cybercrime waqiat mein terasi feesad izaafa

سائبرکرائم واقعات میں تراسی فیصد اضافہ

خصوصی رپورٹ۔۔

پاکستان میں سائبر کرائم کے واقعات میں گزشتہ تین سال میں 83؍ فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں سوشل پلیٹ فارمز پر مالی نوعیت کے فراڈ سرفہرست ہیں۔ گزشتہ سال ایف آئی اے نے گرے ٹریفک والے 30؍ گیٹ وے تحویل میں لیے جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو ہر ماہ ہونے والا 2.9؍ ارب روپے کا نقصان ہونے سے بچ گیا۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تین سال کے دوران مختلف نوعیت کے دیگر سائبر کرائمز بھی ہوئے ہیں جن میں فنانشل فراڈ، ہراسگی کے واقعات، جعلی پروفائل، ہتک عزت اور ہیکنگ جیسے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ فیس بک، واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے ملک میں سائبر کرائمز کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، سی سی ڈبلیو نے بتایا ہے کہ 104 ؍ جعلی ٹرانزیکشن احساس پروگرام میں ہوئیں جبکہ اس ضمن میں 95 انکوائریاں ہوئیں اور 10؍ کیس درج ہوئے اور 22؍ ملزمان گرفتار ہوئے، 40؍ لاکھ روپے برآمد کیے گئے۔اس نمائندے کے پاس دستیاب ڈیٹا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان تین برسوں میں لاہور میں سب سے زیادہ شکایات درج ہوئیں جس کے بعد کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کا نام آتا ہے۔

سابق آئی جی افضل شگری نے بڑھتے سائبر کرائمز پر دی نیوز کو بتایا کہ ان واقعات سے جڑے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون صرف دستاویزات کی شکل میں ہے، جب تک جرم کی سزا نہ دی جائے اس وقت تک جرائم کا سلسلہ جاری رہے گا۔فنانشل فراڈ اور سائبر کرائمز میں ان کے اتنے بڑے حصے کے حوالے سے عہدیدار نے کہا کہ حالیہ عرصہ کے دوران حکومتی اسٹرکچر سوشل پلیٹ فارمز پر متعارف کرائے گئے ہیں جو سائبر ورلڈ میں مکمل بے نقاب تھے اور یہ لٹیروں کیلئے کھلی دعوت تھی۔ہراسگی کے بڑھتے واقعات پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مسٹر افضل نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کے حوالے سے آگہی دے، آج کل کے بچوں کے پاس موبائل فونز اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے اور خدا جانتا ہے کہ کیسے۔کوئی کنٹرول نہیں۔ اس انٹرنیٹ نے ثقافتی حدود تباہ کر دی ہیں۔ آئی جی سندھ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر شعیب سڈل سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ اعداد و شمار شاید غلط تاثر دے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ جرائم میں اضافہ نہیں ہو رہا یا پھر ہو رہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ شکایات کے اندراج میں اضافہ آگہی میں اضافے کی وجہ سے دیکھنے کو مل رہا ہے اور لوگ جاننے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم پہلے بھی ہو رہا تھا لیکن شکایات درج نہیں ہو رہی تھیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وسائل کی کمی بھی اہم عنصر ہے کہ اس طرح کے جرائم سے مکمل طور پر نمٹا نہیں جا پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ مسائل سے نمٹنے کیلئے ادارے بنائے گئے ہیں جن میں صرف دس لوگ ہیں حالانکہ مسئلے کے حل کیلئے سو لوگوں کی ضرورت تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے دی نیوز کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018ء سے 2020ء کے درمیان سائبر کرائمز کی شکایت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، ایف آئی اے نے 16؍ ہزار 222؍ شکایات پر کارروائی کی لیکن شکایات کا حجم 94؍ ہزار تھا۔مجموعی شکایات میں سے 60 فیصد گزشتہ سال کی تھیں، تیس فیصد 2019ء کی جبکہ 10؍ فیصد 2018ء کی تھیں۔ 44؍ ہزار شکایات فنانشل فراڈ سے متعلق تھیں۔بائیس ہزار 555؍ ہراسگی، 15؍ ہزار ہیکنگ، 10؍ ہزار 358؍ ہتک عزت کی شکایات تھیں جبکہ 16؍ ہزار 601؍ شکایات جعلی پروفائل کے متعلق 2018ء تا 2020ء جمع کرائی گئیں۔دیگر شکایات میں بلیک میلنگ، دھمکیاں، تاڑنا، توہین آمیز مواد، اسپیم، فحش مواد، وغیرہ شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں لاہور سے 19؍ ہزار، کراچی 12؍ ہزار، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ سے بالترتیب 11126، 9780، 8573، 7273، 5323 شکایات درج کی گئیں۔ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے کامیابی کے ساتھ ایک لاکھ 357؍ شکایات صرف 2020ء میں دور کیں۔(خصوصی رپورٹ)،۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں