تحریر: ملک سلمان۔۔
واٹس ایپ وائس نوٹ، تصویر اور ویڈیو نہ”سینڈ“ ہورہی ہے اور نہ ہی ڈاؤن لوڈ ہو رہی۔مبینہ طور پر یہ اقدام اداروں اور حکومت پر تنقید کو روکنے کیلئے کیا گیا ہے۔حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ یہ طریقے کارآمد نہیں رہے کیونکہ اب صارفین وی پی این استعمال کرنا جانتے ہیں اور تنقید اور گالیوں میں کمی کی بجائے الٹا اضافہ ہی ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ سلو کرنے سے آئی ٹی کا کام ٹھپ ہوکہ رہ گیا ہے کیونکہ آئی ٹی کمپنیوں کیلئے ہائی سپیڈ انٹرنیٹ ناگزیر ہے۔
جب سے انٹرنیٹ سلو کیا گیا ہے اسٹاک ایکسچینج80ہزار کی ریکارڈ پوزیشن سے گرتے 77ہزار 877پر آچکی ہے،ڈالر بلاناغہ ڈی ویلیو ہورہا ہے۔ان حالات میں کونسی کمپنی یا ملک سرمایہ کاری کرے گا؟پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جو سالانہ تقریباً چار سو ملین ڈالرز سے زائد زرمبادلہ پاکستان لاتے ہیں۔پاکستان میں انٹرنیٹ فائروال کی تنصیب کے لیے کیے جانے والے تجربات نے جہاں عام موبائل صارفین کو متاثر کیا ہے وہیں فری لانسرز اور دیگر آن لائن کاروبار کرنے والے افراد بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔انٹرنیٹ بندش کے باعث ”فائیور“ نے پاکستانی فری لانسرز کے اکاؤنٹس کو Unavailable کا بیج لگا دیا ہے۔اگر یہی حالات رہے تو پاکستان آن لائن فری لانسنگ مارکیٹ سے آؤٹ ہو جائیگا۔ کام کرنے والے نوجوان بھی جب بے روزگار ہوجائیں گے تو ویلے بیٹھ کر حکومت کو گالیاں ہی دیں گے۔ حکومت 30 لاکھ نوجوانوں کو بے روزگار کرنے اور ہزاروں آئی ٹی کمپنیوں کو بند کرنے کا بوجھ کیسے برداشت کرے گی ؟
پیڈوی پی این قدرے محفوظ ہے جبکہ فری وی پی این استعمال کرنے والوں کا موبائل ہائی رسک پر ہے۔کیونکہ تمام موبائل اپلیکیشن انسٹال کرتے وقت وہ آپ سے آپ کے ڈیٹا اور میڈیا گیلری ایکسیس کی اجازت لے لیتی ہے اس لیے مفت وی پی این استعمال کرنے والوں کو خبردار رہنا چاہئے کہ کبھی بھی پاکستانیوں کے”ڈیٹا لیک“کا سیلاب آنے والا ہے۔پیڈوی پی این محفوظ ضرور ہے لیکن ہم پر حکومتی نااہلی کا اضافی بوجھ ہی ہے۔حکومتی وزیر و مشیر اپنی زمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ”شارٹ کٹ“کے چکروں میں پاکستان کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ”دہشت گرد“ فیک نیوز کیلئے فیس بک،یوٹیوب،ٹویٹر اور واٹس ایپ گروپس کا سہارا لیکر منفی پراپیگنڈا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ کیا اس کا واحد علاج سوشل میڈیا پر پابندی ہے؟انٹر نیٹ پر پابندی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ ترقی کے عمل کو روکتی ہے۔ملک کی مجموعی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کی شکار ہے۔ ٹاپ آئی ٹی کمپنیاں جو انٹرنیشنل کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں، یہ ہمیں ان کمپنیوں سے ایک انکرپٹڈ لائن کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہیں، جب انٹرنیٹ کی بندش جیسی رکاوٹیں آتی ہیں تو یہ کمپنیاں اپنا بزنس سمیٹ کر دوسرے ممالک چلی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس اپ گروپس،ٹویٹر،فیس بک اور یوٹیوب پرسنگین الزامات اور من گھڑت تجزیوں کی بھرمار ہے۔ ہر روز افواج پاکستان و اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، فیک ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں۔ آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ آزادی اظہار رائے کی آڑمیں ملکی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کے درپے ہوجائیں۔
پاکستان کے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی فرد کے بارے میں غلط معلومات اور پروپیگنڈاپھیلانے والے کیلئے دس لاکھ جرمانہ اورتین سال قید کی سزا ہے۔سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ اورتجزیہ میں تضحیک کرنا بھی قابل گرفت جرم ہے۔ مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شائع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص کو بغیر وارنٹ کمپیوٹر،لیب ٹاپ،موبائل فون اور کیمرہ وغیرہ تحویل میں لیکر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
سائبرجرائم کی روک تھام کے لیے قوانین تو ہیں لیکن ان پرعمل درآمد کروانے کے لیے موجود اتھارٹی کے پاس وسائل بہت کم ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کی اہمیت کی پیش نظر سائبر کرائم ونگ کا دائرہ کار بڑھایا جائے، ڈیپوٹیشن کی بجائے آرٹیفیشل انٹیلجنس کوالیفائید اورآئی ٹی پروفیشنل افراد کو رکھا جائے۔میں سائبر کرائم کے چند افسران کو جانتا ہوں جو ناقص تفتیش کرکے ملکی سلامتی کے اداروں پر تنقید کرنے والے ملزمان کو سزاؤں سے بچاتے رہے ہیں۔ماضی میں سائبر کرائم کے کچھ افسران نے ایک گینگ بنا رکھا تھا جو مدعی اور ملزم دونوں کا موبائل لیکر فرانزک کی آڑ میں پرسنل ڈیٹا حاصل کرکے شہریوں کو بلیک میل کرتے تھے۔ان بلیک میلرز نے کتنے ہی شہریوں سے لاکھوں اور کروڑوں کمائے۔جعلی کمپلینٹ پر جعلی نوٹس بازی سمیت نت نئے فراڈ متعارت کروائے۔
اس لیے لازم ہے کہ اتنے اہم ادارے کو صرف سائبر کرائم کے افسران کے حوالے کرنے کی بجائے اس کی”سپرویژن“ کیلئے نادرا کی طرح آرمی افسران تعینات کیے جائیں کیونکہ سائبر کرائم ہی کی طرح نادرا میں بھی آئے روز شہریوں کا ڈیٹا بکتا تھا۔جب سے وفاقی اور صوبائی کمانڈ آرمی افسران کو دی گئی ایسی کوئی شکایت نہیں ملی۔ اس لیے سائبر کرائم کا کنٹرول بھی آرمی افسران کو دیا جائے اور زونل آفس انچارج بھی پی ایس پی اور سی ایس پی آفیسر کو لگایا جائے تا کہ ناصرف سوشل میڈیا کے دہشت گردوں کو نکیل ڈالی جائے بلکہ ہر طرح کے استحصال کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے۔سائبرکرائم کاسراغ لگانے کے لیے جدیدڈیجیٹل فرانزک لیب کاقیام بھی بے حد ضروری ہے۔پروفیشنلی ٹرینڈ ججز نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان عدالت سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ سائبر کرائم کیلئے الگ سے ٹرینڈ ججز مقرر ہونے چاہئیں جو خود سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوں۔ضرورت اس امر کی ہی کہ انٹرنیٹ کی بندش اور سلو کرنے کی بجائے”ڈیجیٹل دہشت گردی“میں ملوث تخریبی افراد کو کڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنا دیں تا کہ آئندہ کوئی قومی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے اور ملکی امن و امان میں خلل ڈالنے کا سوچے بھی نا۔(ملک سلمان)