خصوصی رپورٹ۔۔
سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد کیخلاف کارروائی کیلئے پی ٹی اے کی آن لائن پورٹل تک 31 وفاقی اور صوبائی اداروں کو رسائی دیدی گئی،جو فیس بک، انٹر نیٹ وغیرہ سے قابل اعتراض مواد ہٹا سکیں گے۔نفرت انگیز، توہین عدالت، گستاخانہ مواد، پورنوگرافی اور ریاست مخالف 9لاکھ 24ہزار 197ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں، جرم ہونے پر ایف آئی اے کا پراسیس شروع ہوجائیگا، شہریوں کی شکایت پر ہی معاملہ سائبر کرائم ونگ کے پاس جائیگا، پی ٹی اے کو قابل اعتراض مواد فوری طور پر ہٹانے کے اختیارات ہیں، ادارہ صرف یو آر ایل بلاک کر سکتا ہے۔قانون کے تحت پی ٹی اے کا کام صرف عوامی یا حکومتی اداروں کی شکایت پر ویب سائٹس بلاک کرنا ہے ، پی ٹی اے کو قابل اعتراض مواد بلاک کرنے کیلئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تاہم جب کوئی جرم ہو جاتا ہے تو پھر ایف آئی اے کا پروسس شروع ہو جاتا ہے ،سائبر کرائم کی شکایات کیلئے عوام کو خود ایف آئی اے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔روزنامہ جنگ کے مطابق قانون کے تحت پی ٹی اے اور ایف آئی اے کی حدود کار متعین ہیں، ایف آئی اے سائبر کرائمز کے کنٹرول کا ریاستی ادارہ ہے ،جبکہ پی ٹی اے کو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA)، 2016 کے تحت قابل اعتراض مواد کو فوری بلاک کرنے کے اختیارات ہیں۔اخبار کے مطابق انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت پی ٹی اے کا ویب اینلائزز ڈائریکٹوریٹ (ڈبلیو اے ڈی) پچھلے کئی سالوں سے غیراخلاقی، فحش ،نفرت انگیز تقاریر، توہین آمیز، مذہب ، ریاست اور عدلیہ مخالف مواد کو بلاک کر رہا ہے،پی ٹی اے دستاویزات کے مطابق انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کی شق 37کے تحت پی ٹی اے کا کام صرف عوامی یا پھر حکومتی اداروں کی شکایت پر متعلقہ ویب سائٹس کو بلاک کرنا ہے۔انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کی شق 37 جو پی ٹی اے کو انٹرنیٹ پر غیر قانونی موادکو بلاک یا ہٹانے کا اختیار دیتی ہے میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کو کسی بھی ایسے مواد کو بلاک ، ہٹانے یا اس تک رسائی کو ناممکن بنانے کا اختیار حاصل ہے جو اسلامی اقدار اور قومی سلامتی، دفاع پاکستان کے منافی ہو ، غیراخلاقی ، امن وامان ، توہین عدالت یا پھر ایسا مواد جس کے تحت کسی کو جرم پر اکسایا جا رہا ہو۔پی ٹی اے حکام کے مطابق اگر کسی شخص کو متعلقہ شخص کیخلاف کارروائی کرنا مقصود ہو تو وہ ایف آئی اے سے رجوع کریگا، پی ٹی اے نے ایک آن لائن ای پورٹل بنا رکھی ہے جسکے ذریعے اسٹیک ہولڈر اداروں کی طرف سے شکایات درج کروائی جاتی ہیں، شکایات موصول ہوتے ہی پی ٹی اے مبینہ غیرقانونی مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے جبکہ عوام کی طرف سے شکایات درج کرانے کیلئے پی ٹی اے نے ای میل بھی جاری کر رکھا ہے۔پی ٹی اے کو چائلڈ پورونوگرافی اور توہین آمیز مواد بلاک کرنے کیلئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اخباری ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کے ایس او پی کے تحت ایف آئی اے معلومات لے سکتی ہے تاہم مواد کی مانیٹرنگ کا کام پی ٹی اے کا ہے جب کوئی جرم ہوتا ہے تو ایف آئی اے کا پراسیس شروع ہو جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق پیکا ایکٹ 2016ءکے تحت ایف آئی اے بغیر شکایت کے آگے نہیں بڑھ سکتا، کرائم سے متعلقہ چیزوں کی شکایت کیلئے عوام کو خود ایف آئی اے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے، پی ٹی اے کی آن لائن پورٹل تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے 31 اداروں کو رسائی حاصل ہے جن میں وزارت داخلہ، وزارت مذہبی امور اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں جو منتخب قسم کی شکایات درج کرواسکتے ہیں۔پی ٹی اے حکام کے مطابق پیکا ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق ہے مگر اندرون اور بیرون ملک بیٹھے سائبر کرائم کے مرتکب شخص یا ادارے تک رسائی ضروری ہے ، فیس بک ، انٹر نیٹ یا کسی دوسری جگہ شائع ہونے والے مواد کے قابل اعتراض ہونے کی شکل میں سائبر قانون متحرک ہو جاتا ہے ،ایف آئی اے اہلکار مواد کی حساسیت کی بنیاد پر از خود کارروائی شروع کرنے کا مجاز ہے۔عام شہریوں کی سائبر کرائم سے متعلق شکایات کا مجاز صرف ایف آئی اے ہی ہے اور قانون نے اسے ہی ہر اختیار ات دیئے ہیں قابل اعتراض مواد کی اشاعت کے بعد متعلقہ شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی ذمہ داری ایف آئی اے سائبر کرائم کے سپرد ہے حال ہی میں اسے اپ گریڈ کر کے طاقتور ادارہ بنا دیا گیا ہے ،ایف آئی اے کے پاس عام لوگ بھی آن لائن شکایات درج کر اسکتے ہیں۔(خصوصی رپورٹ)