hujoom mein ali hassn zardari

ڈاکوؤں کی حکمرانی

تحریر: علی حسن۔۔

پولس نے تین مغویوں کی بازیابی کے لیے کچے کے علاقے میں آپریشن کا اہتمام کیا تھا ۔ پولس نے کچے کے علاقے میں ہی ایک بدنام زمانہ ڈاکو کے ایک راشتہ دار کے خالی گھر میں اپنے کیمپ قائم کئے تھے ۔ لیکن اس سے قبل کہ پولس کارروائی کرتی ڈاکوﺅں نے حملہ کر دیا۔ ڈوکوﺅں نے پوری قوت کے ساتھ منظم ہو کر اتنی سرعت کے ساتھ بھرپور حملہ کیا تھا کہ پولس سنبھل ہی نہ پا ئی ۔ ڈاکووں کے حملہ میں ڈی ایس پی سمیت پانچ اہل کار ہلاک ہو گئے تھے ،۔ پولس گھوٹکی کے علاقہ اوباوڑو کے کچے کے علاقے سے ایک ہفتہ قبل اغوا ہونے والوں کی بازیا بی کے لئے گئی تھی۔ آپریشن کے لیے پولیس کے قائم کردہ کیمپ پر 6 نومبر کو حملہ کے بعد پولس بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ پولس اس حد تک بے بس ہو گئی تھی کہ حملہ آور ڈاکوﺅں کی تعداد 150بتائی گئے ہے جس میں راکٹ تک استعمال کئے گئے۔ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ ڈاکوﺅں نے 25 راکٹ فائر کئے تھے ۔ پولس اول تو بروقت جوابی کارروائی نہیں کر سکی۔ جب کارروائی کی تو پو لس کے راکٹ کام نہیں کر سکے ۔ پولس کی بکتر بند گاڑی میں بھی گولیاں داخل ہو گئیں۔ جب پولس نے کیمپ قائم کیا تو ڈاکوﺅں نے اپنے سردار سلطو شر جسے ڈاکو سخی سلطان پکارتے ہیں، کا بدلہ لینے کی حکمت عملی تیار کی۔ پولس نے اندازہ ہی نہیں کیا کہ پولس سے ڈاکو سلطو کے قتل کا بدلہ لینے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ پولس کیمپ میں وہ پولس اہل کار بھی شامل تھا جس نے سلطو شر کو دھوکہ سے بلا کر ہلاک کر دیا تھا۔ سلطو کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر پچاس لاکھ روپے کا انعام تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ہلاک شدہ پولس اہل کاروں کی لاشیں کیمپ پر ڈاکووئں کے چھہ گھنٹے تک قبضے میں رہنے کے بعد پولیس کے حوالے کی گئیں۔ داکوﺅں کے ایک ”ترجمان“ کا وڈیو پر بیان آیاے ہے کہ سخی سلطان کا بھائی عمر تو اتنا برہم تھا کہ وہ ہلاک ہونے جانے والے ڈی ایس پی کی ناک کاٹنا چاہتا تھا لیکن اس کے بعض ڈاکو ساتھیوں نے لاش کی بے حرمتی سے باز رہنے کے لئے کہا اور کہا کہ پولس ان کے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی لاشوں کو مسخ کر کے واپس دیتے ہیں لیکن ہم (ڈاکو) ایسا نہیں کریں گے۔

سلطو شر علاقے میں 3 سال پہلے خوف کی علامت بنا ہوا تھا ۔ اس کو گرفتار کرنے کیلئے فوج نے ہوائی آپریشن بھی کیا تھا. جس کے بعد سلطو نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور 6 مہینے تک آرمی اداروں کی تحویل میں رہا۔ اس کے خلاف عام سے کیس داخل کئے گئے اور اسے ایک سمجھوتہ کے تحت رہا کردیا گیا۔ سلو کے بچوں کو آرمی اسکول میں داخلہ دیا گیا اور اسے پابند بنایا گیا کہ سی پیک کے کاموں میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کی جائے گی اور امن امان خراب ہو نے کا ذمہ ار وہ قرار پائے گا۔ اس ڈیل کے بعد سلطو نے مجرمانہ زندگی چھوڑ دی۔ تین مہینے قبل پنجاب سے کچھ لوگ اغوا ہوئے تو علاج کے لئے صادق آباد جانے والی سلطو کی ماں اور دو بچوں کو پولس نے حراست میں لے لیا.۔ سلطو نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا کے وہ مجرمانہ زندگی چھوڑ چکا ہے ۔ پنجاب پولیس اسے تنگ نہ کرے اور اس کی ماں کو رہا کردے اور کچھ دن بعد پنجاب سے دو بندے اغوا کرکے انکے ساتھ زبردستی کی گئی ۔ ویڈیو فیس بک پر اپلوڈ کردی گئی جس کے بعد سلطو کی ماں اور بچوں کو رہا کردیا گیا جس کے بعد کچھ مزید لوگ اغوا ہوئے اور اس طرح ایس ایچ او نے سلطو سے لوگوں کی رہائی میں مدد کے لئے بلایا اور ساتھ لے جا تے ہوئے راستے میں ہی قتل کردیا ۔ سلطو کے قتل کے بعد اس کے رشتہ داروں اور بھائیوں نے پولیس کو ایک وڈیو بھیجی جس میں دھمکیاں دینا شروع کردیں ۔ اسی دوران مزید تین افراد اغوا ہوگئے۔ پولس کی جانبے سے کیمپ قائم کرنے پر پولیس کے ایک مخبر نے پولس کو خطرے سے آگاہ کیا اور علاقہ سے جلد سے جلد نکل جانے کا مشورہ بھی دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ مقتول ڈی ایس پی نے بار بار ایس ایس پی کو گوش گزار کیا کہ یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہمیں واپس جانے کی اجازت دیں لیکن ایس ایس پی نے مغویوں کو بازیاب کرائے بغیر واپس نہ آنے کا حکم دیا ۔ رات دس بجے کے قریب 150 افراد نے راکٹ لانچر سے ان پہ فائر کھول دیا اور کمرے کے اند موجود پانچ پولس اہلکار قتل ہوگئے ۔ اس حملہ کے بعد پولس فورس کے بقایا لوگ بکتر بند گاڑی میں سوار ہو کر جان بچاکر بھاگ گئے۔ ڈاکوﺅں کی کارروائی کے جواب میں پولس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں70 ڈاکوﺅں بشمول راحب شر نامی ڈاکو جس کی گرفتاری پر دس لاکھ روپے مقرر ہیں، کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ آئی جی پولس کہتے ہیں کہ پولس داکوﺅں کے خلاف کارروائی کی حکمت عملی تیار کر رہے ہے۔ اس کارروائی میں پولس کو عوام کا اخلاقی تعاون درکار ہوگا۔ گھوٹکی پولس نے کچھ عرصہ قبل ہی حکومت کو جرائم پیشہ افراد کی ایک طویل فہرست روانہ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکوﺅں کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر انعام مقرر کیا جائے۔ پولس نے بدنام ڈاکوﺅں کے لئے سترہ کڑوڑ روپے کی رقم کا انعام رکھا تھا۔ پولس میں ایسے افراد شامل ہیں جو ڈاکوﺅں کے لئے کسی نی کسی وجہ سے مخبری کرتے ہیں۔ پولس حکام ہوں یا حکومت، کبھی سنجیدگی کے ساتھ محکمہ سے ایساے افراد کی صفائی کو انتظام ہی نہیں کرتے ہیں۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ جب کہا گیا کہ ڈاکوﺅں کے پاس پولس کے ہتھیار ہیں تو جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ جو ہتھیار ڈاکووں کے پاس ہیں وہ ہتھیار یہاں سے نہیں ، باہر سے آرہے ہیں، یہی ٹاسک پولیس کو دیا ہے کہ اسلحے کی رسد ختم کی جائے۔ اینٹی ایئر کرافٹ گن پولیس کے پاس نہیں مگر ڈاکوﺅں کے پاس ہے ۔ ڈاکووﺅں کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ یہاں سندھ میں نہیں بن رہے ان تک کیسے پہنچ رہے ہیں ہمیں اس کا جواب ڈھونڈنا ہوگا؟ محافظ کے پاس جدید ہتھیار نہیں اور ڈاکو جدید ہتھیار سے لیس ہیں۔ سندھ کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جس کو نو گو ایریا کہا جاسکے۔ گھوٹکی کشمور اور شکار پور کے علاقے مشکل علاقے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کچے سے باہر آکر ڈاکوﺅںنے حملہ کیا ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکوﺅں کو کوئی سیاسی سپورٹ حاصل نہیں ہے، اگر کسی بھی سیاسی رہنما کی سپورٹ حاصل ہے تو آپ نام بتائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکوﺅں کی سیاسی سرپرستی کے متلعق ایک سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ غلط ثابت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر رضوان نے شکارپار کے بعض سیاست دانوں کے نام لے کر رپورٹ مرتب کی تھی لیکن ان کی موجودگی میں تحقیقات کی بجائے ان کا ہی پنجاب تبادلہ کرا دیا گیا تھا۔ ان کی رپورٹ پر بڑا شور شرابہ ہوا تھا۔ سب اپنی اپنی صفائی میں بہت کچھ کہہ رہے تھے۔ یہ کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ داکوﺅں کو کن لوگوں کی سر پرستی حاصل ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ڈاکوﺅں کو بوجوہ با اثر افراد کی سرپرستی حاصل رہتی ہے۔ کچے کا علاقہ علاقہ غیر تو نہیں ہے جہاں پولس کی عملداری قائم نہ ہو سکے۔ اس علاقے میں پولس گزشتہ کئی سالوں سے ناکام ہو رہی ہے۔ جس علاقے میں کئی سو ڈاکو موجود ہوں ان کے کھانے پینے اور قیام کا کوئی تو انتظام کیا جاتا ہوگا۔ یہ ڈاکو ہوا میں تو رہتے نہیں ہیں اور انہیں ضرورت کی چیزیں ہوا میں سے تو دستیاب نہیں ہوتی ہوگی۔ ہر بار پولس ڈاکوﺅں کے خلاف با مقصد کارروائی کرنے میں کیوں ناکام رہتی ہے، اس سوال کا جواب تو پولس افسران سے پہلے حکومت سندھ کے کرتا دھرتا صاحبان کو دینا چاہیے۔ (علی حسن)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں