تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
دوستو، انہی سطور کے ذریعے ہم نے آپ کو کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کے بارہ دسمبر کو ہونے والے الیکشن ملتوی ہونے کی بریکنگ دی تھی۔۔ آج بارہ دسمبر ہے۔۔ عمران جونیئر ڈاٹ کام پر لگنے والی بریکنگ کچھ یوں تھی کہ۔۔۔کرائم رپورٹر ایسوسی ایشن پاکستان کے بارہ دسمبر کو ہونے والے الیکشن ملتوی کردیئے گئے۔۔۔ اطلاعات کے مطابق موجودہ الیکشن کے حوالے سے کئی تحفظات سامنے آرہے تھے جس کے بعد کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سینئرز کراچی پریس کلب میں سرجوڑ کر بیٹھے اور کئی گھنٹے کی بحث کے بعد طے پایا کہ الیکشن ایک ماہ کے لئے ملتوی کردیئے جائیں۔۔ اس دوران جنرل کونسل اجلاس بلایا جائے گا جس میں آئندہ کے الیکشن کا آئینی طریقہ کار طے کیا جائے گا۔۔ جب یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ جنرل کونسل اجلاس کب ہوگا اور اگلے الیکشن کی تاریخ کیا مقرر ہوئی تو پتہ چلا کہ چھبیس دسمبر کو کراچی پریس کلب کے الیکشن کے بعد جنوری میں جنرل کونسل اجلاس بلایا جائے گا۔۔ جس کے بعد نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسوسی ایشن کے بڑوں نے اس بات کا بھی سخت نوٹس لیا کہ الیکشن کمپین میں کافی بدتہذیبی سامنے آئی ۔۔ تمام لوگوں کو متنبہ کیاگیا ہے کہ وہ اپنی آئندہ انتخابی مہم تمیز و شائستگی کے دائرے میں چلائیں۔۔
جس روز یہ خبر ہم نے بریک کی،اسی دن ہماری ایک اور تحریر۔۔۔دواستاد، ایک ساتھ۔۔عمران جونیئر ڈاٹ کام کا حصہ بنی تھی۔۔ وہ تحریر ایک روز پہلے لکھی گئی تھی اس لئے الیکشن ملتوی ہونے والا معاملہ ہم اس میں نہ ڈال سکے۔۔لیکن جیسے ہی الیکشن ملتوی ہوئے ،ہم نے سب سے پہلے خبر بریک کی، اور ہماری خبر مختلف واٹس ایپ گروپوں میں گردش کرتی رہی، کئی امیدواروں نے تو ہمیں میسیج کرکے حیرت کا اظہار بھی کیا کہ الیکشن ملتوی کیسے ہوگئے؟ بہرحال۔۔ اب اس سے آگے کی داستان مجھ سے سن۔۔کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان یعنی سی آر اے کے حوالے سے چند حقائق کا آپ لوگوں کے علم میں لانا بہت ضروری ہے۔۔ایک ایسی تنظیم جو میڈیا مالکان کے خلاف خطرے کا الارم بن گئی تھی، اب تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف کیسے گامزن ہے۔۔ کون لوگ ہیں جو اسے تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور اسے دوبارہ سے کیسے مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔۔ آج ہم یہاں اس پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔۔
بہت سے سینئر کرائم رپورٹرز جو سی آر اے میں شروع سے ہیں ،شاید اس بات سے واقف ہوں کہ پبلک اخبار،ایوننگ اسپیشل، لاہور کا ڈیلی صحافت، ایسے اخبارات تھے جہاں میں باقاعدہ کرائم رپورٹنگ اور کرائم کی فالواپ اسٹوریز ایک عرصہ تک کرتا رہاہوں۔۔ لیکن پبلک میں یونین سازی کے بعد جہاں امتیاز شاہ صدر اور میں سیکرٹری تھا، اس تلخ تجربے نے یہ سبق دیا کہ مجھے صرف کام پر توجہ دینا ہوگی۔۔ اس لئے تنظیموں کے بجائے ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا۔۔ اسی دوران۔۔ کرائم رپورٹرز کی ایک تنظیم کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کا قیام دوہزار چار میں ہوا۔۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا اتنا غلبہ نہیں ہوسکا تھا،چند سینئر کرائم رپورٹرز ایک ساتھ بیٹھے، تنظیم بنانے کا سوچا اور تنظیم بناڈالی۔۔ان میں رضا حیدر،عمران حیدر، رجب علی، آصف سعود اور کورٹ رپورٹنگ کرنے والے نعمان رفیق، راؤعمران وغیرہ شامل تھے۔۔ تنظیم بن گئی، ایک سادہ سے کاغذ پر مل جل کر آئین کے نام پر کچھ پوائنٹس لکھ لئے گئے کہ تنظیم کس طرح چلے گی یا چلائی جائے گی۔۔ اس کے بعد سلیم سناٹا۔۔ یعنی۔۔سب اپنے اپنے کاموں میں بزی ہوگئے۔۔اور تنظیم بنا کر سائیڈ پر رکھ دی گئی۔۔کوئی الیکشن ہوا، نہ ممبرسازی ۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ٹی وی چینلزکی بھرمار ہوئی تو کرائم رپورٹرز کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا۔۔اور اضافہ بھی غیرمعمولی اضافہ۔۔کیوں کہ رپورٹنگ میں ہر بندہ کرائم رپورٹر بننا چاہتا ہے۔۔یا پھر اینکر بننا چاہتا ہے۔۔
دوہزار اٹھارہ میں ، جی ہاں، پورے چودہ سال بعد پہلی بار سی آر اے کا باقاعدہ پہلا الیکشن ہوا، الیکشن کمیشن میں امتیاز فاران، شمس کیریو اور شاہد غزالی شامل تھے،جب کہ معاون کے فرائض امجد قائم خانی نے انجام دیئے، اس الیکشن میں شاہد انجم صدر، طحہ عبیدی سیکرٹری منتخب ہوئے۔۔الیکشن کے نتائج کےمطابق ملی جلی باڈی منتخب ہوئی تھی اس لئے مشکلات کا سامنا رہا۔۔اسی طرح نیوزون کے رپورٹر عرفان کے انتقال پر سی آر اے کے احتجاج نے اچانک ہی کایا پلٹ دی۔۔اور کراچی سمیت ملک بھر میں سی آر اے کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔۔ اس احتجاج نےمیڈیا مالکان تک کو ہلا کر رکھ دیا،کیوں کہ سارے کرائم رپورٹرز ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر متحد تھے۔۔اس احتجاج کےایک ماہ بعد سی آر اے کا دوسرا الیکشن ہوا،جسے پہلی بار لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی، اس بار سمیر قریشی صدر اور طحہ عبیدی باآسانی جیت گئے۔۔اس گروپ نے تقریبا کلین سوئپ کیا۔۔
پورے سال انکی حکمرانی رہی قصہ مختصر تیسری بار الیکشن کا اعلان ہوا حکمراں گروپ کے مقابلے پر جرنلسٹ پینل سامنے آیا اسکی جانب صدر کے امیدوار رائو عمران جنرل سیکرٹری کے لئے راجہ طارق تھے غیر متنازعہ شخصیات تھے رائو عمران کو طحہ عبیدی بھی استاد کہتے ہیں جب کہ سمیر قریشی بھی راؤ عمران کو استاد ہی کہتے ہیں۔۔اب ہوا یوں کہ یونائیٹڈ پینل کو الیکشن سے پہلے ہی دو زبردست جھٹکے لگے۔۔پہلا جھٹکا تو اسوقت لگا جب انفارمیشن سیکرٹری کے لئے ان کے امیدوار دانیال سید نے جرنلسٹ پینل کے امیدوار رجب علی کے حق میں دستبراری فارم جمع کرادیا۔۔ دوسرا جھٹکا یہ تھا کہ جرنلسٹ پینل کی جانب سے یونائیٹڈ پینل کے سیکرٹری کے لئے امیدوار طحہ عبیدی کے تیسری بار الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اعتراض جمع کرادیا، اس صورتحال میں آئین کیا کہتاہے ؟؟ حقیقت تو یہ تھی کہ ابھی تک سی آر اے کا کوئی باقاعدہ آئین نہیں تھا،پچھلے دو الیکشن بھی الیکشن کمیٹی نے کراچی پریس کلب کے آئین کے مطابق کنڈکٹ کئے، اس اعتراض پر الیکشن کمیٹی نے طحہ عبیدی سے وضاحت طلب کرلی اور سوال نامہ دیا تو یونائیٹڈ پینل نے الیکشن کمیٹی پر جانبداری کا الزام لگادیا۔۔اس سے پہلے سی آراے کے واٹس ایپ گروپ میں تازہ انتخابی مہم کے حوالے سے گزشتہ الیکشن کی منتخب باڈی پر بلڈر مافیا کے ساتھ چھتوں کی خریدوفروخت،چھالیہ کی اسمگلنگ سمیت دیگر سنگین الزامات عائد کئے جارہے تھے۔۔ان الزامات میں کتنی حقیقت اور کیا سچائی تھی، ہم نے پپو سے تفصیل کریدنے کی کوشش کی تو اس نے یکسر انکار کردیااور کہا کہ، جلتے پر مزید پیٹرول نہ چھڑکو۔۔۔
ان الزامات کے بعد الیکشن کمیٹی نے کوئی فیصلہ تو نہیں سنایا لیکن اپنی عزت کچھ اس طرح سے بچانے میں کامیاب ہوگئے کہ کمیٹی نے الیکشن کرانے سے معذرت کرلی۔۔اب صورتحال کچھ یوں بن رہی تھی کہ جرنلسٹ پینل تو الیکشن کمیٹی پر بھرپوراعتماد کا اظہار کررہا تھا لیکن یونائیٹڈ پینل کو شک تھا کہ کمیٹی جرنلسٹ پینل کو سپورٹ کررہی ہے،اسی لئے طحہ عبیدی کو سیکرٹری کے عہدے پر لڑنے سے روکا جارہا ہے۔۔ ان پے درپے اچانک رونما ہونے والے واقعات کے بعد سی آر اے کے سینئرز نے اجلاس طلب کرلیا، جس کا اعلامیہ ہم بریکنگ کی شکل میں الیکشن ملتوی ہونے والی خبر کی صورت میں پہلے ہی آپ لوگوں کو دے چکے ہیں۔۔جمعرات کی شب الیکشن ملتوی ہوچکا تھا۔۔اب جمعہ کو کیا ہوا۔۔مزید سنیئے۔۔۔
جمعے کی صبح کرائم رپورٹر عمران الرحمن نے ایک تحریر لکھی اور اپنی رکنیت سے استغفا دے دیا۔۔ اس کے بعد ایک اور بانی رکن اور سینئر کرائم رپورٹر آصف علی سید نے گروپ میں لکھا کہ سی آر اے ایک مافیا کا روپ دھا رگئی ہے اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کرے گی اس لئے وہ اغوا اور قتل بھی کروائے گی محھے اپنی جان عزیز ہے یہ کہہ کر انہوں نے بھی اسغفی دے دیا اس طرح تقریبا 50 سے زائد ممبران تادم تحریراب تک سی آر اے سے استعفا دے چکے ہیں۔۔ ممبران کا کہنا ہے کہ سینئرز کے اجلاس میں 2004 سے 15 ,سال تک سی آر اے کو ہائی جیک کرنے والے ایک رکن نے سینئرز سے بدتمیزی کی اور مشترکہ بیان جاری ہونے کے بعد سبوتاژ کرنے کی کوشش کی الیکشن ملتوی ہونے پر نعرے لگائے اور جشن منایا ۔ایک جمہوری عمل کو غیر جمہوری طریقے سے سبوتاژ کیا گیا ۔۔اب سی آر اے کوایک منظم یونین بنانے والے افراد نے اس کو بچانے کے لئے سر جوڑلیا ہے تاہم کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے تنازع کا شکار کرنے والے بابو کا کہنا ہے کہ سی آر اے ،2004 کو بننے والے عبوری آئین کے تحت چل رہی ہےجبکہ اس وقت کے سی آر کے ممبران کو بھی نہیں معلوم تھا کہ آئین کب بن گیا تاہم یہ تو کلیئر ہے جو لوگ 2004 سے سی آر کو گمنام لے کر چل رہے تھے وہ اہک بار پھر منظم سازش کے تحت سی آر اے کو گمنام کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسال منتخب رہنے والے سیکرٹری طحہ عبیدی کا کہنا ہے کہ ہم ہر سازش کوناکام بنائیں گے ناراض ساتھیوں کی شکایات کا ازالہ کریں گے۔
اب سنیئے الیکشن ملتوی ہونے والے اجلاس کی رودار۔۔جس میں سینئرز بیٹھے تھے، اس اجلاس کے دوران اصل میں ہوا کیا تھا؟؟دس دسمبر کی شب سی آر اے کی الیکشن کمیٹی کی جانب سے الیکشن کرانے سے معذرت کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال پر سی آر اے کے سیکرٹری طحہ عبیدی کی جانب سے سینئرصحافیوں کا اجلاس طلب کیا جس میں علائوالدین خانزادہ (اے ایچ خانزادہ)۔جاوید چوہدری۔فہیم صدیقی ۔اسلم خان۔رائو عمران اشفاق ۔شاہد انجم ۔ سمیر قریشی۔ عمران حفیظ۔ آصف سعوداور نعمان رفیق صاحب شریک تھے اجلاس میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے معذرت کرلی اس لئے اب ہفتے کو الیکشن ممکن نہیں رائو عمران نے کہا کہ اس الیکشن کمیشن نےدو سال الیکشن کروائے اس وقت یہ ٹھیک تھے ایک اعتراض داخل ہوا اس پر فیصلہ بھی نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چند سوال پوچھے تو اس پر جانبداری کا الزام لگادیاگیا۔۔راؤ عمران نے الیکشن کمیشن کو خراج تحسین پیش کیا۔۔ اجلاس میں شریک فہیم صدیقی نے کہا کہ ۔۔الیکشن کمیشن چونکہ معذرت کرچکا ہے اس لئے دوسری الیکشن کمیٹی تشکیل دینی ہوگی۔۔اے ایچ خانزادہ صاحب نے سوال اٹھایاکہ ۔۔۔ اب تک کس آئین سے سی آر اے چل رہی تھی؟؟ جس پر نعمان رفیق نے کہا۔۔دوہزار چار کے آئین کے تحت چل رہی تھی۔۔خانزادہ صاحب نے سوال کیا۔۔ وہ آئین منظور ہوا تھا ؟؟ نعمان رفیق نے کہا۔۔ وہ عبوری آئین تھا۔۔ آصف سعود نے ٹائپ کیا تھا اور ہمیں پرنٹ کرکے اسکی کاپی دی گئی تھی۔۔یہ بات سن کر اجلاس میں موجود آصف سعود حیران ہوکر بولے۔۔ جو میں نے ٹائپ کیا تھا وہ آئین تھا ؟ مجھے آج معلوم ہوا اجلاس میں شریک سی آر اے کے پہلے منتخب صدر شاہد انجم نےبتایا کہ ہمارا پہلا انتخاب پریس کلب کے آئین کے تحت ہوا تھا مجھے منتخب ہونے کے بعد بھی اس خفیہ آئین کے بارے میں نہیں بتایا گیا ۔۔خانزادہ صاحب نے کہا یہ کیسا آئین تھا اس؟؟ پر نعمان رفیق نے زور دار طنزیہ قہقہہ لگایا ۔۔خانزادہ صاحب کو یہ بات ناگوار گزری انہوں نےنعمان رفیق کو چپ کرایا۔۔ جاوید جوہدری صاحب نے کہا کہ موجودہ باڈی نے 2004 کے عبوری آئین کو دیکھتے ہوئے ایک آئین تشکیل دیا ہے اکتوبر کے اجلاس میں وہ پیش کیاگیا تھاجومنظور نہیں ہوا۔۔فہیم صدیقی نے کہا۔۔ الیکشن ملتوی کرکے جنرل کونسل بلائی جائے اس میں آئین منظور کرواکے نئی الیکشن کمیٹی تشکیل دے کر الیکشن کروایا جائے رائو عمران نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیٹی کو بھی سننا چاہئےجو متنازع معاملے ہیں انکو علیحدہ کرواکر الیکشن کرادیتے ہیں ۔۔فہیم صدیقی نے کہا کہ آپ کہہ رہےہیں کہ 13سیٹوں پر اس الیکشن کمیشن سے الیکشن کروالیتے ہیں ہم رائو کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔۔جس پر راؤعمران نے کہا بھائی جن سیٹوں پر تنازع انکو چھوڑ کر الیکشن کرالئے جائیں۔۔ جس پر نعمان رفیق نے کہا کہ ہم جرنلسٹ پینل کے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہیں چلوسمیر بھائی اٹھو۔۔ فہیم صدیقی نے کہا کہ ہم سب لو گ اس پر آمادہ ہیں جنرل کونسل کی جائے راؤ راضی نہیں ہے ۔۔خانزادہ صاحب نے کہا کہ دونوں صدر موجود ہیں انکو موقع دو یہ آپس میں فیصلہ کرلیں ۔۔فہیم صدیقی نے کہا۔۔ جب انہیں فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں کس لئے بٹھایا ہے ۔۔راؤ نے کہا کہ میں اپنےساتھیوں سے مشورہ کرکے حامی بھروں گا۔۔ فہیم صدیقی نے کہا معلوم کرلو جنرل کونسل کا ۔۔ راؤ نے کہا ایک اور آپشن دو ۔۔فہیم صدیقی نے کہا کہ اگر یہ الیکشن کمیشن الیکشن کرائے گا تو تما م نشستوں پر کرایا جائے گا۔۔ سمیرقریشی اور راؤ عمران مشورے کے لئے اٹھے۔۔سمیر جلدی واپس آگیا۔۔اور کہا۔۔ہمیں دونوں آپشن منظور ہیں۔۔راؤ عمران آدھے گھنٹے بعد واپس آیا۔۔اس نے کہا کہ ہمارا فیصلہ کہ ایڈ ہاک باڈی تشکیل دی جائے اجلاس طلب کرکے الیکشن کا طریقہ طے کیا جائے او رآئین کی کاپیاں ممبران کو دی جائیں۔۔نعمان رفیق نے کہا کہ ایڈ ہاک کمیٹی کہاں سے آگئی ؟؟یہ نئی کہانی آگئی،پھر سمیر سے بولا، چلو اٹھو یہ بات نہیں بنے گی۔۔ پھر جاوید چودھری صاحب سے کہنے لگا۔۔ میرا آئین مجھے دے دو ۔۔اس رویے پر خانزادہ صاحب کوبھی غصہ آگیا۔۔انہوں نے نعمان سے کہا۔۔یہ تیرا آئین کیسے ہوگیا؟؟ اس موقع پر فہیم صدیقی کو بھی غصہ آگیا پہلی بار چلا کر نعمان سے کہا کہ۔۔بیٹھ جاؤ۔۔فہیم صدیقی نے مشترکہ ڈرافٹ تیار کیا ، جس میں تحریر کیا کہ آئین کی منظوری کے لئے اجلاس طلب کیا جائے ۔۔راؤ عمران نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ اجلاس میں الیکشن کا طریقہ کار طے کیا جائے اس پر کافی بحث ہوئی سینئرز نے تائید کی تو نعمان رفیق نے جاوید چودھری صاحب سے آئین کی کاپی یہ کہہ کر لے لی ،میرا آئین مجھے واپس کرو اور سمیر قریشی کو لے کر اجلاس سے اٹھ گیا۔۔اور جاتے جاتے کہنے لگا۔۔اس میں ایک جملے کا اضافہ کیاجائے کہ ہم نے جرنلسٹ پینل کے مطالبات مان لئے۔۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر چلا گیا۔۔فہیم صدیقی نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا،اس کے بعد آصف سعود نے اسے تحریر کیا، عمران خفیظ جو اجلاس شروع ہونے کے بعد چلے گئے تھے وہ بھی آگئے تھے سب ممبران نے دسٹخط کئے تاہم نعمان رفیق نے کہا میں تو نوٹ لکھے بغیر دستخط نہیں کرونگا اس نے ایک نو ٹ لکھا۔ ۔ جس کے بعد الیکشن ملتوی ہونے والا اعلامیہ جاری کیاگیا۔۔
یہ تھی اصل کہانی۔۔۔ اب اگر کسی کو کچھ برا لگا ہوتو معذرت۔۔ کسی نے ہماری باتوں سے اختلاف کرنا ہے یا اسے چیلنج کرنا ہے تو وہ اپنا موقف ہمیں دے سکتا ہے، ہم اسے ضرور شائع کریں گے۔۔اور آخر میں اہم بات۔۔ سی آر اے نے مختصر وقت میں بہت جلدی اپنی جگہ بنائی، اسے ٹوٹنے سے بچایا جائے ، میڈیا مالکان کی شدید خواہش ہے کہ یہ پلیٹ فارم ختم ہوجائے۔۔ اس تنظیم کے سینئرزدماغ ٹھنڈا رکھ کر فیصلے کریں۔۔جو لوگ استعفے دے چکے ہیں ،انہیں منائیں ،واپس لائیں۔۔ آپس کے معاملات مل بیٹھ کر حل کریں۔۔ آپ لوگ متحد ہونگے تو اپنے کام نکلواسکیں گے۔۔ورنہ کے یوجے اور پی ایف یوجے کے دھڑوں کی مثالیں آپ کے سامنے ہے۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔