تحریر: نواز رضا۔۔
مجھے یاد نہیں ’’پا طفیل‘‘ سے کب میری پہلی ملاقات ہوئی البتہ اتنا یاد ہے کہ مدینہ کی گلیوں میں ایک ادھیڑ عمر درویش سے ملاقات ہوئی، رسمی علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا تو انہوں نے بتایا کہ اُن کا تعلق پیشۂ صحافت سے ہے تو مجھے بےحد خوشی ہوئی۔ میں بھی صحافت کا طابعلم تھا لہٰذا ہمارے درمیان دوستی کا آغاز مدینہ منورہ سے ہوا جو تاحیات قائم رہی بلکہ ان کی اگلی نسل (مظہر طفیل) تک برقرار ہے۔ پیرانہ سالی کی وجہ سے انہوں نے قلم سے رشتہ محدود کر لیا لیکن اپنی موت تک اپنے ہاتھ سے قلم نہ چھوڑا۔ ان کی خیریت اُن کے صاحبزادے مظہر طفیل کے ذریعے معلوم ہوتی رہتی تھی جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ کم و بیش ہر سال حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب پہنچ جاتے۔ ایسا لگتا کہ ان کا دل مدینہ کی گلیوں میں اٹکا ہوا ہے اور وہ مدینہ میں گم ہو جانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر سال کھچے کھچے سعودی عرب چلے آتے۔ ایک اخبار نویس کی آمدنی کیا ہوتی ہے، بمشکل گزارا ہی ہوتا ہے۔ وہ پورا سال اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم حج کے لئے بچا لیتے اور حج سیزن میں ویزا لگوا کر سعودی عرب پہنچ جاتے۔ درویش صفت انسان تھے اکثر و بیشتر نذیر اینڈ کمپنی کے ’’ڈیرے‘‘ پر ان کے قیام کا انتظام ہوتا تھا جس دور میں سرکاری اسکیم کے تحت حج ایک لاکھ روپے میں ہوتا وہ چند ہزار روپے خرچ کرکے فریضہ حج ادا کرنے پہنچ جاتے۔ آج حج کی ادائیگی عام آدمی کے لئے ناممکن بنا دی گئی ہے۔ ’’پا‘‘ طفیل کی حج امور پر گہری نظر تھی، وہ ہر سال حج پالیسی کا تنقیدی جائزہ لیتے اور حکومت کو مفید مشورے دیتے۔ حجاج کو دورانِ حج پیش آنے والی مشکلات کو اپنی تحریروں میں اجاگر کرتے۔ ان کی متعدد تجاویز کو حج پالیسی کا حصہ بنایا جاتا رہا۔ زندگی میں ہمیشہ سادگی کو اولین ترجیح دی، اسی لئے ان کو درویش صفت کہا جاتا تھا۔ ان کا نام محمد طفیل تھا لیکن وہ اپنے حلقہ احباب میں ’’پا‘‘ طفیل کے نام سے مشہور تھے جب تک ان کے نام کے ساتھ ’’پا‘‘ (پنجابی میں بھائی کو ’’پا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے) نہ کہا جائے تو ان کی شناخت نہیں ہوتی تھی، وہ21 مئی 1937کو شاجہان پور امرتسر (بھارت) کے قریب گائوں میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہی ان کا پورا خاندان سیالکوٹ کے ایک گائوں چٹی شیخاں میں آباد ہو گیا لیکن پیشۂ صحافت سے منسلک ہونے کے باعث لاہور کیا آئے بس پھر لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے۔ وہ 5مئی 2021کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ انہیں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور تھا، انہوں نے روزنامہ کوہستان سے اپنی عملی صحافت کا آغاز کیا اور اپنے ہم عصر مولانا کوثر نیازی مرحوم کے ساتھ روزنامہ کوہستان میں مذہبی رپورٹنگ کی، جب قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت انہوں نے تمام واقعات کی رپورٹنگ مذہبی جوش و خروش اور خصوصی لگائو کے ساتھ کی، روزنامہ کوہستان سے ہی اداریہ لکھنے کا شوق پیدا ہوا، روزنامہ کوہستان کے بعد روزنامہ مساوات میں بھی اداریہ نویسی کرتے رہے، ان کا شمار روزنامہ جنگ لاہور کے بانی ارکان میں ہوتا تھا۔ روزنامہ جنگ لاہور کا پہلا اداریہ بھی انہیں ہی لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ 40سال تک روزنامہ جنگ سے اداریہ نویس اور کالم نگار کی حیثیت سے وابستہ رہے، کبھی ادارہ کو نہ چھوڑا۔ انہوں نے ایران، عراق اور افغان جنگ سے متعلق سینکڑوں کی تعداد میں اداریے اور کالم لکھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جگر کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔ اُن کا آخری کالم بھی ختمِ نبوت اور گستاخانہ خاکوں سے متعلق تھا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ انہوں نے بین الاقوامی امور اور جنوبی ایشیا کی خارجہ پالیسی سے متعلق ہزاروں کی تعداد میں مضامین اور اداریے تحریر کئے، سب سے زیادہ افغان جنگ اور ایران عراق جنگ سے متعلق ان کی تحریریں روز نامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوئیں۔ وہ ملاعمر کے ساتھ پاکستانی صحافیوں کی سب سے پہلی ملاقات کرنے والے وفد میں بھی شامل تھے۔ پا طفیل امریکہ کی مسلمان مخالف پالیسیوں کے ہمیشہ ناقد رہے۔ ان کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کو طویل عرصہ تک ایران کے تعلیمی اداروں میں خصوصی طور پر پڑھایا جاتا رہا۔ متعدد بار ایرانی حکومت نے انہیں خصوصی طور پر ایران بلا کر اپنی وزارتِ خارجہ اور تعلیمی اداروں میں ان کے لیکچرز کا اہتمام کیا جبکہ افغان امور سے متعلق ان کی خصوصی تحریروں کے باعث ملاعمر کے علاوہ افغان قیادت جس میں گلبدین حکمت یار سمیت دیگر رہنما شامل تھے، انہیں انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد، عبدالقادر حسن، منو بھائی، ارشاد احمد حقانی، شورش ملک، امیر العظیم، لیاقت بلوچ سمیت جامعہ اشرفیہ کے متعدد علمائے کرام سے خصوصی تعلق اور لگائو تھا، انہوں نے ہمیشہ سنتِ رسولﷺ کو اپنی زندگی کا شعار بنایا اور ایک سچے عاشقِ رسولؐ بننے کی دعا کی۔
اسلام آباد کا رُخ کرتے تو شاہد گیلانی اور ظفر بختاوری کے ہاں ’’ڈیرہ‘‘ آباد کرنے آجاتے۔ ظفر بختاوری نے بتایا کہ مرحوم پا طفیل مرد مجاہد اور مشرقی اقدار کے امین تھے۔ ساری زندگی درویشی میں گزار دی، میرا ان کے ساتھ 40سالہ تعلق تھا، انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ سچے پاکستانی اور اپنی ذات میں انجمن تھے۔ شاہد گیلانی نے بتایا کہ وہ شام کو سعید سلیمی مرحوم کے ہاں حقہ پیتے اور خوب گپ شپ لگتی، وہ راول پنڈی میں میرے پاس چار پانچ دن کی چھٹی لے کر آ جاتے۔ ’’حقہ‘‘ اُن کی شخصیت کا لازمی جزو بن گیا تھا، رات گئے محفل سجتی، مرحوم طفیل سنجیدہ مزاج اور اعلیٰ پائے کے لکھاری تھے انہوں نے اپنی شادی کا واقعہ بتایا کہ جب پہلی شادی ہوئی تو بیوی قادیانی نکلی تو انہوں نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی، ان کے بچے دوسری بیوی سے ہیں۔ اِن کی زوجہ حلیم، ملنسار اور دیندار خاتون تھیں۔ پا طفیل نے کئی ادوار دیکھے تھے پھر وہ جنگ میں ہونے کی وجہ سے کئی واقعات کے عینی شاہد تھے، انہوں نے مجھے بھی بہت سی باتیں بتائیں جو امانت ہیں، اب وہ دنیا میں موجود نہیں لہٰذا اِن باتوں کا راز رہنا ہی مناسب ہے۔(بشکریہ جنگ)