تحریر: جاوید چودھری
لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا تھا‘ انھیں کارپوریٹ سیکٹر سے بھی زیادہ تنخواہ دیتا تھا اور پھر کام کرنے کی آزادی دیتا تھا‘ سنگاپور ان لوگوں نے بنایا‘ وہ کہا کرتا تھا ملک چلانے کے لیے 25 اہل وزراء اور 25 ایمان دار سیکریٹری چاہییں اور بس‘ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کرتا تھا‘ ہر مہینے سنگاپور ائیرلائین سے کراچی آتا تھا‘ جنرل ضیاء الحق سے متاثر تھا‘ یہ اکثر انھیں کہتا تھا آپ اگر 20 کروڑ لوگوں میں سے 20 اہل لوگ تلاش نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہیے۔
اس کا خیال تھا پاکستان دنیا میں کمال کر سکتا ہے‘ وہ پاکستان کو بہت سپورٹ کرتا تھا لیکن آخر میں وہ پاکستان سے مایوس ہو گیا‘ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کو جی 20 (جی ٹونٹی) میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کا موقع ملا‘ پاکستان کو پہلی مرتبہ یہ اعزاز ملا تھا‘ سنگاپور بھی مبصر کی حیثیت سے جی ٹونٹی میں شریک ہوتا تھا‘ ہم دو مرتبہ ان میٹنگز میں شریک ہوئے اور اس کے بعد ہمیں کسی نے دعوت نہیں دی جب کہ سنگاپور آج بھی ان میٹنگز میں شریک ہوتا ہے‘ لی کو آن یو اس کا ذکر ہر پاکستانی لیڈر سے کرتا تھااور کہتا تھا ہم جی 20 میں شامل نہیں ہیں لیکن ہم ان ملکوں کے اجلاس میں بیٹھتے ہیں‘ اس سے ہم ٹرینڈ ہو رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے ہم کبھی نہ کبھی جی 20 کے ایکٹو ممبر ہوں گے۔آپ کو بھی یہ موقع ملا تھا‘ آپ اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے مگر آپ نے یہ موقع ضایع کر دیا‘ کیوں؟ میں اس کی وجہ نہیں سمجھ سکا‘ آپ اس شخص کا وژن دیکھیں 2020کی جی ٹونٹی میٹنگ سعودی عرب میں ہو رہی تھی‘ لی کو آن یو 2015 میں انتقال کر گیا‘ سنگاپور کے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے لہٰذا لی کو آن یو کو انتقال سے قبل 2015میں خدشہ محسوس ہوا سعودی عرب ہمیں میٹنگ میں شرکت کی دعوت نہیں دے گا۔وہ بیمار اور بوڑھا تھا لیکن اس نے وزارت خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کی اور سفارتی ٹیم کو حکم دیا تمہارے پاس پانچ سال ہیں تم نے ان برسوں میں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات اتنے بہترین بنانے ہیں کہ ہمیں ریاض سے جی ٹونٹی میں شرکت کا دعوت نامہ ملے‘ وزارت خارجہ نے کام شروع کر دیا‘ لی کو آن یو 2015 میں فوت ہو گیا لیکن 2020میں سعودی عرب کی طرف سے سنگاپور کو دعوت نامہ ملا اور حکومت نے اس کا باقاعدہ جشن منایا جب کہ ہمیں کس وقت جی ٹونٹی نے بلانا بند کر دیا ہمیں یاد تک نہیں‘ سنگاپور پورٹ طویل عرصہ دنیا کی بہترین پورٹ رہی‘ یہ پورٹ پاکستان کے نیوی آفیسر کیپٹن سعید نے بنائی تھی‘ لی کو آن یوکو کیپٹن سعید میں ٹیلنٹ نظر آیا اور یہ اسے کراچی سے سنگاپور لے گیا‘ یہ شخص اس قدر ٹیلنٹ پرست تھا۔
لی کو آن یو کا چوتھا کمال لاء اینڈ آرڈر تھا‘ اس کا کہنا تھا جس ملک میں امن نہ ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا‘ یہ جنرل ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف تک سب کو ایک ہی مشورہ دیتا تھا آپ پاکستان میں امن قائم کر دیں‘ آپ کا ملک ترقی کر جائے گا‘ لی کو آن یو نے پوری زندگی سنگاپور کی کوئی سڑک بند نہیں ہونے دی‘ اس کے زمانے میں ایک بار سنگا پور ائیرلائین کے پائلٹس نے ہڑتال کی دھمکی دے دی‘ لی نے پائلٹس کو اکٹھا کیا اور کہا سنگاپور میں ڈومیسٹک فلائیٹس نہیں ہیں‘ ہم صرف انٹرنیشنل فلائیٹس چلاتے ہیں۔دنیا کی دو سو ائیرلائینز میری ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر سنگاپور میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں‘ تم نے اگر کل تک ہڑتال کی دھمکی واپس نہ لی تو میں سنگاپور ائیرلائین کے تمام جہاز لینڈنگ رائٹس کے ساتھ کسی دوسری ائیرلائین کو دے دوں گا اور پھر سنگاپور میں کبھی سنگاپورین ائیرلائین نہیں بنے گی‘ تمہارے پاس فیصلے کے لیے 24گھنٹے ہیں‘ پائلٹس جانتے تھے یہ شخص جو کہتا ہے یہ وہ ضرور کرتا ہے لہٰذا پائلٹس نے اگلے ہی دن ہڑتال کی دھمکی واپس لے لی اور اس کے بعد کبھی ہڑتال نہیں ہوئی‘ ملک میں کبھی کوئی مظاہرہ‘ احتجاج یا ہڑتال نہیں ہوئی چناں چہ سنگاپور کا ایک‘ ایک شخص جانتا ہے میں کل جب سڑک پر نکلوں گا تو یہ کھلی ہو گی اور میرا دفتر‘ دکان اور یونیورسٹی پورا سال بند نہیں ہو گی لہٰذا وہاں کاروباری سرگرمیاں بند نہیں ہوتیں۔
اب سوال یہ ہے کیا ہم پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ہمارے ملک میں سب سے غیرمحفوظ سڑکیں ہیں‘ کوئی بھی شخص‘ کسی بھی وقت کوئی بھی سڑک بند کر دیتا ہے اور ریاست اس کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے‘ ہم سڑک بند کرکے سپریم کورٹ اور فوج تک کو اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور کر دیتے ہیں‘ لی کو آن یو نے ملک کو کرائم فری بھی کر دیا اور اس کے لیے اس نے چھوٹے چھوٹے جرائم کو چارے کے طور پر استعمال کیا‘ اس نے چیونگم پر پابندی لگا دی‘ گند پھیلانے کو جرم قرار دے دیا اور غلط جگہ سے سڑک اور گلی عبور کرنے کو سنگین خلاف ورزی بنا دیا‘ اس کا کہنا تھا آپ اگر عوام کوچھوٹے جرائم میں کڑی سزائیں دینا شروع کر دیں تو ان کے دل میں ریاست کا خوف بیٹھ جاتا ہے اور یہ کبھی بڑے جرائم کی غلطی نہیں کرتے‘ سنگاپور نے جب چیونگم‘ گند پھیلانے اور غلط جگہ سے سڑک یا گلی پار کرنے پر ہزار ڈالر سے دو ہزار ڈالر جرمانہ شروع کیا تو لوگ ڈر گئے اور یہ اب بڑی غلطی یابڑے جرم سے بھی دور رہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں جو شخص گلی میں لفافہ‘ شاپر یا ریپر پھینکنے پر معافی نہیں دیتا وہ چوری‘ زنا یا ڈاکے پر ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔
اسے اگر ہم سے اسلحہ مل گیا تویہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا چناں چہ سنگا پور کرائم فری سوسائٹی بن گیا جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں قتل کے 52ہزار مقدمات درج ہیں اور اتنے ہی قاتل جیلوں اور کچہریوں میں پھر رہے ہیں‘ آپ المیہ دیکھیے ہم سوا سال میں 9مئی کے ذمے داروں کا تعین کر سکے اور نہ انھیں سزا دے سکے اور لی کو آن یو کا پانچواں کمال بزنس فرینڈلی ماحول تھا‘ اس نے ایک ایسا سسٹم بنا دیا جس میں بزنس روزانہ کی بنیاد پر ترقی کرتا ہے لہٰذا پوری دنیا کے بزنس مین سرمائے‘ نام اور ٹیم کے ساتھ سنگاپور آ گئے‘ آپ دنیا کی کسی بڑی آرگنائزیشن کا نام لے لیں آپ کو سنگاپور میں اس کا آفس مل جائے گا‘ پوری دنیا کے باصلاحیت بزنس مین بھی سنگاپور میں آباد ہیں یا پھر ان کا زیادہ تر وقت سنگاپور میں گزرتا ہے‘ یہ سیاحت اور تفریح کا بھی بہت بڑا مرکز ہے۔
پورے ملک (شہر) میں ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل ہیں‘ ہوٹلز کے اندر مالز ہیں اور مالز کے اندر ہوٹل ہیں‘ مجھے تین چار مرتبہ سنگاپور جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے مالز کے اندر سائیکل اور جوگنگ ٹریکس دیکھے‘ دسویں منزل پر بھی باغ اور پارکس بنے تھے‘ ہوٹلز کے اندر ’’رین فاریسٹ‘‘ ہیں‘ 34 کلومیٹر کے ملک میں یونیورسل اسٹوڈیوز اور ڈزنی لینڈ جیسے پارکس ہیں‘ آپ کو دنیا کی ہر چیز سنگاپور سے ملتی ہے‘ فیکٹریوں کے لیے جگہ نہیں ہے لہٰذا سنگاپور میں فیکٹریاںہائی رائز بلڈنگز میں قائم ہیں‘ مجھے پچھلے سال کوکا کولا کا ٹاور دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ20 منزلہ ٹاور تھا‘ فیکٹری بھی اسی میں تھی‘سیمنٹ فیکٹریاں بھی ٹاورز میں قائم ہیں‘ گوگل بھی ٹاور میں کام کر رہا ہے اور یہ سارا کمال ایک شخص نے تین دہائیوں میں کیا۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں اگر لی کو آن یو اور 50 لاکھ لوگ یہ کمال کر سکتے ہیں تو 25 کروڑ لوگوں کایہ ملک کیوں نہیں کر سکتا؟ ہم بھی کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے چند بنیادی فیصلے کرنا پڑیں گے‘مثلاً پہلا فیصلہ جمہوریت کا کھیل ہے‘ ہمیں ماننا ہو گا پاکستان میں جمہوریت بری طرح ناکام ہو چکی ہے‘ اس سے نوے فیصد ایسے بدترین اور نالائق لوگ نکلتے ہیں جنھیں بولنا آتا ہے اور نہ لکھنا پڑھنا‘ یہ پیسے‘ اثرورسوخ اور برادری کی مدد سے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اورپھر ملک کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔
ہمیں اس کھیل سے عارضی طور پر جان چھڑانی ہو گی‘ ہم دس سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنائیں‘ اہل ترین اور ایمان دار ترین لوگ تلاش کریں اور انھیں ملک چلانے کی ذمے داری دیں‘دوسرا‘ سال ڈیڑھ لگا کر پورے ملک کا سسٹم آن لائین کر دیں‘ کسی شخص کو کسی سرکاری دفتر نہ جانا پڑے‘ اس سے بیوروکریسی کا سائز اور اثرورسوخ کم ہو جائے گا اور وسائل کی بچت ہو گی‘تیسرا ‘ملک میں دس قسم کی ایجنسیاں اور 14 قسم کے احتسابی ادارے ہیں‘ یہ سب بند کر دیں‘ سنگاپور میں ایک پولیس اور کرپشن تلاش کرنے کا ایک ادارہ ہے‘ آپ بھی بس ایک ادارہ بنائیں اور اسے مکمل اتھارٹی دیں اور یہ کسی کو بھی نہ بخشے‘ وہ خواہ جنرل ہو‘ جج ہو یا سیاست دان ہو‘چوتھا‘ ملک کو بزنس فرینڈلی بنائیں۔
بزنس مین کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے‘ اسے کسی دفتر نہ جانا پڑے‘ یہ آن لائین کمپنی بنائے اور کام شروع کر دے‘پانچواں‘ ملک کی بزنس‘ انڈسٹریل اور اکنامک پالیسی ایک ہی بار بنادی جائے اور اس کے بعد حکومت آئے یا حکومت جائے اس پالیسی میں کامے اور فل اسٹاپ کی تبدیلی بھی نہیں ہونی چاہیے‘ چھٹا‘لاء اینڈ آرڈر بے شک فوج کے حوالے کر دیں لیکن یہ قطعی ہونا چاہیے‘ ملک میں کوئی احتجاج ہونا چاہیے اور نہ کوئی سڑک بند ہونی چاہیے‘ جرائم کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے‘ مجرم گرفتار ہو اور مہینے میں اسے سزا ہو جائے اورساتواں اور آخری نقطہ تمام روایتی تعلیم ختم کر کے پورے ملک کے تعلیمی اداروں کو سکلڈ انسٹی ٹیوٹس میں تبدیل کر دیں‘آپ یقین کریں یہ ملک چل پڑے گا کیوں کہ اگر لی کو آن یو نے ان فارمولوں کے تحت سنگا پور چلا لیا تھا تو ہم بھی چلا لیں گے بس نیت اور ہمت چاہیے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔