تحریر: سلیم جباری۔۔
ہم نے دامن پھیلا پھیلااورہاتھ بلند کرکے حکومت کی کامیابی اور بہتر مستقبل میسرآنے کی بڑی دعائیں کی تھیں۔ہم نے بڑے سہانے خواب دیکھے تھے جوسبھی چکنا چور ہوئے…. بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں مگر سبھی دم توڑ رہی ہیں….ہم نے سوچا تھا نئے پاکستان میں وہ سب کچھ ہوگا جو قیام وطن کی اساس تھی ،وہ کچھ دیکھنے کو ملے گا جس کے وعدے تسلسل کے ساتھ اس قوم سے کئے جاتے رہے ہیں۔ لوٹی دولت واپس آئے گی،اب یہاں کر پشن نہ ہوگی، ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میںبااختیار کام کرتے دکھائی دیں گے،روزگار کے وسیع مواقع میسر آئیں گے،امن عامہ کی فضا استوار ہوگی اورہر طرف خوشحالی کا راج ہوگا۔
مگرافسوس! کچھ بھی ہوا اورنہ کچھ بدلابلکہ حالات پہلے سے بھی بدتر صورت حال اختیار کر گئے،بے روزگاری اپنی آخری حدوں کو چھونے لگی اوربے قابو مہنگائی ہمارے آرام،سکو ن اورخوشیوں کو نگل گئی۔متوسط طبقہ خط غربت سے بھی نیچے گر گیااور کاروباری صورت حال آخری ہچکیاں لینے لگی۔جناب وزیر اعظم ! آپ نے 50لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا،نہیںمانگتے،ہم جھونپڑیوں میں گزارا کر لیں گے،آپ نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، نہیں چاہئیں،مزدوری کر کے گزر اوقات کرلیں گے ،یہاں تو باہر سے لوگوںنے نوکریاں ڈھونڈنے آنا تھامگر ہم تو یہیں رہتے ہوئے بھی ملازمتوں سے محروم ہوگئے ہیں، بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتیں کم ہونا تھیں،کشمیر کی آزادی ،پولیس میں اصلاحات اور عافیہ صدیقی کی رہائی سمیت بڑے بڑے مسائل حل ہونا تھے مگر سبھی خواب چکنا چور ہوگئے۔اب ہماری آپ سے صرف ایک درخواست ہے اورکچھ کریںنہ کریں خدارا مہنگائی کے باعث زندگی کی کٹتی ڈوری اورٹوٹتی امیدوں کے مداوا کے لیے کچھ اقدامات ضرور کیجئے۔
ہمارے سیاستدانوں کا المیہ یہ رہاہے کہ جب تک اقتدار سے باہر ہوتے ہیں انہیں دور تک مسائل ہی مسائل دکھائی دیتے ہیں مگر جیسے ہی حکومتی کرسیوں پر جابیٹھتے ہیں مسائل دکھانے والی عینک دھندلا جاتی ہے اوروہ دوربین بھی کام کرنا چھوڑ دیتی ہے،پھر روح تک اتر گئے عوام کے زخم انہیں دکھائی نہیں دیتے،کیا یہی ہمارا نصیب ہے؟
ہمارے محترم مولانا صاحب اپنا دھرنا اٹھا کر جاچکے،انہوںنے کیا کھویا کیا پایاکچھ معلوم نہیں مگر عوام کے جذبات سے ایک بار پھر ضرور کھیلا گیا،امکان تھا کہ مولاناصاحب کرپشن کی بات کریں گے، مہنگائی کے خلاف آواز اٹھائیں گے،عوامی مسائل کے نہ صرف حل کا مطالبہ کریں گے بلکہ ان کے حل تک ڈٹ کر کھڑے رہیں گے مگر پھر وہی ہوا جو ماضی میں آج تک ہوتا آیا ہے۔ہمارے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟
پیارے بہن بھائیو! کیا ہم نے غور کیا کہ ہماری دعائیں کیوں بے اثر ہوگئیں، ہمارے مسائل حکمرانوں کی نظروںسے کیوں اوجھل ہوگئے؟اس کا بنیادی سبب ہمارے اعمال اور رویے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانوں سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے اس پاک پروردگارکے دامن رحمت سے چمٹ کر یوں گڑگڑائیں کہ اسے ہماری محرومیوں پر رحم آجائے اوروہ ہماری حالت کو بدل دے کیونکہحالات کا پھیرنا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جب اسے ہم پر رحم آگیا تو وہ اچھے حکمران بھی دے دے گا اورمہنگائی سے نجات بھی مل جائے گی۔
اے پاک پروردگار! ہم تجھ سے ان گناہوں کی معافی کے طلب گار ہیں جن کے باعث یہ پریشانیاں ہماراگھیراﺅ کئے ہوئے ہیں۔اے اللہ! ناقدری کے باعث چھن جانے والی نعمتیں ہمیں واپس دے دے۔ الٰہی مہنگائی کے عذاب سے ہم کو محفوظ فرما،بند ہوتے کاروبار کے باعث بے روزگار ہونے والے مزدوروں کی دستگیری فرما۔اے اللہ! ہم سے روٹھی ہوئی ہماری خوشیاں ہمیں واپس لوٹادے۔یاالٰہی ہمیں معاف فرمادے ، درگزر فرماتو بڑا غفور رحیم ہے ۔آمین
کس کس بات کا رونا روئیں گزشتہ دنوںناروے میں اسلام مخالف مظاہرے کے دوران ایک مسلمان نوجوان کی بہادری سوشل میڈیا پر خبروں کی زینت بن گئی۔ناروے میں متعصب اسلام مخالف تنظیم سیانSIAN(Stop Islamizatuon of Islam)کی جانب سے Burn Quran Ceremony یعنی نعوذ باللہ قرآن پاک کو جلانے کی تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔یہ تقریب ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے علاقے کریسچئین لینڈ کے ایک چرچ کے سامنے منعقد ہوئی ۔اسلام مخالف تقریب کے دوران جیسے ہی ایک لیڈر لارس تھورسن کی جانب سے قرآن پاک کو نذر آتش کیا گیا تو عمر نامی ایک مرد مجاہد میدان میں آیا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس پر جھپٹ پڑااور اس شخص کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔
بدقسمتی سے کسی بھی مسلمان ملک کی جانب سے اس واقعے پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا جبکہ سوشل میڈیا پر پوری دنیا کے مسلمان اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے رہے ۔حصول اقتدار کی خاطر مجبور عوام کو ساتھ لے کر سڑکوں پر مارچ، احتجاج اور دھرنے دینے والے لیڈروں میں سے کسی کی غیرت ایمانی نہ جاگی، کسی نے احتجاج تک ریکارڈ کروایا اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا، اللہ تعالیٰ انہیں دینی غیرت وحمیت بھی نصیب فرمائے۔
اس واقعے کے فوری بعد ایک نہایت احسن ردعمل سامنے آیا کہ ناروے کے نوجوان ایک پارک میں جمع ہوئے،قرآن مجید کھولے اوراجتماعی طورپر تلاوت شر وع کردی۔ یہ پیغام تھا کہ جس قرآن کو جلا نے کی مذموم جسارت کر کے تم اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہو اس کی محبت ہمارے دلوں سے کیسے ختم کر پاﺅ گے۔سچ بھی یہی ہے کہ ایسے واقعات غافل مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کیے جاتے ہیں،قرآن ہی وہ واحد مقدس کتاب ہے جوازل سے ابد تک حفاظت الٰہی کے مضبوط ترین حصار میں ہے، ا س لیے یہ ہمیشہ سلامت اور محفوظ رہے گی۔ان شاءاللہ
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان قرآن سے اپنا تعلق اوررشتہ مزید مضبوط کریں،بلاناغہ تلاوت کریں،ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں، چاہے دو چار آیات ہی کیوںنہ ہوں،ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کریں کہ مسلم ممالک کے سربراہان کی غیرت بھی جاگے کہ وہ بھی عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروائیں۔اد رہے! قوموں کا عروج و زوال قرآن سے باندھا گیا ہے ،مسلمان اسے تھام کر سرخروہوں گے اورنہ ماننے والے اسی باعث دنیا و آخرت میں رسوا ہوں گے۔(سلیم جباری)