تحریر: ملک سلمان۔۔
ایک طرف انفارمیشن منسٹری کے افسران گاڑیوں،ایگزیکٹو الاؤنس اور دیگر بنیادی سہولیات کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف حکمران اسی منسٹری سے نام نہاد تجزیہ کاروں،اینکرز اور سپیشلسٹ سمیت بیسوں عہدوں پر اپنے بندوں کو من مرضی کے پیکچ بانٹ رہے ہوتے ہیں۔سپیشل پروفیشنل پے سکیل پر پانچ لاکھ سے بیس لاکھ روپے ماہانہ پر چہیتوں کو نوازا جاتا ہے حتیٰ کہ ایسے افراد بھی (SPPS)تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہوتے ہیں جو پرائیویٹ اداروں میں بھی ریگولر ملازم ہوتے ہیں۔حکومت سے بیس لاکھ لینے والا پرائیویٹ ادارے سے ایک لاکھ کیلئے آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے جبکہ حکومت کو پتا نہیں اس میں کونسی خوبی نظر آتی ہے کہ اسے کچھ نہ کرنے کا بیس لاکھ دیتی ہے۔
سپیشل پروفیشنل پے سکیل“ہر محکمے میں اپنے بندے ابلائج کرنے کیلئے موجود ہے۔ایک طرف انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سی ایس پی افسران سمیت تمام ملازمین معمولی تنخواہ اور ناکافی سہولیات کے ساتھ بامشکل گزارہ کررہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف صحافیوں اور سیاسی ورکرز کو انہی کے ہاتھوں سے نہ صرف لاکھوں روپے ماہانہ کے چیک جاری کروائے جاتے ہیں بلکہ گاڑیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔افسران کیلئے ایک روپے کا ایگزیکٹو الاؤنس نہیں ہے اور حکومتی چہیتے صحافیوں،اینکرز اور تجزیہ کاروں کو ایک مہینے میں پچاس لاکھ بھی دیے گئے ہیں۔ناکافی تنخواہ سے افسران کے پاس بچوں کی کتابیں لینے کے پیسے نہیں بچتے جبکہ حکومت ڈمی اخبارات کو کروڑوں کے اشتہارات جاری کررہی ہوتی ہے۔ٹی وی چینلز میں اربوں روپے نچھاور کیے جارہے ہوتے ہیں،سوشل میڈیا کی چمک دھمک سے متاثر ہوکر حکومت سب کچھ انہیں دینے کیلئے تیار ہوتی ہے۔دوسری طرف اسی محکمہ کی انفامیشن آفیسرز کیلئے کوئی قابل ذکر سہولت میسر نہیں۔انفارمیشن منسٹری کے افسران کی اس مفلوک الحالی کا ذمہ دار بھی اسی محکمے کے اپنے سنئیر افسران ہیں۔
سیکرٹری انفارمیشن اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر وزیراعظم اور وزیراطلاعات کے قریبی ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر وزیراعظم سے اتنا قریب ہوجاتے ہیں کہ پریکٹیکلی وہی پوری منسٹری چلارہے ہوتے ہیں۔ایم ڈی پی ٹی وی،پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور سیکرٹری انفامیشن اتنے بااختیار اور تگڑے افسران ہوتے ہیں کہ نہ صرف سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں بلکہ جسے چاہیں لاکھوں ماہانہ اور روزانہ دے دیں۔بدقسمتی کہہ لے یا نامعلوم مجبوریاں (نامعلوم حسن ظن رکھتے ہوئے لکھا ورنہ سب کو معلوم ہے کہ یہ مجبوریاں اچھے عہدے،لگژری سہولیات اور بند بانٹ پیسے کی ریل پیل ہے)اہم عہدوں پر تعینات افسران چاہیں تو اپنے محکمے کے افسران کیلئے ہر طرح کی سہولیات،ایگزیکٹو الاؤنس،اچھی رہائش اور مناسب گاڑیوں کی منظوری کروا سکتے ہیں لیکن یہ ان سیٹوں پر آتے ہی اپنے قبیل سے اعلانیہ تو نہیں لیکن پریکٹیکلی لاتعلقی کا اظہار کرکے خود کو مین سٹریم افسران والی کیٹاگری میں لے جاتے ہیں جہاں سوائے حکمرانوں کی جی حضوری اور فرمانبرداری کے کچھ نہیں کرتے۔اہم سیٹوں پر تعینات مذکورہ افسران حکمرانوں کی ہرطرح کی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرکے اپنی زندگی کی ساری محرومیاں دور کرنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے ہوتے۔
جناب وزیر اعظم ایک طرف وہ سی ایس پی افسران ہیں جنہوں نے عوام کیلئے اپنے دفاتر کو نو گو ایریا بنا دیا ہے تو دوسری طرف اسی قابلیت کے حامل انفارمیشن گروپ کے سی ایس پی افسران ہیں جو دن رات حکومت کی ”گڈ وِل“اور مثبت ایمج سازی کیلئے صحافیوں کا منت ترلے کررہے ہوتے ہیں کہ عوامی فلاح وبہبود سمیت اچھے حکومتی کاموں کی کوریج کی جائے۔انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران ٹی وی چینلز،اخبارات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حکومتی اقدامات کی تشہیر کیلئے انتھک محنت کرہے ہوتے ہیں۔یہ وہ افسران ہیں جو چوبیس کروڑ عوام تک آپکی آواز پہنچاتے ہیں لیکن اپنے حقوق کیلئے زبان بندی کیے ان خاموش آوازوں کی صدائیں اور سسکیاں آپ تک کیوں نہیں پہنچ رہیں۔جناب وزیر اعظم ایگزیکٹو الاؤنس،رہائش اور گاڑیوں کے اصل حقدار یہ ہیں جو آپ کیلئے دربدر ہیں۔
میرے سمیت پاکستان کی اکثریت نے کبھی پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی سپورٹس کے علاوہ کسی اور حکومتی نشریاتی ٹی وی کا نام نہیں سنا ہو گا اور مذکورہ دونوں کو بھی کبھی کبھار ہی دیکھتے ہیں۔جبکہ ان کے علاوہ پی ٹی وی ہوم، پی ٹی وی گلوبل،پی ٹی وی بولان،پی ٹی وی پارلیمنٹ،پی ٹی وی ورلڈ،پی ٹی وی نیشنل،اے جی کے ٹی وی، یہ وہ حکومتی سرکاری ٹی وی ہیں جن کا عوام حتیٰ کہ انفارمیشن منسٹری کے افسران کے علاوہ دیگر افسران نے بھی کبھی نام تک نہیں سنے ہوں گے۔یہ سارے ادارے صحافیوں کی وفاداریاں خریدنے کیلئے رشوت دینے کا لیگل زریعہ اور حکومتی و سنئیر افسران کی بندر بانٹ اور کمائی کا اڈا ہیں۔
منسٹری آف انفارمیشن اینڈ بڑاڈکاسٹنگ کے ذیلی محکموں کی بھی لمبی فہرست ہے جن میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ،ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پلیکیشنش، پی ٹی وی کارپوریشن،پاکستان براڈکاسٹ کارپوریشن،ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان،پیمرا،پریس کونسل آف پاکستان،شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈکاسٹنگ کمپنی،پاکستان انفارمیشن کمیشن سمیت درجن بھر مذید ماتحت ادارے ہیں۔ہر ادارے میں وفاداریاں خریدنے کیلئے سیاسی سربراہان اور تقریاں ہیں جہاں ہر نئی حکومت پہلی حکومت کے بندے نکال کر اپنے بندے رکھتی ہے۔
ایسے کالم اخبارات میں اس لیے بھی شائع نہیں کرتے کہ اخبارات کو حکومت اور ان کے چیلوں سے اشتہارات لینے ہوتے ہیں۔(ملک سلمان)۔۔