں‘۔ہدایت کار نے یہ بھی واضح کیا کہ ‘اس کہانی کو سامنے لانے کا مقصد ڈان بمقابلہ جامی نہیں، یہ ایک ذاتی معاملہ ہے جسے اب اٹھایا گیا ہے کیوں کہ میں برسوں سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے یہ سب کررہا ہوں‘۔
انہوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ وہ کسی کی ایما پر کام کررہے ہیں حالانکہ ’ڈان کو نیچا دکھانے‘ کی امید کے ساتھ ان سے رابطہ بھی کیا گیا۔جامی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے ہر مرتبہ منع کیا اور انہیں کہا کہ میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو کسی مقصد کی تکمیل کے لیے کوئی غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کرتا‘ باقی ہم عدالت میں دیکھیں گے۔۔جامی نے کہا کہ یہ متاثرہ افراد اور اس سے گزرنے والوں کے لیے ہے ہم نے اپنا سر بلند کیا کیوں کہ پاکستان میں ان تمام خراب حربوں کی وجہ سے می ٹو مہم دم توڑ گئی تھی‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’میں ڈان انتظامیہ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی ڈان کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا، مسئلہ جنسی استحصال ہے ڈان نہیں‘۔
حمید ہارون کا تفصیلی بیان: مندرجہ ذیل بیان حمید ہارون کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
اب سے تقریباً 3 ماہ قبل سوشل میڈیا اور کچھ پرنٹ میڈیا میں جامی رضا کی جانب سے کی گئی ٹوئٹس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ جامی کو کئی سال قبل ریپ کا نشانہ بنایا گیا جس کے بارے میں وہ صرف اب بات کررہے ہیں کیوں کہ ریپسٹ ’ایک طاقتور اور بااثر میڈیا شخصیت‘ ہے۔
تاہم حیرت انگیز طور پر اس وقت تک ریپسٹ کا نام نہیں لیا گیا تھا حالانکہ وقت کے ساتھ جاری کیے گئے اشاروں کنایوں میں ایسا معلوم ہورہا تھا کہ یہ ڈان کے سی ای او حمید ہارون کی بات کی جارہی ہے۔بیان میں کہا گیا ’چونکہ ٹوئٹس میں بطور خاص میرا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن مجھے اندازہ تھا کہ جامی رضا کو کون آگے بڑھا رہا تھا اس لیے مجھے مشورہ دیا گیا کہ جب تک خاص طور پر نام نہ لیا جائے میں تحمل اختیار کروں، 28 دسمبر کو جامی رضا نے میرا نام لیا اس لیے اس پر ردِ عمل دینا لازم ہوگیا‘۔حمید ہارون کے بیان کے مطابق ابتدا میں، میں ریپ، جنسی استحصال اور ہراسانی سے متاثر ہونے والوں کی مدد اور ان کی حمایت کرنے کا اپنا عزم دہراتا ہوں، اس قسم کے افعال جہاں بھی ہوں جس طرح بھی ہوں چاہیں کام کی جگہ پر ہوں یا باہر ہوں ان کی واضح طور پر مذمت کرتا ہوں۔بیان کے مطابق ’میں نے ہمیشہ ریپ، جنسی استحصال اور ہراسانی کے متاثرہ افراد کی حمایت اور ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا اس سے قطع نظر کہ قصوروار طاقتور ہے یا نہیں‘۔مذکورہ بیان میں کہا گیا کہ میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ بعض اوقات طاقتور گروہوں کی جانب سے اپنے سیاسی اور سماجی ایجنڈے کے تحت کسی شخص کی شہرت اور عزت خراب کرنے کے لیے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں اور اس طرح کسی خاص مقصد کے لیے کسی شخص کی ساکھ خراب کی جاتی ہے۔
حمید ہارون نے کہا کہ ’میں واضح طور پر جامی رضا کی جانب سے لگائے الزامات کو مسترد کرتا ہوں، یہ کہانی جھوٹی اور ارادتاً ان (لوگوں) کی ایما پر گڑھی گئی ہے جو مجھے خاموش کروانا چاہتے ہیں اور میرے ذریعے اس اخبار کو اپنے جابرانہ بیانیے کی حمایت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جس کی میں نمائندگی کرتا ہوں‘۔بیان میں بتایا گیا کہ ’میری جامی رضا سے پہلی ملاقات 90 کی دہائی یا 2000 کے آغاز میں اس وقت ہوئی جب وہ ایک فری لانس فوٹوگرافر اور ابھرتے ہوئے فلمساز تھے، یہ وہ وقت تھا جب جامی نے فنِ تعمیر کے تحفظ اور دستاویزی مقاصد کے تحت سر جہانگیر کوٹھاری پریڈ بینڈاسٹینڈ کی تصاویر بنائی تھیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں جامی کے کام سے بہت متاثر ہوا اور 04-2003 میں موہٹہ پیلس میوزیم میں ہونے والی صادقین نمائش کے کیٹلاگ میں ایک تصویری مضمون کے سلسلے میں ان کو تعاون کے لیے شامل کرلیا۔حمید ہارون کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد میں چند مرتبہ ان کے گھر گیا اور ان کے والد کی وفات پر تعزیت کی لیکن ان سے (وہاں) ذاتی طور پر ملاقات نہیں ہوئی نہ ہی مجھے یہ یاد ہے کہ میری جامی رضا کے ساتھ کبھی تنہائی میں ملاقات ہوئی ہو، میرے ان سے رابطے کا بس اتنا ہی خلاصہ ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’مجھے یقین ہے کہ معاشرے اور ریاست میں طاقتور مفادات رکھنے والوں کے اکسانے پر جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات لگائے گئے جو اپنے مقاصد اور اپنے جابرانہ بیانیے کے فروغ کے لیے میری ساکھ تباہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس اخبار کی ساکھ کہ جس سے میں وابستہ ہوں‘۔انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’یہ محض اتفاق نہیں کہ یہ خصوصی ٹوئٹ ایسے وقت میں سامنے آئی جب کچھ گروہ ڈان کے خلاف مظاہرے کررہے تھے اور پراسرار وال چاکنگ کی گئی جس میں ڈان کے سی ای او اور اس کے ادارتی عملے کو پھانسی دینے کے مطالبے کیے گئے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ان الزمات کے پسِ پردہ افراد کو بے نقاب کرنے کے لیے پُرعزم ہوں اور بغیر کسی خوف یا جانبداری کے درست اور منصفانہ رپورٹنگ کا علم بلند رکھنے کا وعدہ کرتا ہوں، جہاں تک بات ٹوئٹس اور کچھ اخباری رپورٹس کی ہے ’میں اپنے نام اور ساکھ کی خاطر اور آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے ان تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کررہا ہوں جو میرے خلاف بدنیتی پر مبنی اور جھوٹے الزامات لگانے کے ذمہ دار ہیں‘۔
ادارتی نوٹ: ڈان اپنے قارئین کو اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ اس کی مناسب انکوائری کروائی جائے گی۔یہ خبر 31 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔(بشکریہ ڈان )۔۔