تحریر: نادرشاہ عادل۔۔
احفاظ الرحمٰن ابدی نیند سوگئے۔ ایک انمول، باضمیر، آتش نفس اہل قلم اور بے باک صحافی، ادیب، شاعر اور ٹریڈ یونینسٹ کا تلاطم خیز صحافتی عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔
صبح سویرے ان کے دیرینہ رفیق کار عبداللطیف ابوشامل اور بلال احمد نے فون پر احفاظ الرحمٰن کے انتقال کی اطلاع دی تو چار صحافتی عشرے میری نگاہوں میں گھوم گئے۔ جس عہد آفرین ’’لیجنڈ‘‘ صحافی کو میں نے کبھی کسی مسئلے اور چیلنجنگ ایشو پر مایوس، پژمردہ، اور روتے نہیں دیکھا، اس کی موت کی خبر نے مجھے اشک بار کردیا۔ وہ احفاظ جس نے کڑے وقت میں بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، آخرکار دنیا سے رخصت ہوگئے۔
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے، ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
مسلمہ صحافتی اصولوں، بیش بہا علمی اقدار اور آزادی صحافت کی مسلسل جدوجہد احفاظ بھائی کا ایک استعارہ ہے۔ وہ عمر بھر تقدیس صحافت کےلیے ادارہ جاتی کوششوں کا محور تھے۔ بطور ایک جونیئر جرنلسٹ، ہم نے ان سے لفظوں کی حرمت کا شعور حاصل کیا، ذرائع ابلاغ کو ایک کمٹمنٹ سمجھا۔ معروضیت کو صحافت کی روح سے ہم آہنگ ہوتا دیکھنے کی خواہش احفاظ کے ساتھ قبر میں اتر گئی۔ عمر کے آخری ایام میں احفاظ بہت دل گرفتہ تھے، وہ لفظوں سے بے اعتنائی، مصنوعی علمی روش، شارٹ کٹ اور سطحی تحقیق سے سخت بیزار تھے۔ ان کی آخری گفت گُو جو ہم لوگوں سے ہوتی تھی وہ تلقین اور انتباہات سے لبریز تھی۔ وہ بلاشبہ ایک کاملیت پسند فنکار اور اہل قلم تھے۔ ان کے قلم کی کرافٹ حسن کاری کا مرقع تھی۔ وہ دلآویز تحریر لکھتے نہیں تھے، خون جگر سے کشید کرتے تھے۔ ان کی لاتعداد تحریریں ان کی باغیانہ روش اور روایت کی ترجمان ہیں۔ وہ مارکسی آئیڈیل ازم کی حقیقت پسندی اور سماجی و سیاسی آدرش کی اساس انسانی فکر کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد فری پریس کی حقیقت سے آشنا وطن کی بازیافت سے مربوط تھی۔
ان کی کوشش تھی کہ پاکستان کا نوجوان اردو صحافت کو ایک مقدس امانت سمجھے، اور ڈیلی جرنلزم کو ایک میثاق وفا۔ اس کام میں احفاظ نے کئی سال صرف کیے، نوجوان نسل کی تربیت کی اور اپنے اس کام کو تاعمر ایک وعدے کے طور پر نباہتے رہے۔ ہم جیسے نوواردان صحافت نے احفاظ بھائی کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزارا۔ وہ اہل قلم کی قدر کرتے تھے، جن تحریروں میں جان ہوتی ان کے رائٹرز کو فون کرکے بتاتے کہ آپ نے بہت شان دار تحریر لکھی ہے۔ ہمارے کیریئر کے ابتدائی چند برسوں میں ان کی رفاقت ہمارے لیے کسی نصاب سے کم نہ تھی۔ اس کی داستان طویل بھی ہے اور سحر انگیز بھی۔ اس قدر طویل اور جان لیوا بیماری میں بھی انہوں نے لوح و قلم کے ساتھ اپنا رشتہ مستحکم رکھا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ احفاظ الرحمٰن بڑی دردانگیزی کے ساتھ اردو صحافت اور آزادی اظہار کے مورچے میں ڈٹے رہے۔ انہوں نے صحافت کو جدید میڈیا کی تہذیبی جارحیت، سیاسی لغویات، بے سمتی، انارکی، تجارتی ثقافت اور مضمحل جمہوری رویوں سے خبردار کیا۔
ان کی اپنی تحریر کی سچائی بے مثل تھی۔ وہ ضمیر کے قیدی تھے۔ قلم سے واقعی نشتر کا کام لیتے۔ کسی طالع آزما کو نہیں بخشا اور حقائق کا بے جگری کے ساتھ دفاع کیا۔ ان کی صحافتی زندگی، انسانی آزادی کی ایک قابل قدر دستار ان کے رفقاء نے ان کے سر پر فضیلت کے ساتھ قائم رکھی۔ وہ اپنے معاصرین میں ہمیشہ قابل احترام رہے۔ ان کا ادبی حلقہ اور صحافتی قبیلہ منفرد رہا جسے ”کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ مانیست“ کا درجہ حاصل رہا۔
احفاظ الرحمٰن اصل میں ”زندانی صحافت“ تھے، عمر بھر اصولوں کی خاطر آمروں سے لڑتے رہے۔ ان کے نوک قلم نے کسی ناانصافی پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ وہ سطوت شاہی کو حقارت سے ٹھوکر مارتے رہے، آمریت اور نام نہاد جمہوریت کے نظاموں کو رگیدتے، روندتے ہوئے گزرے۔ انسان دشمنی میں ملوث عالمی قوتوں کے خلاف اشہب دوراں کو دوڑاتے رہے، صحافیوں اور اخباری کارکنوں کے حقوق کےلیے پیش پیش رہے۔ وہ ٹرینڈ سیٹر مزدور رہنما تھے۔ اخباری مالکان سے دب کر کبھی بات نہیں کی۔ آزاد پریس کی بقاء اور تحفظ کےلیے قید و بند کی صعوبتیں اور دار و رسن کی آزمائشیں برداشت کیں۔ وہ ایک سینئر صحافی یا روایتی دانش ور کے ’’ٹیگ‘‘ کے ساتھ زندہ نہیں رہے۔ ان کی شناخت ان کا قلم اور بے داغ صحافتی جدوجہد تھی۔ وہ صحافت کو ہر قسم کی آلودگیوں اور مفاد پرستوں کے مالیاتی گٹھ جوڑ سے بچانا چاہتے تھے۔
جب حالات خراب ہوئے، صحافت کو مکاروں اور طالع آزماﺅں سے خطرات لاحق ہوئے تو احفاظ نے صحافیوں کی لام بندی شروع کی، صحافت کو پابہ زنجیر کرنے والوں کا مقابلہ کیا، پولیس کے ڈنڈے کھائے، گرفتار ہوئے، جیل گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب انہیں اہل صحافت نے جرأت اور بے باکی و بے خوفی کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ کسی قسم کے جابرانہ اقدام، رکاوٹ، قدغن اور سازش کے خلاف ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ آزمائش کی گھڑی میں ڈٹ جانا ان کی عادت تھی۔ وہ فطری باغی تھے، اور ایک بے سمت، منافق اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے سیاست دانوں سے ان کی نفرت اظہر من الشمس تھی۔
ان کے کریڈٹ پر ملک کی معتبر تصنیف ”سب سے بڑی جنگ، جنگ جاری ہے“ ایک یادگار ورثہ ہے۔ یہ کتاب ولولہ انگیز صحافت کے لیے لازوال جنگ کی داستان ہے۔ یہ کتاب انہوں نے ساتھی صحافی اور فکشن نگار اقبال خورشید کی معاونت سے مکمل کی۔ جب گلے کے سرطان نے احفاظ سے قوت گویائی چھین لی تو وہ ایک صوتی آلے سے گفت گو کرتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ وہ غراہٹ، للکار، دبنگ لہجہ اور دشمنان صحافت کو دی جانے والی الٹی میٹمز کی گونج تھمتی چلی گئی، پھر سنائی نہ دی۔ وقت نے ان کے سامنے جسم کی دیوار اٹھا دی اور اسے تو ایک دن گرنا ہی تھا۔ مگر ان کی سخت جانی بے مثل تھی۔ ان کی شریک حیات مہناز رحمٰن سے زیادہ ان کی استقامت اور ہمت کی داد کون دے سکتا ہے۔ میں تو آج اس سمارٹ، خوب رو اور وجیہہ احفاظ کو یاد کرتا ہوں جس کو میں نے روزنامہ ”مساوات“ میں نیلی شرٹ، پینٹ پہنے دیکھا تھا، جب آتش جواں تھا۔ مساوات ایک ادارہ تھا۔ شوکت صدیقی اس کے ایڈیٹر تھے، احفاظ اسسٹنٹ ایڈیٹر، جب کہ ادارہ تحریر میں شہزاد منظر، ذکی حسن اور طاہر احمر نظر آئے۔ میگزین سیکشن میں مہناز قریشی، صفورہ خیری اور ناہید سلطان مرزا جلوہ افروز تھیں۔ شوبز سیکشن میں شمیم عالم، اسلم شاہد تھے۔ میں نے ناصر بیگ چغتائی کے ہم راہ مساوات جوائن کیا۔ خالد علیگ جیسی قد آور شخصیت کا مساوات سے تعلق تھا۔ احفاظ الرحمٰن کو خالد علیگ صاحب کے یہ اشعار بے حد پسند آئے تھے۔
دشت پیما ہے نفس لاکھ بگولوں کی طرح
دل میں یادیں تری محفوظ ہیں پھولوں کی طرح
گرچہ مامور من اللہ نہیں تھے ہم لوگ
ظلم ہنس ہنس کے سہے ہم نے رسولوں کی طرح
حسن ہی حسن ہے دنیا میں جدھر بھی دیکھو
عشق پہ جب سے رکھی ہم نے اصولوں کی طرح
میرا پہلا فیچر شیر شاہ کالونی کے بارے میں تھا جسے احفاظ صاحب نے نظرثانی کے بعد چھاپ دیا۔ وہ دن ہماری صحافت کے ابتدائی دن تھے۔ احفاظ الرحمٰن کی شفقت تھی کہ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے فیچر، مضمون نگاری کےلیے میری حوصلہ افزائی کی۔ تصویروں پر ڈیپ کیپشنز اور پھر ایک مستقل کالم ”اس شہر میں ہم نے کیا دیکھا“ خالد علیگ، مناظر صدیقی اور سید محمد صوفی کی نگرانی میں لکھواتے رہے۔ عنایت حسین مساوات کے چیف رپورٹر تھے۔ احفاظ صاحب اپنی افتاد طبع میں کسی آتش کدہ سے کم نہ تھے۔ ان کی پوری صحافتی زندگی اضطراب، تناﺅ، انقلابی جنون اور مزاحمت میں گزری۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قریبی ساتھی بھی ان کے آتش بجاں مزاج کے شاکی رہے۔ احفاظ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک اکمل پسند لکھاری کے طور پر ان کے اندر کی آگ نے انہیں چین سے رہنے نہ دیا۔ ان کی حیثیت نئی نسل کے صحافیوں کےلیے نصاب کی تھی۔ وہ جیسی صاف ستھری، شستہ و بامحاورہ اردو لکھتے تھے ویسی ہی توقع وہ نئے رائٹرز اور صحافیوں سے رکھتے تھے۔
ادبیات اور فنون لطیفہ پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔ فلمیں دیکھتے تھے۔ ایک بار مجھے دو ڈی وی ڈیز دیں، ایک ”ڈی جینگو“ اور دوسری مغربی ویسٹرن مووی تھی۔ کہا کہ ان فلموں کو دیکھیں، پھر آپ سے بات ہوگی۔ اس کے بعد مجھے کچھ پیسے دیے اور ہدایت کی کہ لیاری کی کیسٹ کی دکانوں سے ایرانی گلوکارہ خانم گوگوش اور کسی نامور افغان گلوکار کی کیسٹ لے آﺅ۔ احفاظ کثیرالمطالعہ شخص تھے۔ ادیبوں، ناقدین اور شعری مجموعوں پر ان کے لکھے ہوئے تبصرے بے شمار ہیں۔ ڈائجسٹوں میں تراجم کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے۔ چو این لائی کی داستان حیات اور ماﺅ کے فلسفیانہ افکار پر تراجم سمیت بے شمار مضامین تحریر کیے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ بلوچستان کی سیاست ان کا خاص موضوع تھا، بلوچ سیاسی رہنماﺅں سے مراسم تھے۔ ایکسپریس کے ادارتی صفحہ پر انہوں نے لگاتار کالم لکھے۔ کالموں اور تجزیہ کاروں کے انداز نظر، ان کی ورلڈ ویو اور ملکی سیاست پر ان کی سوچ پر احفاظ کے تاثرات دلچسپ اور چشم کشا ہوتے۔ تحریروں کے علمی تفوق کو غور سے دیکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی کو اپنی خبر، مضمون، کالم اور انٹرویو کو لکھنے کے بعد توجہ سے پڑھنا چاہیے اور پھر پروف کےلیے کسی اور کو دینا چاہیے، تاکہ اس کی صحت شک و شبہات اور اغلاط سے پاک ہو۔ ان کی صحافتی گرفت سخت تھی۔ زبان کی غلطی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ بطور میگزین ایڈیٹر ایکسپریس میں آئے تو پورے میگزین کی ساخت بدل ڈالی۔ ڈیزائن تبدیل کیے۔ تخیل کی پرواز، ندرت و آئیڈیاز کے استعمال پر بہت زور دیتے تھے۔ عالمی صورت حال پر نگاہ تھی، ملکی حالات پر کڑھتے تھے۔ ایکسپریس کے سٹی پیج پر ان کی موضوعاتی نظمیں قارئین کو پسند آتی تھیں، اسی روایت کو عثمان جامعی نے برقرار رکھا ہے۔
کسی نے کہا تھا کہ احفاظ کی جنّاتی طبیعت ہی صحافتی تجربات کےلیے موزوں تھی۔ ایک جینیئس ہر وہ کام کرتا ہے جسے کوئی روایت پسند خواب و خیال میں بھی نہیں لاسکتا۔ احفاظ ایک فطین انسان تھے۔ ان کی صحبت ایک میڈ از ٹچ کے مترادف تھی۔ ان کا لکھا ہوا چینی فلسفی لوہسون کا مضمون مجھے مدتوں یاد رہا۔ اس جیسی تحریر مجھے بہت کم نظر آئی۔ چین کے قیام کے دوران احفاظ نے مہناز اور رشید احمد بٹ کے ہمراہ پیکنگ کے اشاعت گھر کےلیے کئی اہم کتابوں کے ترجمے کیے۔ اپنی بے روزگاری کے دور میں احفاظ نے جو کچھ لکھا اس میں کمرشل ازم کے باوجود تحریر کے حسن کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ الیکٹرانک میڈیا کی آمد کے بعد انہوں نے اردو صحافت کے معیار پر سمجھوتے کے الزامات اور رجحانات پر بھی بہت اظہار خیال کیا۔ وہ مسابقت میں لازم سمجھتے تھے کہ اردو جرنلزم اپنے معیار کو بلند رکھے۔ وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ایک اچھا جرنلسٹ بہترین ترجمہ بھی کرے، اور انگریزی اور اردو کا ”بائی لینگول“ توازن کو برقرار رکھے تو اردو صحافت کا دامن مزید وسیع ہوگا۔
ایک مرحلہ ان کی زندگی میں ایسا بھی آیا جب آزادی صحافت کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی برسرپیکار ہوئے۔ صحافیوں کی ملک گیر ہڑتال، سنسر شپ، صحافیوں کے خلاف ”وچ ہنٹ“ اور اخبارات و جرائد پر پابندیوں کے خلاف احفاظ کی صدا بلند اور قلم نے دہاڑنا شروع کردیا۔ حقیقی احفاظ ان ہی دنوں میں سامنے آیا۔
آج احفاط الرحمٰن ہم میں موجود نہیں، ہم غم زدہ ہیں۔ ان کی چھوڑی ہوئی روایتیں اور ان سے دو بدو مکالمے ہماری تہذیبی میراث ہیں۔ ہمیں اس احفاظ کو ہمیشہ یاد کرنا چاہیے، ہماری اردو صحافت پر احفاظ صاحب کے اثرات ناقابل فراموش ہیں۔ بے باک صحافی، دردمند شاعر، منفرد قلم کار اور صحافیوں کے قافلہ سالار احفاظ الرحمٰن کے لفظ اور یادیں سدا روشن رہیں گی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔