تحریر: ندیم آرائیں۔۔
اگست 2023 کی ایک تاریک رات، جب کراچی کی گلیاں خاموشی سے اپنے راز چھپا رہی تھیں، میری زندگی کا سکون ایک لمحے میں بکھر گیا۔ رات کے آخری پہر، دو مسلح ڈاکو میری راہ میں رکاوٹ بنے اور مجھ سے موبائل فون اور 25 ہزار روپے چھین کر اندھیرے میں غائب ہوگئے۔
اگلے ہی دن، میں نے لیاقت آباد تھانے کا رخ کیا۔ امید تھی کہ قانون میرا سہارا بنے گا۔ ایس ایچ او نے سمجھانے کی کوشش کی: “مقدمہ درج نہ کریں، تین دن کے اندر آپ کا موبائل ڈاکوؤں سمیت برآمد کروں گا۔” لیکن جب میں نے مقدمہ کے اندراج پر زور دیا، تو بالآخر ایف آئی آر درج ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر، تین دن میں موبائل برآمد بھی ہوگیا۔
مگر اس برآمدگی کا المیہ یہ ہے کہ جس لڑکے سے موبائل ملا، وہ معصوم تھا۔ پولیس نے اسے محض تکنیکی بنیادوں پر گرفتار کیا۔ جب ایس ایچ او اور تفتیشی افسر نے مجھ سے اس کی شناخت کے لیے کہا، تو میرا جواب واضح تھا: “یہ وہ لڑکا نہیں جس نے میرا موبائل چھینا تھا۔عدالت میں، اس لڑکے نے اعتراف کیا کہ اسے میرا موبائل حسن اسکوائر سے غریب آباد جاتے ہوئے سڑک پر پڑا ملا تھا۔ لالچ میں، اس نے موبائل کا کورڈ ڈی ایکٹیو کروایا اور بیچ دیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرکے موبائل برآمد کرلیا، مگر اس کے ساتھ ایک اور معصوم زندگی عدالتی چکر میں پھنسا دی گئی۔
میرا موبائل آج بھی تھانے میں سیل ہے، گویا کسی قید خانے میں بند ہو۔ یہ موبائل میری ملکیت ہے، مگر عدالتی نظام اور قانونی پیچیدگیاں اس کی واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔اس کے برعکس، وہ اصل ڈاکو جو میرا موبائل اور 25 ہزار روپے چھین کر لے گئے، آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ شاید وہ کسی اور کو لوٹ رہے ہوں، مگر انہیں پکڑنے کے لیے نہ کوئی سنجیدہ تفتیش ہو رہی ہے، نہ کوئی ٹھوس کارروائی۔
عدالتی نظام کی سست روی نے میرا وقت، پیسہ، اور ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ ہر پیشی پر، میں اور وہ لڑکا، جو اب ضمانت پر ہے، صبح سویرے عدالت میں کھڑے ہوتے ہیں، صرف یہ سننے کے لیے کہ اگلی تاریخ دی جا رہی ہے۔ آج بھی میں اور وہ لڑکا صبح صبح جب عدالت پہنچے تو دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد ہمیں اگلے ماہ کی 20 تاریخ ملی،انصاف کی منزل یہاں تاریخوں کے گورکھ دھندے میں کھو گئی ہے۔
کیا ہمارا عدالتی نظام صرف تاریخیں دینے کے لیے ہے؟ کیا تفتیش کا یہ حال ہے کہ اصل مجرموں کو چھوڑ کر ایک معصوم لڑکے کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جائے؟نہ میرا 25 ہزار ملا، نہ میرا موبائل، اور نہ انصاف۔ جو ملا، وہ صرف عدالتی نظام کی نااہلی کا کڑوا سبق اور تاریخ پر تاریخ کا بے مقصد انتظار ہے۔(ندیم آرائیں)۔۔