تحریر: جاوید چودھری
دنیا میں اسپورٹس واحد شعبہ ہے جس میں قسمت کم اور مہارت زیادہ کام آتی ہے‘ کھیل نفسیات‘ کیمسٹری‘ فزکس اور ریاضی کا زبردست کمبی نیشن ہوتے ہیں اور آپ اس کمبی نیشن پر اسی وقت پورے اتر تے ہیں جب آپ پریکٹس کی انتہا کر دیتے ہیں‘ قسمت بھی بے شک آپ پر مہربان ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا لیکن کھلاڑی صرف قسمت سے پوری زندگی نہیں جیت سکتے‘ یہ چیمپیئن بھی نہیں بن سکتے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ سچن ٹنڈولکر کی مثال لے لیجیے‘ سچن ٹنڈولکر کو کرکٹ کا دیوتا کہا جاتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں‘ یہ کرکٹ کی تاریخ میں 100 سنچریاں بنانے والا پہلا کھلاڑی ہے۔
یہ تاریخ کا پہلا کھلاڑی ہے جس نے 664 انٹرنیشنل میچز کھیلے اور34 ہزار 3 سو 57 رنز بنائے‘ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میں دس ہزار رنز بنانے والا پہلا کھلاڑی بھی تھا اور یہ دنیا میں تیز ترین رنز بنانے والا بیٹس مین بھی ‘ آپ سچن ٹنڈولکر کا اعتماد ملاحظہ کیجیے‘ آسٹریلیا کے بولر بریڈ ہوگ(Brad Hogg) نے 2007ء میں حیدر آباد میں سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کر دیا‘ یہ بریڈ کی زندگی کی سب سے بڑی اچیومنٹ تھی‘ یہ بال لے کر سچن ٹنڈولکر کے پاس چلا گیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا ’’سر یہ میری زندگی کا سب سے بڑا موقع ہے۔
میں نے گاڈ آف کرکٹ کو آؤٹ کر دیا‘ آپ پلیز مجھے اس بال پر آٹو گراف دے دیں‘‘ سچن ٹنڈولکر نے گیند لی اور اس پر مار کر سے لکھ دیا ’’دس ول نیور ہیپن اگین‘‘ (تمہارے زندگی میں یہ موقع دوبارہ کبھی نہیں آئے گا) آپ سچن ٹنڈولکر کا اپنی ذات پر اعتماد دیکھیے‘ بریڈ ہوگ کا اس کے بعد سچن ٹنڈولکر سے 21 مرتبہ سامنا ہوا‘ہوگ نے سچن کا غرور توڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن بریڈ ہوگ دوبارہ اس کی وکٹ نہیں لے سکا‘ سچن ٹنڈولکر کی اس کامیابی کے پیچھے کیا گُر تھا‘ یہ ساڑھے پانچ فٹ کا لٹل ماسٹر تھا‘ یہ بچہ دکھائی دیتا تھا لیکن یہ اس کے باوجود تاریخ کا سب سے بڑا بیٹس مین بنا اور یہ سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلنے اور رنز بنانے والا کرکٹر بھی‘ آخر اس شخص کے پاس کون سا فارمولا‘ کون سا گُرتھا؟ یہ گُر سچن ٹنڈولکر نے 2013ء میں اپنی زبان سے دنیا کو بتایا۔اس کا کہنا تھا میں 1989ء میں سولہ سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ میں آیا اور 2013ء میں 200 ٹیسٹ میچ کھیل کر ریٹائر ہو گیا۔
میرے کیریئر کے 24 سال بنتے ہیں‘ ان 24برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں صبح چھ بجے گراؤنڈ نہ پہنچا ہوں اور میں نے 500 گیندیں فیس نہ کی ہوں‘ میں نے اپنے کیریئر کے 24 برسوں میں موبائل فون‘ آئینہ اور اپنے رشتے داروں کا منہ بعد میں دیکھا اور پانچ سو گیندیں پہلے کھیلیں‘ انٹرویو کرنے والے نے پوچھا ’’آپ نے کبھی چھٹی نہیں کی‘‘ سچن نے جواب دیا ’’میں نے ایک بھی چھٹی نہیں کی‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’کرسمس‘ نیشنل ڈے‘ دیوالی اور دسہرا آپ نے کبھی چھٹی نہیں کی‘‘ سچن نے جواب دیا ’’میں شادی کے دن اور سہاگ رات سے اگلی صبح بھی ٹھیک چھ بجے گراؤنڈ میں تھا۔
میں نے زندگی میں میچز کے علاوہ صرف پریکٹس کے دوران 44لاکھ گیندیں کھیلی ہیں اور یہ وہ 44 لاکھ گیندیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ مجھے گاڈ آف کرکٹ کہتے ہیں‘‘ انٹرویو لینے والے نے پوچھا ’’آپ سنچری یا ڈبل سنچری کرنے کے اگلے دن بھی پریکٹس کرتے تھے‘‘ سچن ٹنڈولکر نے جواب دیا ’’ ہم نے دو اپریل 2011ء کو ورلڈ کپ جیتا تھا‘ میں ورلڈ کپ جیتنے سے اگلی صبح یعنی 3 اپریل کو بھی ٹھیک چھ بجے گراؤنڈ میں تھا اور میں نے پانچ سو گیندیں کھیلنے کے بعد موبائل آن کیا تھا اور وزیراعظم من موہن سنگھ کی مبارک باد کی کال ریسیو کی تھی‘‘ ۔
آپ دیکھیے یہ پریکٹس اور خوفناک حد تک ڈسپلن تھا جس نے ساڑھے پانچ فٹ کے دھان پان سے لڑکے کو دنیا کا سب سے بڑا بیٹس مین بنا دیا‘ جس کے ریکارڈ کوئی توڑ سکا اور شاید ہی کوئی توڑ سکے گا‘ یہ صرف خوش قسمتی‘ ماں یا قوم کو دعائیں نہیں تھیں یہ اس شخص کا ڈسپلن اور کام سے لگن بھی تھی اور اس لگن نے اسے عزت اور شہرت کی انتہا تک پہنچا دیا ورنہ دنیا میں کرکٹرز آتے رہتے ہیں اور جاتے رہتے ہیں لیکن سچن ٹنڈولکر کی طرح ان میں کوئی تاریخ کی پچ پر کھڑا نہیں رہ سکا ۔اسپورٹس یہ ہوتی ہے‘ کھیل اس کو کہتے ہیں جب کہ ہم 65سال سے قسمت کے زور پر کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
ہماری کامیابی کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ بارش‘ ٹاس یا مخالف ٹیم کی بے وقوفیاں یا پھر کرکٹ پر لگا سٹہ‘ ہمیں دنیا بھر کے ’’بکی‘‘ بھی جتواتے ہیں‘ یہ ہم پر اربوں روپے لگوا کر کھربوں روپے کماتے ہیں اور یہ اربوں روپے ہمیں اکثر جتوا دیتے ہیں‘ ہم نے آج تک کرکٹ کو کرکٹ کی طرح کھیلا اور نہ سچن ٹنڈولکر کی طرح کھلاڑیوں کو پریکٹس کرائی چناں چہ ہم ٹیلنٹ کے باوجود آج پوری دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں‘ہم 1992ء میں بھی اگر مگر کی صورت حال کا شکار تھے‘ اگر فلاں ٹیم جیت جائے اور فلاں ہار جائے تو ہم سیمی فائنل کے لیے کوالی فائی کر جائیں گے اور ہم آج بھی اسی صورت حال کا شکارہیں۔
30 جون کو 20 کروڑ لوگ انگلینڈ کی ہار اور انڈیا کی جیت کے لیے دعاکر رہے تھے اور ہم کل ایک بار پھر انگلینڈ کی ہار کے لیے مصلے ڈال کر بیٹھ جائیں گے‘ ہم آج بھی انگلینڈ کی ہار کے محتاج ہیں‘ ہم دشمن کی توپوں میں پانی پڑنے کا انتظار کر رہے ہیں‘ دنیا بھر کی ٹیمیں کرکٹ کو کرکٹ کی طرح کھیلتی ہیں لیکن ہم لوگ کرکٹ کو دعاؤں اور مصلوں کے ذریعے کھیلتے ہیں‘دنیا نے ورلڈ کپ سے ایک سال پہلے اپنی ٹیمیں فائنل کرلی تھیں مگر آپ ہمارا کمال دیکھیے ورلڈ کپ سر پر آ گیا اور ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کون ورلڈ کپ کھیلے گا اور کون باہر ہوگا؟وہاب ریاض اورمحمد عامرورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ ہی نہیں تھے‘ انھیں بعد میں شامل کیا گیا اور یہ اب اچھا پرفارم کر رہے ہیں‘آپ المیہ ملاحظہ کیجیے آپ کے اوپنر ورلڈ کپ میں ابھی تک کوئی خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
ہم نے انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق کوسپورٹ دینے کے لیے ٹیم میں ایکسٹرا اوپنرہی سلیکٹ نہیں کیا تھا ‘ یہ ہے ہمارا پروفیشنل ازم‘ ہم نے کبھی غور کیا اللہ پر یقین نہ کرنے والی ٹیمیں ہر بار کیوں جیت جاتی ہیں اور ہم‘ ہماری دعائیں اور ہمارے مصلے کیوں پڑے کے پڑے رہ جاتے ہیں؟ بات سیدھی ہے وہ لوگ کرکٹ کو کرکٹ کی طرح کھیلتے ہیں اور ہم اسے روزے کی طرح رکھتے اور روزے کی طرح کھولتے ہیں‘ دنیا کرکٹ کو بیٹ اور گیند سے کھیلتی ہے جب کہ ہم اسے دعاؤں‘ منتوں اور صدقوں سے کھیلتے ہیں چناں چہ کافر ہر بار کامیاب ہو جاتے ہیں اور ہم اہل ایمان ہر بار منہ لٹکا کر واپس آ جاتے ہیں۔
آپ المیہ دیکھیے وزیراعظم عمران خان صرف ایک ہی شعبے کے ماہر ہیں اور وہ شعبہ ہے کرکٹ اور ان کے دور میں کرکٹ کا حال معیشت سے بھی برا ہو گیا‘ یہ کرکٹ ٹیم کو بھی پروفیشنل نہیں بنا سکے‘ کاش کوئی ہمارے وزیراعظم اور ہمارے کھلاڑیوں کو یہ سکھا دے‘ آپ جتنی محنت کرتے جائیں گے آپ اتنے ہی خوش نصیب ہوتے جائیں گے اور آپ پریکٹس سے جتنا دور ہوتے جائیں گے آپ اتنے ہی بدنصیب بنتے چلے جائیں گے‘ خواہ آپ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں‘ دنیا میں اگر سچن ٹنڈولکر پریکٹس کے بغیر سچن ٹنڈولکر نہیں بن سکتا تو پھر ہم کون ہیں‘ ہم کس کھیت کی کس قسم کی مولی ہیں‘ ہم کیسے جیت سکتے ہیں اور ہم اللہ کے آسرے پر کتنی دیر کرکٹ کھیل سکتے ہیں اور ہم کتنی بار کامیاب ہو جائیں گے؟لہٰذا میری درخواست ہے آپ خدا کے لیے کرکٹ کھیلیں‘ ہر میچ سے پہلے قوم کے ایمان کا امتحان نہ لیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔