shartiya meetha | Imran Junior

دستبردار، برخوردار

علی عمران جونیئر

دوستو،اگلے ماہ ملک بھر میںعام انتخابات ہورہے ہیں۔۔ باباجی کہتے ہیں کہ اس بار پتہ لگ رہا ہے کہ عام انتخابات کو ”جنرل” الیکشن کیوں کہتے ہیں۔۔ الیکشن میں اب جتنے دن کم ہوتے رہیں گے اتنی ہی انتخابی مہم میں تیزی آتی جائے گی۔اب تو ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آرہے ہیں کہ کوئی امیدوار کسی کے حق میں دست بردار ہوگیا۔۔ ان دست بردار ہونے والوں کے لئے باباجی نے اصطلاح استعمال کی ہے اور انہیں۔۔”برخوردار” کہنا شروع کردیا ہے۔۔ ہم نے جب باباجی سے اس نئی اصطلاح کی تشریح چاہی تو ۔۔ پہلے ہمیں بغور ”گھورا” پھر۔۔ سگریٹ کا پیکٹ اپنی قمیض کی سائیڈ پیکٹ میں ٹٹولا۔۔ جب ایک سائیڈ پر سگریٹ کا پیکٹ نہیں ملا تو، حیران رہ جانے والے تاثرات چہرے پر عیاں ہوئے، پھر بوکھلاہٹ میں دوسری سائیڈ پیکٹ میں ہاتھ ڈالا، جہاں خوش قسمتی سے انہیں اپنی ”منزل” مل گئی، انہوں نے ایک لمبی سرد آہ بھری۔۔ پھر پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکال کر فلٹر والی سائیڈ منہ میں رکھنے سے پہلے سگریٹ کو آگے سے زبان کی نوک سے گیلا کیا، بقول اس طرح کرنے سے سگریٹ لمبے عرصے تک چلتی ہے۔ جب ہم نے لمبے عرصے کا دورانیہ پوچھتے ہوئے باباجی سے کہا۔۔ کیا دو،تین دن چل جاتی ہے۔۔۔؟؟ باباجی مسکرا کر بولے۔۔ یار عام سگریٹ اگر دو منٹ میں ختم ہوتی ہے تو یہ تین منٹ میں ختم ہوتی ہے۔ بہرحال باباجی نے سگریٹ سلگاکر لمبا کش بھرا۔۔ اور برخوردار کی تشریح کچھ اس طرح سے کی۔۔ یہ جو الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں، پھر کسی کے حق میں بیٹھ جاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے سامنے والے کو اپنا بڑا مان لیا، جب آپ کسی کو بڑا سمجھ لیں تو پھر آپ اس کے برخوردار ہوجاتے ہیں۔۔ اسی لئے میں الیکشن میں دست بردار ہونے والوں کو ”برخوردار ” کہتا ہوں۔ ۔ باباجی کی یہ عجیب و غریب تشریح اپنی ”سمجھ دانی” میں فٹ نہ بیٹھ سکی۔۔ اس لئے ہم نے گفتگو کارخ دوسری جانب موڑ دیا۔۔

ہم نے باباجی سے کراچی کے اس واقعہ کی جانب توجہ مبذول کرائی جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی اور تین کمسن بچوں کو قتل کرکے خود پھانسی پر لٹک گیا۔۔ باباجی نے اداس لہجے میں کہا، ہاں یار، بہت افسوس ہوا، دل بوجھل سا ہوگیا۔۔ خاص طور پر ان تین بچوں کی تصاویر دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا جب وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور فیڈر ان کے ہاتھوں میں تھے،سر کے نیچے خون جما ہوا تھا۔۔دل شکن تصویریں دیکھ کر ہماری بھی طبیعت مکدر سی ہوگئی تھی، ہم نے باباجی کو کہا ۔۔ آپ کو پتہ ہے باباجی ، اس نے خودکشی کیوں کی؟ باباجی نے نفی میں سر ہلایا پھر جلدی سے بولے۔۔ شاید بیروزگاری اور غربت کا معاملہ ہوگا، وہ اپنی فیملی کا خرچہ نہیں اٹھا پارہا ہوگا۔۔ ہم نے باباجی کے خیالات سے اتفاق کیا اور ساتھ ہی انہیں بتایا کہ۔۔ اس شخص پر صرف دس ہزار روپے کا ادھار تھا، جو اس نے خودکشی سے پہلے اپنے لیپ ٹاپ میں تحریر آخری نوٹ میں لکھا تھا۔۔باباجی کو حیرت کا دھچکا لگا۔۔ پھر بولے۔۔یار یہ کوئی اتنا بڑا قرضہ تو نہیں تھا کہ انسان انتہائی قدم اٹھاکر اپنی پوری فیملی ہی قتل کردے پھر خود کوبھی ماردے۔۔ ہم سمجھ گئے باباجی کی طبیعت اس واقعہ سے اداس ہوگئی، اس لئے ان کی توجہ بٹانے کے لئے اچانک سوال کرڈالا۔۔باباجی کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ۔۔ فیملی کی فرمائشیں ہوں اور جیب میں پیسہ بھی نہ ہو۔۔ ایسی صورتحال میں آپ کیا کرتے تھے؟؟ باباجی نے ہمارا سوال بہت دھیان سے سنا۔۔ سگریٹ نوشی جاری کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔ہاں یار، ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا۔۔ ایک بار بہت دلچسپ واقعہ ہوا، تم بھی سنو گے تو ہنس پڑو گے۔۔ ہواکچھ یوں کہ۔۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ۔۔بیگم نے سارا دن سردی میں کپڑے دھوئے تھے، وہ تھکی ہوئی تھی کچھ پکانا نہیں چاہ رہی تھی۔۔اس نے تلی ہوئی مچھلی کی فرمائش کر دی۔۔ماں کو بخار کے بعد کمزوری محسوس ہو رہی تھی، اس نے دیسی مرغی کی یخنی کا حکم دے دیا۔۔بچے برگر شوارمے مانگ رہے تھے اور۔۔میری جیب میں صرف ایک ہزار روپے کا نوٹ تھا۔۔میں دل گرفتگی کے عالم میں کبھی اپنی زوجہ ماجدہ کا تھکن زدہ چہرہ دیکھتا۔۔تو کبھی ماں کی حالت دیکھ کر دل کٹ کر رہ جاتا۔۔ بچوں کی پرامید نگاہیں میری جانب اٹھی ہوئی تھیں، جن کی میں تاب نہ لاسکا۔۔مہینے کے آخری دن تھے۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان سب کی فرمائش کیسے پورا کروں۔۔ مہینہ ختم ہونے میں پانچ دن تھے، اور اکیلا ہزار کا نوٹ میری جیب میں تھا، جس میں یہ پانچ دن نکالنے تھے۔۔یہ سب سوچ سوچ کر میرا تو دل ہی بیٹھنے لگا تھا۔۔اپنی غربت اور بے بسی پر اسے رونا آ رہا تھا، میرے دل میں یکے بعد دیگر بہت سے منفی خیالات آرہے تھے۔۔پھر اچانک میں نے ایک بڑا فیصلہ کرلیا۔۔ اور گھر سے باہر نکل گیا۔۔باباجی یہ کہہ کر سانس لینے کے رکے، سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑی۔۔ ٹیبل پر رکھے جگ سے برابر میں رکھے شیشے کے گلاس میں پانی ڈالا، ایک سانس میں سارا پانی پی گئے۔۔ادھر اس سارے عرصے میں ہمارے ذہن میں کئی خیالات آرہے تھے کہ باباجی نے کیا فیصلہ کیا ہوگا، گھر سے باہر جاکر انہوں نے شاید کسی سے ادھار مانگا ہو، یا پھر اس دن گھر واپس ہی نہیں گئے، رات باہر ہی گزاری ہو۔۔ باباجی پانی پی کر خاموش سے ہوگئے، ہمیں لگا شاید وہ بھول گئے کہ ہمیں کچھ بتارہے تھے۔۔ ہم نے باباجی کو یاد دلاتے ہوئے سوال کیا۔۔باباجی پھر کیا ہوا؟؟ باباجی نے سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا۔۔ کہنے لگے۔۔ میں گھر سے باہر نکل گیا۔۔ کچھ دیر بعد رکشہ لے آیا اور پوری فیملی کو لے کر سسرال چلا گیا۔۔ رکشے والے کو آنے جانے کے دو سو روپے دیئے،آٹھ سو روپے آنے والے دنوں کیلئے بچا لئے۔۔پریشانیوں کا حل صرف خودکشی نہیں ہوتی، سمجھدار بندہ رستہ نکال ہی لیتا ہے۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ماہر نفسیات ایسا شخص ہوتا ہے جو آپ سے وہی سوال انتہائی مہنگے داموں پُوچھا ہے جو آپ کی بیوی آپ سے مفت میں پُوچھتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں