تحریر: خرم علی عمران۔۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ کیسے کیسے عذابات ،آفات اور بلائیں ہمارے اس وطن عزیز اور پاکستانی قوم نے جھیلی ہیں میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی آزاد ملک نے اپنی قومی تاریخ میں اتنی زیادہ آفات اور نقصانات جھیلے ہوں گے۔ زلزلے،طوفان،سیلاب،دہشت گردی،امن و امان کے مسائل،دشمن ممالک کی سازشیں اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ عذابات ہم بحیثیت قوم جھیل کے بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی ایسی خطرناک تباہیوں اور سازشوں کے باوجود ہم نہ صرف موجود ہیں بلکہ بہت سے معاملات میں بہت سے ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ اور آگےہیں۔ یقیناً اس کی کئی ایک وجوہات ہیں لیکن ان سب وجوہات کے ساتھ ساتھ میرے خیال میں ایک بہت بڑی وجہ ایسی ہے جوکہ ہمیں بہت سے نقصانات اور تباہیوں سے بچا لیتی ہے اور اکثر ہم پر آنے والی زحمتیں رحمتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ وجہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ایک سخی قوم ہیں۔ ہمارے دینی پس منظر اور روایتی مشرقی کلچرنے ہمیں قدرتی طور پر سخی اور غریب پرور بنادیا ہے اور یہ سخاوت اور درد مندی ہی وہ عمل ہے جو ہماری تمام تر بد اعمالیوں کے باوجود ہمیں بچا لیتا ہے۔ شاید یہ بات بہت سے پڑھنے والے جانتے ہوں گے کہ پاکستانی قوم چیریٹی یا خیرات کرنے کے اعتبار سے دنیا کی تین اولین اقوام میں سے ایک ہے۔ تو آج کل بھی کرونا وائرس کی شکل میں قدرت نے ہمیں اپنا یہ سخاوت اور خدمت کا وصف اور ہنر آزمانے اور لوگوں کے کام آنے کا بڑآ زریں موقع عطا کیا ہے۔کسی کو کسی بھی لحاظ سے آسانی یا آسانیاں مہیا کرنے کی نیت کے ساتھ کیا گیا خدمت کا عمل چاہے کسی بھی شکل اور شغل میں ہو، یعنی مالی خدمت،جسمانی خدمت،علمی خدمت، عملی خدمت یا پھر روحانی خدمت جو کہ اہل اللہ کا طرہء امتیاز ہے، بہت ہی بڑا عمل اور ایک بے مثال عبادت ہے اور اسکا اجر دنیا اورآخرت دونوں میں ملتا ہے اور بہت خوب ملتا ہے۔ خدمت اور سخاوت ایسا عمل ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسے بے غرضی اور استقلال سے اختیار کرنے والا چاہے کسی بھی عقیدے،مذہب مسلک سے تعلق رکھتا ہو یا حتی کہ ایک مفہوم میں ملحد یا دہریہ ہی کیوں نا ہو اس کا اجر پائے بغیر نہیں رہ سکے گا اور یقینا اسے دنیا کی زندگی میں عزت،دولت اور وجاہت ضرور بالضرور ملتی ہے۔ ایک روایت کامفہوم ہے کہ عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے خدا ملتا ہے اور جب خدا ہی مل گیا تو گویا سب کچھ ہی مل گیا۔ کہتے ہیں اور ایک روایت کا مفہوم ہے کہ سخاوت کرنے والا اللہ کا دوست ہے چاہے وہ بد اعمال ہی کیوں نہ ہو۔ خدمت اور سخاوت کے بے شمار فضائل ہیں جو کتابوں میں ملتے ہیں اور علماء و صلحاء کے مواعظ و بیانات میں کثرت سے بیان کئے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اوراس حوالے سے بے شمار واقعات نہ صرف اسلامی کتابوں بلکہ غیر مسلم حضرات کی کتابوں میں بھی ملتے ہیں کہ کبھی کبھی کسی خاص موقعے پر کسی کی خدمت اوپر والے کو ایسی بھاجاتی ہے کہ اس خادم کو مخدوم بنادیا جاتا ہے اور دنیا بھی مال و منال اور اسباب کے اعتبارسے اس پر کشادہ کردی جاتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ بس دینا شروع کردیں،آنا خود شروع ہوجائے گا تو یہ بات تجربے سے ثابت شدہ اوربلکل درست ہے۔ یہاں تک کہ انسان تو انسان دوسرے جانداروں کی کسی بھی لحاظ سے خدمت کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔
دینی حلقوں میں ایک بات یا اصول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اجر اور نتائج کے اعتبار سے اجتماعی عمل کی مثال سمندر جیسی ہے اور انفرادی عمل کی مثال قطرے جیسی، اور اسی لئے شاید اجتماعیت پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی بتایا جاتا ہے اور روایات میں آیا ہے کہ کچھ خاص حالتوں میں اور بعض خصوصی مواقع پرقطرے جیسے انفرادی عمل کا اجر اور اسکی جزا سمندر جیسے اجتماعی اعمال سے بھی بڑھ جاتی ہے اور آج کل ساری دنیا میں عموماً اوروطن عزیزمیں خصوصاً کورونا وائرس سے پیدا شدہ موجودہ حالت اورصورتحال خدمت کے اعتبار سے ایسی ہی بے پناہ کمائی برائے اجر و ثواب کا موقع ہے۔ اب خدمت کا یہ عمل سرکاری سطح پر ہو،طبی عملے کی کاوشوں کی صورت میں ہو،امن و امان نافذ کرنے والے اداروں کی سرگرمیوں کی شکل میں ہو یا کسی بھی انفرادی سطح پر ہو کسی طرح بھی فائدے سے خالی نہیں۔ موجودہ صورتحال بلاشبہ تشویشناک ہے اور ملک میں ویسے ہی ہر سطح پر اور ہر شعبے میں جس جس طرح کا بگاڑو زوال کا راج نیز تعلیم و شعور اوردیگر سہولتوں کا فقدان ہے اس نے اس معاملے اوراس پریشان کن وبا کو مزید خطرناک بنادیا ہے۔ جو کچھ سرکاری سطح پر ہورہا ہے اور جو جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں سو وہ اپنی جگہ لیکن عوامی سطح پر یعنی میری اور آپ کی سطح پر بھی ہم خدمت کے عمل اور جذبے کوخلوص اور محبت سے بروئے کار لاتے ہوئے اس مصیبت کو نعمت میں بھی تبدیل کرسکتے ہیں اور اسی جذبے کا مظاہرہ ایک بار پھر دنیا کو دکھا سکتے ہیں جو ہم نےسنہ 2005 کے آزاد کشمیر کے زلزلے میں بے دریغ اجتماعی ایثار اور بھائی چارے کی شکل میں دکھایا تھا اور ساری قوم اپنے اپنے تعصبات،اختلافات اور معاملات کو بھلا کر اس مصیبت کی گھڑی میں ایک ہو گئی تھی۔ انفرادی سطح پر بھی بہت سے ایسے کام ہیں جو عوام الناس اپنی اپنی سطح پر کرسکتے ہیں اور ماشااللہ کچھ تو کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔
اگر اس عالمگیر وبا کے نتیجے میں جس کا ابھی تک واحد دفاع اور علاج قرنطینہ اور پرہیزکی شکل میں دستیاب ہوا ہے اور بھیڑ بھاڑ سے پرہیز اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ضروری ہے تو پھر اس کے لئے حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات لینے کے نتیجے میں جو طبقہ سب سے زیادہ مالی اور معاشی اعتبار سے متاثر ہورہا ہے وہ غریب غرباء اور خاص طور پر وہ مزدور طبقہ ہے جو روز کنواں کھودتے اور روز پانی پیتے ہیں یعنی دیہاڑی دار افراد۔ تو ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنی اپنی سطح پر ان حضرات کی جو بھی مدد مالی شکل میں یا راشن کی شکل میں کر سکتے ہیں اس سے دریغ نہ کریں اور بہت سے لوگ جو اپنی زکوۃ رمضان شریف میں اس لئے نکالتے ہیں کہ رمضان میں زیادہ ثواب ملتا ہے وہ اگر موجودہ صورتحال میں اپنی واجب زکوۃ کے ساتھ ساتھخیرات اور صدقات کی کثرت اور اہتمام کریں تو کیا بعید ہے کہ اجر و جزا دینے والی وہ ذات جو سارے خزانوں اور فضائل کی مالک ہے رمضان شریف سے بھی زیادہ ثواب اور بدلہ عطا فرمادے کہ اسے اپنے بندوں کی خدمت کرنے کا عمل چاہے کسی بھی شکل میں ہو بہت عزیز ہے۔
یہاں بہت سے فلاحی ادارے،این جی اوز اور گروپس ہیں جو انسانی خدمت کے عمل میں بین الااقوامی سطح تک معروف ہیں اور یقیناً وہ سب بھی اس اجتماعی مصیبت سے نپٹنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کر بھی رہے ہیں اور سرکار کی بھی معاونت کررہے ہیں اور پاک فوج بھی ہمیشہ کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے اور حکومتی ادارے اور سرکاری ذمہ داران بھی کاوشیں کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی انفرادی طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا اورخاص طور پر منفی حرکتوں اورافواہوں سے خود کواور دوسروں کو محفوظ رکھنے کی اپنی سعی بھی کرنا پڑے گی۔ اجتماعی مصیبت سے نپٹنے کے لئے سب کو اپنا اپنا حصہ مثبت طور پر ڈالنا پڑتا ہے اور کسی بھی لحاظ سے اپنے سے کمزور لوگوں کا سہارا بننا پڑتا ہے اور اگر ساتھ مل کر،ایک ہوکرایسا کرلیا جائے تو بڑی سے بڑی مصیبت ہلکی پڑجاتی ہے اورخطرناک طوفانوں کے رخ بھی بدل جایا کرتے ہیں ۔(خرم علی عمران)۔۔