تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، دانائی کی باتیں تو آپ نے بہت سنی ہوں گی۔۔ جب بچپن میں ہم بہت چھوٹے تھے، اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچپن میں تو سب ہی چھوٹے ہوتے ہیں، اس میں نئی بات کیا ہے؟ تو یہ جملہ اکثر ہم غلط ہی لکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسا کہ اکثریت میں لوگ لکھتے ہیں، آب زم زم کے پانی میں شفا ہوتی ہے۔۔ شب برات کی رات عبادتوں والی ہوتی ہے۔۔ ماہ رمضان کا مقدس مہینہ۔۔۔ سنگ مر مر کا پتھر۔۔۔ لب سڑک کے کنارے وغیرہ وغیرہ۔۔ یعنی اب سمجھ آگیا ہوگا کہ ہم نے بالکل ٹھیک لکھا تھا کہ جب ہم بچپن میں چھوٹے تھے تو۔۔دانائی کو’’ دا۔نائی‘‘ یعنی الگ الگ یا توڑ کر پڑھتے تھے۔۔ ہمیں لگتا تھا کہ یہ انگریزی والا۔۔’’ دا‘‘ ہے۔۔ ہمارے محلے کا نائی بہت باتونی تھا، اتنی باتیں کرتا تھا کہ سن سن کر کان پک جاتے تھے، اس لئے ہم سمجھتے تھے کہ شاید۔۔دانائی کی باتیں۔۔ نائی کی باتیں ہیں۔۔ پھر جب بڑے ہوئے تو ہم نے اپنی سوچ اور سمجھ پر تین حرف بھیجے۔۔ اتفاق دیکھئے کہ جب ہم دانائی کی باتیں کررہے ہوتے ہیں تو آپ احباب اب اسے’’ دا۔نائی‘‘ کی باتیں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۔ شاید اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔۔ چلیئے پھر آج آپ سے کچھ دانائی کی باتیں کرتے ہیں، سمجھ لیں گے تو ہماری محنت وصول ورنہ سب کچھ فضول۔۔۔ باباجی فرماتے ہیں، جب چائے آتی ہے تو دماغ چلتا ہے اور جب زیادہ چائے آتی ہے تو زیادہ دماغ چلتا ہے۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔ تاریخ گواہ ہے پاکستانی گھرانوں کہ بچے جب بھی‘‘ نانی‘‘ کے گھر سے ہو کر آتے ہیں تو‘‘ دادی‘‘ کو کمزور ہی لگتے ہیں۔۔ بابا جی نے تمام والدین کو مشورہ دیا ہے کہ بچوں کو اسکول سے واپس لاتے وقت ماسک ہٹا کر یقین دہانی کرلیں کہ اپنا ہی بچہ گھر لے کر جارہے ہیں۔۔باباجی کا ہی اقوال ذریں ہے کہ۔۔ ہمارے ملک میں انسانیت، اخلاقیات اور معدنیات صرف کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ۔۔ لوگوں کو صفائی دینے کی بجائے اگر ان کا صفایا کردیا جائے تو زندگی میں کافی سکون آجاتا ہے۔۔ ان کا مزید فرمانا ہے کہ۔۔ روٹیاں اور جوتیاں صرف اپنی ماں کے ہاتھ کی ہی اچھی لگتی ہیں۔۔ باباجی کا ہی گولڈن جملہ ہے کہ۔۔پہلے درندے جنگل میں ہواکرتے تھے، اب شہروں اور موٹروے پر بھی آگئے ہیں۔۔مہنگائی کے اس دور میں انار کا جوس پینے کا دل کرے تو لال چشمہ لگا کر پانی پی لیں، وہی فیلنگ آئے گی۔۔باباجی نے عوام الناس کو مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔ پریشانیوں کو ایسے اگنور کرو۔۔۔ جیسے نہاتے وقت کمر کو کرتے ہو کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے لمبی زبان زرافے کی ہوتی ہے۔۔ باقی جو شادی شدہ حضرات کے ذہن میں آرہا ہے وہ بھی ٹھیک ہی ہے۔۔ ویسے آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ خواتین یا لڑکیاں ایک تقریب میں پہنا سوٹ اگلی تقریب میں پہن کر کبھی نہیں جاتیں لیکن آپ داد دیں، لڑکوں اور مردحضرات کو کہ پورا کورونا اور لاکڈ ڈاؤن ایک ہی ماسک میں نکال دیا۔۔ہمارے پیارے دوست نے ایک روز ہم سے سوال کیا۔۔ یارپیزا لکھ کر میں نے گیارہ کی بجائے چودہ لوگوں کو سینڈ کیا ہے لیکن پیزا ابھی تک نہیں آیا۔۔ اسی طرح ایک بار ہم نے ایک ایس ایچ او سے پوچھا۔۔آپ مجرموں کو پکڑنے کیلئے کتوں کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟؟ وہ بڑی سادگی سے بولا۔۔ کمبخت سونگھتے سونگھتے تھانے پہنچ جاتے ہیں۔۔دو عورتیں باتیں کررہی تھیں، ایک نے کہا، پتہ ہے، اپنے گاؤں کے چودھری صاحب کومے میں چلے گئے۔۔ دوسری بڑی معصومیت سے بولی۔۔ ہاں بہن، پیسے والے تو کہیں بھی جاسکتے ہیں۔۔ کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ شاپنگ کے دوران بیرون ممالک میں لوگ کہتے ہیں۔۔ یہ بہت مہنگا ہے۔۔ جب کہ ہمارے یہاں کے لوگ دکاندار کا دل رکھتے ہوئے یا اسے تسلی دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ، اسے رکھئے ہم واپسی پر آتے ہیں۔۔ اب دکاندار بے چارہ انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہے۔۔ آج بہت ہی غوروفکر اور ادراک کی گہرائیوں میں جا کر سوچا تو دریافت ہوا کہ ناک کو اُلٹا لکھیں تو کان بنتا ہے۔۔ پیٹ کا بھی اپنا ایک چھوٹا سا دل ہوتا ہے، جو صرف بریانی، قیمہ کریلے، پکوڑوں، برگر، بادامی قورمہ، کھیر اور چائے پر فدا ہوتا ہے۔۔اگر آپ کے شوہر کھانے کے دوران آپ سے اچار، سلاد یا دہی مانگ لیں تو سمجھ لیں کہ آپ کے کھانے میں دم نہیں، اور یہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ آپ کے شوہر میں بھی دم نہیں کہ وہ کہہ سکے، بیگم آپ کے کھانے میں دم نہیں۔۔ جب خواتین آپ کو آپس میں کھسرپھسر کرتی نظرآئیں تو سمجھ جائیں کہ ڈیٹا ٹرانسفر ہورہا ہے، جب آپ کو یہ آواز آئے کہ۔۔ چھوڑو، ہمیں کیا؟ تو سمجھ لیجئے کہ ڈیٹا محفوظ ہوگیا ہے اور جلد وائرل ہونے والا ہے۔۔ سوشل میڈیا سے تو آپ لوگ واقف ہی ہوں گے، فیس بک سے بھی واسطہ پڑتا ہوگا، فیس بک پر دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ جنہیں ساس کی طرح ہر پوسٹ میں صرف غلطی ہی نظر آتی ہے، دوسرے وہ جو ماں کی طرح سب لائیک کرتے ہیں۔۔ جو عورتیں یہ کہتی ہیں کہ ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں وہ برائے مہربانی یہی بات اپنی بھابھی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیں تاکہ وہ بھی فائدہ اٹھاسکے۔۔ اب آپ لوگوں کی دانائی چیک کرنے کے کچھ سوالات ہیں جن کا جواب ہم عرصے سے تلاش کررہے ہیں لیکن ہمیں کوئی اس کا جواب دینے کو تیار نہیں۔۔وہ پوچھنا یہ تھا کہ اگر کسی کے معاملے میں ٹانگ اَڑانی ہو تو کونسی ٹانگ ٹھیک رہے گی۔۔۔ سجّی یا کھبی؟؟کوئی بتائے گا؟نکاح پر چھوارے ہی کیوں بانٹے جاتے ہیں؟؟؟نمکو اور لیز کیوں نہیں؟؟۔۔کیا کسی نے خربوزے کی آنکھیں دیکھی ہیں؟ نہیں۔۔ارے تو پھر یہ کیوں کہاجاتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ جب ہر طرف سے بے جا تنقید کا سامنا ہوتو سمجھ لیں یا تو آپ کامیاب ہوچکے یا پھر دوسروں کو آپ کی کامیابی کا ڈر ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں
بانٹیں۔۔